کراچی کی حالت زار اور پروین شاکر


بارشوں کے رومانس سے پرانے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ ساون میں پڑے جھولے اور اماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا اور نجانے کیا کیا۔ لیکن کراچی میں تو بارشیں ہمیشہ عذاب بن کر ہی نازل ہوتی ہیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں۔ 1973 یا 1974 میں جب میں روزنامہ مساوات کراچی میں کام کرتی تھی۔ مون سون کا زمانہ تھا۔ ہم دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی، ہمارا خیال تھا کہ ایک دو گھنٹے میں رک جائے گی مگر بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

ہمارا دفتر ڈینسو ہال کے پاس اگر مجھے گلی کا نام صحیح یاد ہے تو سرائے روڈ پر واقع تھا۔ کچھ دیر بعد میں صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے بالکونی میں گئی تو شوکت صدیقی صاحب بھی اٹھ کر میرے پیچھے آ گئے۔ دیکھا تو نیچے سڑک پر پانی بھرا ہوا تھا، سڑک نالہ بن چکی تھی۔ ”ہائے، اب میں گھر کیسے جاؤں گی“ میں نے پریشان ہو کر کہا۔ ”جیسے وہ عورتیں جا رہی ہیں“ شوکت صاحب نے مسکراتے ہوئے اشارہ کیا۔ نیچے جھانک کر دیکھا تو کالے برقعے پہنے ہوئے دو عورتیں گھٹنوں تک شلوار چڑھائے جا رہی تھیں۔

شوکت صاحب کی ہنسی اس وقت زہر لگ رہی تھی لیکن ان کا احترام مانع تھا۔ اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ اس روز دفتر میں حاضری ویسے ہی کم تھی۔ سمجھدار لوگ بارش کے آثار دیکھ کر گھر سے نکلے ہی نہیں تھے۔ جو آئے تھے، دفتر میں ہی رات گزارنے کا پروگرام بنا کے بیٹھے ہوئے تھے۔ رات کے نو دس بج گئے تو ہمارے ایک دوست فرشتۂ رحمت بن کے ہمیں لینے آ گئے۔ ٹیکسی یا رکشہ ملنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ خوش قسمتی سے نارتھ ناظم آباد ہمارے گھر جانے والی ’ٹو کے‘ روٹ کی بس مل گئی اور ہم اس میں سوار ہو کے گھر پہنچے۔

کراچی میں جب بھی بارشیں ہوتی ہیں، سڑکیں ندی نالے بلکہ دریا بن جاتی ہیں، گٹر میں گر جانے یا پانی میں کرنٹ آ جانے یا بجلی کے کھمبے کو ہاتھ لگ جانے سے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ کہانی ہے جو کراچی میں نجانے کب تک دہرائی جاتی رہے گی۔ پی ٹی وی کے سہیل جمالی سے جب ہم نے موجودہ بارشوں کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ”سر جانی، شادمان، نارتھ کراچی، لیاقت آباد، اور دیگر متاثرہ علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔

نیو کراچی میں سندھی ہوٹل والی سڑک ایک کلو میٹر تک در یا کا منظر پیش کر رہی ہے۔ فوج/رینجرز وہاں موجود ہے۔ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں، خواتین بچے پریشان ہیں۔ بلدیاتی عملہ اور صوبائی حکومت کے کارپرداز خانہ پری اور دوروں میں مصروف ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن اور الخدمت فاؤنڈیشن کے رضا کار پانچ پانچ فٹ پانی میں سے گزر کر یوسف گوٹھ اور سر جانی ٹاؤن کے مکینوں کو کھانا پہنچا رہے ہیں۔ النور سوسائٹی کے پاس سات سات گھنٹے لوگ اپنی گاڑیوں میں سڑکوں پر پھنسے رہے ہیں۔ فون نیٹ ورک بند ہو گئے تھے۔ رضاکار تنظیمیں ربر کی کشتیوں میں لوگوں کو ایک سے دوسری جگہ پہنچا رہی ہیں۔“

