ناامیدی پھیلانے والے دانشور اور قلم کار


جذبے کا پانچواں رکن پرامید رہنا ہے۔ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ نا امیدی کو گناہ حتی کفر و شرک قرار دیا ہے۔ انقلاب کی راہ میں کبھی بھی انسان خود پر مایوسی طاری نہ ہونے دے۔ انبیا کی ایک اہم صفت بشیر و نذیر ہونا ہے، بشیر یعنی ہر حال میں پر امید رکھنے والا، انبیاظلم و ستم کی چکی میں پسے عوام کو فتح و کامرانی کی امید دلاتے ہیں کیونکہ امید کی کرن پیدا ہوتے ہی قومیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح انذار بھی صفت انبیا ہے، انبیا لوگوں کو خطروں سے بروقت آگاہ کرتے ہیں اور ان خطرات و آفات سے بچاؤ کی تدبیر بھی بتاتے ہیں۔

لہذا امامت و رہبری کا مقصد صرف نمازیں پڑھانا نہیں ہے بلکہ نا امید قوم کے اندر امید پیدا کرنا ہے، اما م خمینیؒ کی عظیم کامیابی کا راز یہی ہے کہ اما م خود بھی پر امید تھے اور عوام کے اندر بھی امید کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ صدیوں سے جاری استحصال کی وجہ سے جو قوم مکمل طور پر مایوس ہوچکی تھی اس قوم کے اندر امام نے امید کو پیدا کیا اور پھر اسی قوم نے وہ کر دکھایا جس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔ انقلاب کا طویل اور کٹھن راستہ امید سے ہی طے کیا جا سکتا ہے، سختیوں کو جھیلنا، نظام کو بدلنا یہ سب امید کے سبب ہی ممکن ہے۔ امید کا پہلا اثرہی یہی ہوتا ہے کہ انسان ہدف کو قابل حصول سمجھنے لگتا ہے اور پھر اس ہدف کے لیے کوشش شروع کرتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں اکثریت نا امیدی اور مایوسی کا شکار ہیں، ہر انسان دوسرے کو نا امید کر رہا ہے۔ بڑے بڑے نام نہاد انقلابی مفکرین جوانوں کو الہی وعدوں سے صریحاً بد گمان کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں انقلاب؟ ممکن ہی نہیں ہے، انقلاب کبھی بھی نہیں آسکتا۔ پھر کیا کرنا چاہیے؟ پھر تمام عمر نعرے تو انقلاب کے لگاؤ لیکن جب عمل کا وقت آ جائے تو جمہوری گوسالوں کے آگے دھمال ڈالو۔ یہ افراد ذمہ دار ہیں جنہوں نے پاکستان میں عوام کے اندر مایوسی پھیلاکر انقلابی جذبے ابھرنے ہی نہیں دیے، انہوں نے جوانوں کے اہداف، ارادوں اور امید کا قتل کیا ہے جو کسی کے جسم کو قتل کر دینے سے کئی گنا بڑا جرم ہے۔ ہم ذیل میں مایوسی پیدا کرنے والے چند اہم عوامل کا ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کی نظر میں یہ موضوع مکمل طور پر واضح ہو جائے۔

مایوسی کا ایک بڑا سبب ناکامی ہے، امیدوار انسان کبھی بھی ناکامی سے مایوس نہیں ہوتا بلکہ ہر مرتبہ زیادہ تیاری کے ساتھ آتا ہے اور کامیابی حاصل کرلینے تک مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ خطا اور غلطیاں بھی انسان کو مایوس کر دیتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے، لہذا انسان سے کسی بھی فکری یا عملی میدان میں خطا سرزد ہو جائے تو مایوس نہ ہو بلکہ اس کی اصلاح کرے۔ دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا مایوسی کو جنم دیتا ہے، انسان اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرے اور کبھی بھی منفی موازنے کا شکار نہ ہو۔

نا امیدی کا ایک اور بڑا سبب دوسروں کی طرف سے کی جانے والی حوصلہ شکنی ہے، عموماً ہمارے ہاں جوانوں کو نکما، نکھٹو، نالائق کہہ کہہ کر ان کے اندر سے امید کو مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے اور یہ کوئی بھی عملی قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ حوصلہ شکنی کرنے والے خود زندگی کے کسی شعبے میں کچھ بھی نہیں کر پائے ہوتے اور جوانوں کو انقلابی راہ سے دور کرنے کے لیے من گھڑت دلیلیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ انقلابی افراد کے اندر مایوسی پیدا کرنے والا ایک اہم عنصر توقعات کا پورا نہ ہونا ہے، توقع پوری نہ ہونے کا مطلب ہدف سے مایوس ہونا نہیں ہے۔

