سلام آخر، آخر کس کا سلام ہے، ایک مختصر بحث


اردو ادب میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی اور کا کلام کسی اور کے نام سے منسوب و مشہور ہو گیا جیسے کہ وقار انبالوی کا یہ شعر
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب ید الہی اک سجدہ شبیری

علامہ اقبال کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اسی طرح ”تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب بھی“ علامہ اقبال کے نام سے منسوب ہے اور ایک طویل فہرست ایسے اشعار کی موجود ہے جو کہ ہیں کسی اور کے لیکن مشہور کسی اور کے نام سے ہوئے لیکن اگر کوئی ٹھوس دلائل دیتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی اور اسے قبول کر لیا جاتا ہے۔

اردو کے رثائی ادب میں بھی یہ روایت و رویہ بہت عام ہے۔ مثال کے طور پر مشہور زمانہ رباعی
”جب نام علی منہ سے نکل جاتا ہے“
میر انس کی ہے اور انیس و دبیر دونوں کے نام سے پڑھی جاتی ہے اس طرح کے بہت سے اشعار کی نشاندہی راقم اپنے مختلف مضامین میں کرتا رہا ہے۔

ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی ایسا کلام جس کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہو کسی بہت بڑے شاعر کے نام سے منسوب ہوئے اور پاکستان کی تاریخ میں ریڈیو، ٹی وی اور اخبار و رسائل میں پڑھا یا شایع ہوا ہو اور اسے کسی اور شاعر کا کلام کہا جائے اور منسوب کیا جائے۔

یہ بات ہو رہی ہے سید آل رضا کے شہرہ آفاق کلام ”سلام آخر“ کی جو کہ شام غریباں میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے پڑھا جا رہا ہے اور دوسری طرف پہرسر سے تعلق رکھنے والے کچھ بزرگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کلام ان کے خاندان کے بزرگ سید باقر حسین زیدی باقر پہرسری کا کلام ہے اور ”سلام آخر“ کے نام سے ایک کتابچہ میں باقر صاحب کا کلام شایع بھی کیا گیا ہے جس میں آل رضا سے منسوب کلام باقر صاحب کے نام سے شامل ہے تو اب بات زبانی نہیں رہی بلکہ سنجیدہ ہو گئی ہے۔

بحیثیت ایک تحقیق کے طالب علم میں نے ہمیشہ یہ سوچ کے قلم اٹھایا ہے کہ گفتگو میں جانبداری نہیں ہونی چاہیے اور لکھتے وقت یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ اس دنیا میں سب کچھ ممکن ہے یعنی ہو سکتا ہے کہ واقعی یہ کلام باقر صاحب کا ہی ہو کیوں کہ پہرسر کا ذکر ہو تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس مردم خیز سر زمیں سے بڑی بڑی ہستیاں تعلق رکھتی ہیں خاص طور پر رثائی ادب و عزاداری کی ایک قدیم و مضبوط روایت اس خطے کی پہچان ہے تو میں کوشش کروں گا کہ قارئین تک اس پورے معاملے کی روداد پیش کروں اور ساتھ ہی مختصر تجزیہ کتابوں کے حوالوں کے ساتھ تحریر کیا جائے۔

کچھ عرصہ قبل مجھے شام کے وقت اپنے ماموں کا فون آیا اور انہوں نے اطلاع دی کہ ان کے ایک دوست جو کہ پہرسر سے تعلق رکھتے ہیں، نے نشست میں بتایا کہ یہ کلام ان کے بزرگ باقر صاحب کا ہے اور انہوں نے وہ کتابچہ بھی دیا جس میں ان کا کلام شامل ہے میں آفس سے ماموں کے گھر گیا اور تفصیل سے اس کتابچہ کا مطالعہ کیا تو دیکھا واقعی اس کلام میں وہ اشعار شامل ہیں جو کہ سلام آخر کے طور اور پڑھے جاتے ہیں۔

اس موضوع پر مزید تفصیل سے گفتگو یا تجزیہ سے پہلے سید آل رضا اور باقر حسین باقر زیدی پہر سری کا مختصر ذکر کر لیتے ہیں۔

آل رضا و باقر زیدی کا مختصر تعارف:

کتاب آل رضا کے مرثیے کے تمہیدی جملوں میں سید ہاشم رضا لکھتے ہیں کہ آل رضا 10 جون 1896 کے دن قصبہ نیو تنی ضلع اناو میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کا بیشتر دور لکھنو میں گزرا۔ رثائی ادب سے گہری وابستگی تھی اور چشم و چراغ انیس و دبیر کے کے مرثیے سننے اور استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی اور غزل میں آرزو لکھنوی سے اصلاح لی۔ غزل سے سلام اور مرثیہ کا سفر بخوبی طے کیا۔

سید باقر حسین زیدی باقر بھی مرثیہ گو شاعر تھے اور ان کا تعلق پہرسر سے تھا۔ مرثیہ کے مشہور شاعر فیض بھرتپوری نے اپنے مرثیوں کی کتاب فیض کے مرثیے میں پہرسر کے 16 مرثیہ نگاروں کا تذکرہ کیا ہے جس میں باقر صاحب کا مختصر تعارف لکھتے ہوئے کہتے ہیں کے ان کے والد کا نام سید صابر علی زیدی تھا انہوں نے ہندی زباں میں بھی مرثیے لکھے ہیں۔ اس کے بعد باقر صاحب کے سات اردو اور دو ہندی مرثیوں کے مطلعے تحریر کئی ہیں۔