یہ تو زمینی صورتحال ہے، دوسری طرف ٹویٹر سمیت سوشل میڈیا پر ایکٹوسٹس کی لفظی جنگ جاری ہے۔ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کراچی ڈوب رہا ہے اور دوسرے گروپ کا کہنا ہے کراچی بالکل ٹھیک ہے۔ ہماری بیٹی فیفے کو سوشل میڈیا پر یہ بحث دیکھ کر بہت غصہ آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا ”آپ کو پتا ہے پروین شاکر نے کہا تھا کہ“ کراچی ایک بیسوا ہے ”۔ سچی بات ہے ہمیں بالکل یاد نہیں تھا۔ کسی اور شاعر نے کہا ہو گا، ہم نے بے یقینی کے عالم میں کہا تو وہ سامنے شیلف میں رکھی ہوئی پروین شاکر کی کلیا ت اٹھا لائی۔ آخری مجموعے ’انکار‘ میں وہ نظم موجود تھی۔

کراچی
ایک ایسی بیسوا ہے
جس کے ساتھ
پہاڑوں، میدانوں اور صحراؤں سے آنے والا
ہر سائز کے بٹوے کا آدمی
رات گزارتا ہے
اور صبح اٹھتے ہی اس کے داہنے رخسار پر
ایک تھپڑ رسید کرتا ہے
اور دوسرے گال کی توقع کرتے ہوئے
کام پر نکل جاتا ہے
اگلی رات کے نشے میں سرشار

پروین شاکر کراچی کی بیٹی تھی۔ اس سے بڑھ کر کراچی کے دکھ کو کون سمجھ سکتا تھا۔ چند ہفتے قبل ہی سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کے زیر آب آنے کو ایسا المیہ قرار دیا تھا جس کی کسی کو پروا نہیں۔ ناجائز تعمیرات اورکچرے کے ڈھیر نے پانی کے نکاس کا راستہ بند کر دیا ہے۔ عدالت کو اس بات پر غصہ تھا کہ ہر ادارہ دوسرے ادارے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ بارشوں کے پانی میں لوگوں کی گاڑیاں بہہ جاتی ہیں، جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔

گھروں میں پھنسے ہوئے بچوں کو لوگ نکال نہیں پاتے۔ حکومت کا وکیل کہتا ہے کہ کچرا اٹھانا کے ایم سی اور SSWMB کی ذمہ داری ہے۔ کے ایم سی والے کہتے ہیں کہ کچرا اٹھانا ان کی نہیں SSWMB کی ذمہ داری ہے۔ عدالت کو صوبائی حکومت اور مقامی حکومت دونوں پر ہی غصہ آتا ہے۔ منصفین کرام بھی اسی شہر میں رہتے ہیں اور صورت حال سے آگاہ ہیں۔ اسی لئے انہوں نے مختلف اداروں کی پیش کردہ رپورٹوں کو مسترد کر دیا۔

ادھر وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل پیش کرنے جا رہے ہیں۔ آج 28 اگست کو جب یہ سطور قلم بند کی جا رہی ہیں، سندھ حکومت نے شدید بارشوں کی وجہ سے تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے۔ جب کہ لازمی سروسز فراہم کرنے والے ادارے کھلے ہوئے ہیں۔

اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ صوبائی اور مقامی قیادت بٹی ہوئی ہے۔ صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے اور مقامی حکومت ایم کیو ایم کی ہے اور دونوں ہی اور ان کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی اس وقت تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ بدین، حیدرآباد، ماتلی، ٹنڈو الہٰ یار سمیت دیگر شہروں میں بھی ابتر صورتحال ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر امدادی اور بحالی کارروائیوں کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ اور اس بحرانی صورتحال میں کراچی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ کراچی بہت Resilient ہے۔ کراچی کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا لیکن یہ ققنس کی طرح اپنی ہی راکھ کے ڈھیر سے پھر جی اٹھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ حکومت پانی نہیں دیتی، لوگ بورنگ کروا کے پانی کا انتظام کر لیتے ہیں۔ حکومت شہریوں کے جان و مال کی حفاظت میں ناکام رہتی ہے تو لوگ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ رکھ لیتے ہیں، حکومت بلا تعطل بجلی کی فراہمی میں ناکام رہتی ہے تو لوگ جنریٹر اور یو پی ایس خرید لیتے ہیں لیکن مسئلہ یہ کہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق تو ظلم اور نا انصافی کی طرف ہی لے جائے گا۔ ریاست کو کوئی تو ذمہ داری سنبھالنی ہو گی۔ بنیادی انفرا اسٹرکچر کھڑا کرنا اور تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

ہم جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں لیکن جمہوریت کی نرسری مقامی ادارے یعنی لوکل باڈیز یا مقامی حکومتیں ہوتی ہیں۔ جمہوریت صرف وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتوں کا نام نہیں۔ ان کے ساتھ مقامی حکومتوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).