عمران خان : آپ بڑے کب ہوں گے؟


ایک ایسے وقت میں جب ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی، تاریخ کی بدترین بارشوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک روز میں بیس سے زائد افراد بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شہر کے محلے، گلیاں اور سڑکیں کئی فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، کاروبار بند ہیں اور مکان زیر آب ہونے کی وجہ سے لوگ چھتوں پر رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عمران خان نے اے آر وائی کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں نواز شریف کی لندن روانگی اور این آر او نہ دینے کے معاملہ پر تفصیلی گفتگو کرنے کو ترجیح دی ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب وزیر اعظم! آپ بڑے کب ہوں گے؟

کب عمران خان یہ بات واقعی تسلیم کرنے لگیں گے کہ وہ اس ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور پسند ناپسند کے باوجود ملکی معاملات طے کرنے اور عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے۔ کب انہیں پتہ چل سکے گا کہ ملک میں اختیارات کی تقسیم کے غیر متوازن طریقہ (سول حکومت بمقابلہ فوج) کے باوجود لوگوں کے ووٹوں سے منتخب لیڈر کو ہی اچھے برے فیصلے کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی پڑتی ہے اور اسی سے باز پرس بھی کی جائے گی۔ ابھی تو وہ فوج کی طرف اشارہ کرکے یا اس کی توصیف میں قلابے ملا کر خود کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور جب تک وہ فوجی ہدایات کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہیں گے، ان کا اقتدار محفوظ رہے گا۔ اقتدار کی حفاظت کا یہ ’آسان طریقہ‘ اور اپوزیشن پر الزام تراشی کا حربہ مسلسل کسی بھی لیڈر یا حکومت کے لئے کارگر نہیں ہوسکتا۔

تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال پورے ہوچکے ہیں۔ کارکردگی کے نام پر ان کے پاس دکھانے کے لئے ایک بھی ٹھوس شعبہ نہیں ہے جہاں بہتری کے آثار دکھائی دیے ہوں۔ معاشی بدحالی، مہنگائی، بیروزگاری، سماجی افراتفری اور انتہاپسندی کے داخلی ماحول میں عوام چہار طرف سے مشکلات کا شکار ہیں۔ خارجہ پالیسی کے نام پر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر ٹوئٹ پیغامات ہیں یا یہ دعوے کہ کس حکومت کے سربراہ کو انہوں نے اپنے ’ٹھوس دلائل ‘ سے متاثر کر لیا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل تصادم کی کیفیت ہے۔ بھارتی وزیر اعظم پر ذاتی حملے کر کے دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتنی تلخی بھر دی گئی ہے کہ باہمی مفاہمت تو کجا، مواصلت کا امکان بھی انتہائی محدود ہو چکا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی کشمیر پالیسی پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستانی وزیر اعظم کشمیریوں کا سفیر ہونے کا دعویٰ کرکے دراصل اس معاملہ میں ایک ایسا فریق بننے کا اعلان کررہا ہے جس کے کشمیر کے بارے میں جغرافیائی اور اسٹریٹیجک مفادات ہیں۔ اس رویہ سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے حق کے لئے نہیں، اپنے مفاد کے لئے کشمیر کو اپنے زیر تصرف لانا چاہتا ہے۔ حکومت کسی بھی سطح پر یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اس طریقہ سے دنیا تو کیا خود کشمیری عوام بھی پاکستان کی نیت اور حکمت عملی کے بارے میں شبہات کا شکار ہونے لگے ہیں۔ کشمیر کا تنازعہ 1948 کی قرار دادوں کی بجائے معروضی حالات اور صورت حال کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اس نکتہ کو سمجھنے سے کوسوں دور ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ اگر کوئی دوست اور حلیف ملک کشمیر کے مسئلہ پر پاکستانی طریقے اور تقاضوں سے اتفاق نہیں کرتا تو ملک کے وزیر خارجہ ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس پر غرانے لگتے ہیں۔ پاکستانی حکومت یہ بنیادی اصول ماننے میں شدید مشکل محسوس کررہی ہے کہ ہر خود مختار ملک اپنی ضرورتوں اور سوچ کے مطابق خارجہ پالیسی ترتیب دیتا ہے۔ سفارت کاری میں ایک دوسرے کی پوزیشن کو سمجھتے ہوئے مل کر چلنے کی راہ نکالی جاتی ہے۔ لیکن عمران خان نے شاہ محمود قریشی کی صورت میں خارجہ امور کا نگران ایک ایسے شخص کو بنایا ہؤا ہے جس کے چند جملوں سے دہائیوں کے اعتماد میں دراڑ پڑ چکی ہے اور یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ’وسیع عالمی حمایت‘ کے بارے میں حکومت کے دعوے ڈھونگ ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم اس غلطی کا تدارک کرنے کی بجائے نواز شریف کے خوف میں مبتلا ہیں۔ کہ وہ اگر سیاست میں متحرک ہو گئے تو ان کے اقتدار کا کیا بنے گا۔

اے آر وائی کو دیے گئے انٹرویو کو کئی حوالوں سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس میں وزیر اعظم کی کوتاہ نظری اور حکومت کو درپیش سیاسی چیلنج سے خوف کو نمایاں طور سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف گزشتہ برس نومبر میں طویل طبی معائنے، متعدد لیبارٹری ٹیسٹ اور کئی مراحل پر پھیلی عدالتی کارروائی کے بعد بغرض علاج لندن گئے تھے۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس ہفتہ کے دوران بھی اس بات پر اصرار کیا ہے کہ نواز شریف کے پلیٹیٹس کی تعداد خطرناک حد تک کم تھی اور ان کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ انہوں نے ایک وفاقی وزیر کے عائد کئے گئے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ نواز شریف کی طبی رپورٹیں جعلی تھیں اور ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو اور اس ماہ کے شروع میں وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت مقرر ہونے والے ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا تھا کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے۔ اس کے باوجود ایک انسان کی صحت کے سوال پر سیاست کرنے کے لئے حکومت نے کئی ارب روپے کا ضمانتی بانڈ طلب کیا تھا جسے لاہور ہائی کورٹ نے غلط فیصلہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد نواز شریف لندن روانہ ہوئے تھے۔