نشاط و شادابی جذبے کا چھٹا رکن ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہر انسان افسردہ نظر آتا ہے۔ افسردگی وہ دلدل ہے جس کے اندر تمام جذبے ڈوب کے مر جاتے ہیں۔ افسردہ انسان کو دیکھ کر دوسرے بھی افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں، انسان سخت ترین حالات میں بھی ہشاش بشاش رہے تاکہ اس کو دیکھ کر باقیوں کو بھی حوصلہ اور امید ملے۔

انقلابی جذبہ مندرجہ بالا تمام خصوصیات کے ساتھ انسان کے اندر موجود ہو تو راہ انقلاب طے ہو سکتی ہے، ۔ اگر انقلابی جذبہ موجود نہ ہو تو انسان انقلاب کے راستے میں آنے والی صعوبتیں، قید و بند، جلا وطنی، مالی نقصانات وغیرہ برادشت نہیں کر سکتا۔ ہمارے معاشرے میں اکثر فعال لوگ اس وجہ سے راہ انقلاب سے دور ہو جاتے ہیں کہ ان کو مشکلات میں کوئی بچانے والا نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ اگر انقلاب کی راہ میں آبھی جائیں تو نقصان کا باعث بنیں گے کیونکہ یہ انشورنس چاہتے ہیں جبکہ انقلابی انسان کا محرک انشورنس نہیں، اس کا انقلابی جذبہ ہوتا ہے۔ انقلابی انسان تمام مشکلات اور سختیاں آگاہانہ طور پر برداشت کرتا ہے۔ اگر انقلابی جذبہ نہ ہو تو انسان چند اصلاحات پر راضی ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مقصد حاصل ہوگیا ہے۔

انقلابی جذبے کی کمزوری یا تقویت کا اہم عنصر اس قوم کا ماضی ہے، اگر اس کے ماضی میں ایسے کردار موجود ہیں جو اس کے انقلابی جذبے کی تقویت کر سکیں تو یہ انسان یا معاشرہ بہت تیزی سے آگے بڑھے گا۔ آئیڈیالوجی کی نوعیت بھی انقلابی جذبے پر اثرانداز ہوتی ہے، عاشورائی آئیڈیالوجی اپنے پیروکاروں کو قوی انقلابی جذبہ عطا کرتی ہے جب کہ مادی آئیڈیالوجی سے پیدا ہونے والے جذبے نہایت کمزور ہوتے ہیں۔ انقلابی جذبوں کو ٹھنڈا کردینے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل، موجودہ حکومت کے اقدامات ہیں۔

حکومتیں جن کے خلاف انقلابی تحریک شروع ہوتی ہے وہ ستم گری اور فریب دونوں کے ذریے سے انقلابی افراد کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کسی پر ظلم کام آتا ہے تو کوئی فریب اور لالچ کا شکار ہو جاتا ہے۔ حکومتیں ایسے افراد کو میدان میں لاتی ہیں جو وعدے وعید دے کر عوام کے اندر سے انقلابی جذبے کو نکال دیں۔

شاہ ایران نے انقلابی حرکت کو روکنے کے لیے کئی اصلاحی اقدام کرتا تھا، کبھی وزیر اعظم کو تبدیل کر دیتا، کبھی ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دیتا، کبھی سیاسی اسیروں کو رہا کر دیتا، کبھی کسی وزیر کو جیل میں ڈال دیتا۔ حکومت ان اصلاحی اقدامات کے ساتھ ساتھ انقلابی افراد کا قتل بھی کرواتی رہتی تا کہ درندگی اور فریب دونوں کی مدد سے عوام کے حوصلے پست کیے جا سکیں لیکن انقلابی جذبہ اتنا قوی تھا کہ کوئی بھی حربہ انقلاب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔

1949 میں چین کے اندر، ماؤزے تنگ کی قیادت میں آنے والے انقلاب میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ چند لاکھ انقلابی پچاس لاکھ فوج کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود کامیاب ہوگئے۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف ابھرنے والے انقلاب الجزائر میں ہر آٹھواں انقلابی قتل ہوا، اتنی بڑی سطح پر قتل عام کے باوجود انقلاب کامیاب ہوا۔ تاریخ معاصر میں حزب اللہ اور حماس کی اسرائیل جیسی بڑی طاقت کے خلاف مزاحمتی کامیابی، شام و عراق میں عالمی استعمار کے حمایت یافتہ داعش جیسے خونخوار لشکر کے خلاف انقلابی جوانوں کی کامیابی، یمن میں انصاراللہ کے برہنہ پا، ژولیدہ سر، اور نہتے مجاہدین کی مزاحمت، اس بات کی دلیل ہیں کہ جنگیں اسلحے اور ٹیکنالوجی سے نہیں، جذبے سے جیتی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).