کتابوں و رسائل میں سلام آخر کی اشاعت کا سال:

آل رضا کے نام سے یہ سلام ہفت روزہ ”رضا کار“ میں 1953 میں شایع ہوا تھا اور مرثیہ کے ممتاز محقق وحید الحسن ہاشمی کے صاحبزادے شہید ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی نے کتاب باقیات آل رضا میں لکھا ہے کہ یہ نظم سید آل رضا نے عاشور کی شب 10 محرم الحرام نیو تنی، لکھنؤ میں 1934 میں پڑھی تھی۔ پچھلے 70 برسوں میں متعدد اخبارات، رسائل و کتابوں میں یہ کلام آل رضا کے نام سے چھپا ہے جبکہ باقر حسین زیدی باقر کے نام سے ایک کتابچہ سید محمد عباس جعفری پہر سری نے شایع کیا جس میں اشاعت کا سن و سال نہیں لکھا گیا ہے۔

شایع ہوئے کلام کی نوعیت و ہیئت :

آل رضا کا کلام 19 اشعار پر مشتمل ہے اور یہ سلام مثنوی کی ہیئت میں ہے جبکہ باقر حسین باقر زیدی کا کلام مخمس کی صورت میں شایع ہوا ہے جس میں چوتھا اور پانچواں مصرع وہ شعر ہے جو آل رضا کے کلام کے طور پر ناصر جہاں نے سلام آخر کی صورت میں پڑھا ہے پہلا بند پیش خدمت ہے اور ایسے 15 بند اس کتابچہ میں شا مل ہیں، کتاب کے سر ورق پر سلام

آخر درج ہے
سلام ظلم رسیدوں پہ غم گساروں کا
سلام پیاسوں پہ آنکھوں کے آبشاروں کا
سلام عرش وقاروں پہ خاکساروں کا
”سلام خاک نشینوں پہ سوگ واروں کا
غریب دیتے ہیں پرسہ تمہارے پیاروں کا“

کتابوں اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں سلام آخر کا تذکرہ:

راقم کے کتب خانہ میں دو ایسے پی ایچ ڈی کے مستند مقالے کتابی صورت میں موجود ہیں جن میں جگہ جگہ آل رضا کا سلام بطور حوالہ دیا گیا ہے

1۔ اردو سلام نگاری کا تاریخی و فکری جائزہ، سید عباس رضا 2004 نے تو باقاعدہ ہیئت کے حوالے سے آل رضا کے سلام کو بڑی اہمیت دی ہے اور جگہ جگہ اس سلام کا ذکر موجود ہے۔

2۔ سید آل رضا، احوال و آثار، ڈاکٹر محسنہ نقوی، 2002 کا مقالہ جو کے آل رضا پر ہے میں اس سلام کا حوالہ خصوصیت کے ساتھ موجود ہے بلکہ ڈاکٹر صاحبہ نے اس سلام کو آل رضا پر پی ایچ کا محرک قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے رثائی ادب کے محققین نے سید آل رضا کے مرثیوں اور سلاموں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جن میں علامہ ضمیر اختر نقوی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی شامل ہیں۔

راقم نے اس سلام کے حوالے سے مختلف محققین و ادبا سے گفتگو کی جن سے اس صورتحال کے بہت سے پہلووں پر بات کی جا سکتی ہے مثال کے طور پر چند ایک یہاں درج ہیں۔

1۔ ناصر جہاں صاحب کے بیٹے اسد جہاں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو وہ بھی لا علم تھے کہ ایسا کوئی کلام کسی اور کا بھی ہے۔ اسد جہاں نے کہا کہ شا ید یہ آل رضا کے سلام کی تضمین کی گئی ہے کیوں کہ ان کے پاس ان کے والد کی تحریر میں یہ سلام آل رضا کے نام سے درج ہے جسے ان کے والد اور وہ پڑھتے ہیں اور ایسا ناممکن ہے کہ کسی مخمس میں سے آخر کے دو مصرے لے کر اسے سلام کی طرز میں پڑھا جائے۔

2۔ آل رضا نے خود ایک انٹرویو میں یہ سلام تحت اللفظ میں پڑھا ہے اور سید آل رضا کی شخصیت کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو ایسا ممکن نہیں لگتا ہے کہ وہ کسی اور کا کلام خود سے منسوب کریں جب کے ان کی شہرت و اہمیت رثائی ادب کے حوالے سے مسلمہ ہے۔

3۔ آل رضا کے نام سے درجنوں اخبار، رسائل و کتابوں میں کلام موجود ہونا اور اس کے مقابلے میں صرف ایک سات پیج کا کتابچہ وہ بھی مخمس کی ہیئت میں کوئی بہت مضبوط حوالہ تصور نہیں کیا جائے گا۔

4۔ شاہد نقوی صاحب نے ایک گفتگو میں راقم کو بتایا تھا کہ آل رضا کے اس سلام اور ناصر جہاں کی طرز کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے اپنا شہرہ آفاق کلام ”اب آئے ہو بابا“ پہلے ناصر جہاں کو ہی دیا تھا لیکن تائید ایزدی تھی کہ یہ کلام عزت لکھنوی پڑھیں اور یہ کلام ان کی پہچان بن جائے جیسے ناصر جہاں اور اب اسد جہاں کے سلام آخر پڑھنے سے شام غریباں کا اختتام ہوتا ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تحقیق کا در ہمیشہ کھلا ہے اور کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).