نواز شریف کی روانگی نے دراصل حکومت کے اس دعوے کی قلعی کھول دی تھی کہ وہ کسی بھی قیمت پر کسی سیاسی لیڈر کے ساتھ مفاہمت نہیں کرے گی۔ اس کا جواب عمران خان پر واجب ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ تمام تر خواہش کے باوجود نواز شریف کو جانے سے کیوں نہ روک سکے؟ یہ وضاحت کافی نہیں ہے کہ نواز شریف کی زندگی کے بارے میں شدید خطرہ موجود تھا ، اس لئے حکومت انہیں اجازت دینے پر مجبور ہوگئی۔ عمران خان ایک طرف ملک میں امیر اور غریب کا قصہ سناتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک قانون غریب کے لئے، دوسرا امیر کے لئے ہے اور وہ اس صورت حال کو تبدیل کررہے ہیں۔ اس دعوے کی روشنی میں انہیں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے یہ جواب دینا چاہئے کہ کیا ملک میں آباد 23 کروڑ لوگوں کو نواز شریف کی طرح شدید بیماری کی صورت میں بیرون ملک جاکر علاج کروانے کی سہولت میسر ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے اور عوام کی بڑی اکثریت ملک میں موجود سہولتوں سے ہی استفادہ کرتی ہے تو عمران خان نے ایک مجرم کے لئے مساوات کا اصول کیوں توڑا؟

اس سوال کا جواب گزشتہ دس ماہ کے دوران اس معاملہ پر حکومت اور وزیر اعظم کی خاموشی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے بس میں ہوتا تو وہ واقعی نواز شریف کو علاج کی ہر سہولت سے انکار کرتے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کی ’انسان دوستی‘ ان کی سیاسی ضرورتوں کی محتاج ہے لیکن وہ جن عوامل کی وجہ سے مجبور تھے، ان میں ایک کا بالواسطہ ذکر انہوں نے انٹرویو میں کیا ہے لیکن اصل وجہ سے وہ کبھی پردہ نہیں اٹھائیں گے کیوں کہ ایسا کرتے ہوئے انہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ وہ خود کیسے قومی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی ہونے کے باوجود وزیر اعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سچ اور ایمانداری کے دعوؤں کے باوصف ملک کا کوئی وزیر اعظم ان ’قومی رازوں‘ سے پردہ نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ اس کے بعد اس گئے گزرے زمانے میں بھی وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔

عمران خان کی تمام تر ناقص حکمت عملی، انتظامی ناکامی اور سیاسی اشتعال انگیزی کے باوجود ان کے پاس اس مختصر مدت میں بھی دو ایسے مواقع آئے تھے کہ وہ اپنی قیادت کی دھاک بٹھا سکتے تھے۔ مارچ کے دوران ملک میں کورونا وبا نے انہیں یہ موقع فراہم کیا تھا کہ وہ عوام کی حفاظت کے اقدامات کرتے ہوئے پوری قوم کو متحد کرتے۔ تاہم یہ موقع انہوں نے اپنی سیاسی کم حوصلگی کی وجہ سے ضائع کر دیا۔ وزیر اعظم کے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹھوس اور عوام دوست حکمت عملی بنائی اور اسے نافذ کرنے میں کامیاب رہے۔

پہلے دن سے عمران خان کو یہ خوف محسوس ہؤا کہ اگر مراد علی شاہ کورونا پالیسی کی وجہ سے ’قومی ہیرو‘ بن گئے تو ان کی لیڈری شبہات کا شکار ہوجائے گی۔ اس لئے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے تحریک انصاف کی پالیسی حکومت سندھ کو نیچا دکھانے تک محدود رہی۔ عمران خان نے کورونا بمقابلہ غریب کی دہائی دے کر بروقت لاک ڈاؤن سے انکار کیا۔ فوج نے اس موقع پر رابطہ مرکز اور کمانڈ سنٹر قائم کیا اور وزیر اعظم کو وبا سے نمٹنے کے لئے چند بنیادی باتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ اسے سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دے کر وزیروں مشیروں نے عمران خان کو ایک ایسا عالمی لیڈر ثابت کرنے کے لئے مقابلہ بازی شروع کر دی جس کی پالیسی کو امریکہ اور یورپ بھی اپنانے پر مجبور ہو گئے۔

اب ایک موقع کراچی میں شدید بارشوں کے سلسلہ اور ہنگامی صورت حال نے فراہم کیا ہے لیکن اب بھی کراچی کے مصائب کو پیپلز پارٹی کو نیچا دکھانے کی سیاست کے لئے استعمال کرنے کا رجحان حاوی ہے۔ حالانکہ اس موقع پر وزیر اعظم اور ان کے وزیروں کو سیاسی بیان بازی کی بجائے سب قومی وسائل اور صلاحیتوں کو کراچی کے عوام کی امداد اور وہاں شہری زندگی بحال کرنے پر صرف کرنے چاہئیں۔ عمران خان کو اس وقت وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر نواز شریف کے خلاف انٹرویو دینے کی بجائے، کراچی میں عوام کے بیچ ہونا چاہئے تھا لیکن وہ اس کے لئے مزید ایک ہفتہ انتظار کریں گے۔

عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ کوئی بھی اپوزیشن لیڈر انتخابات کے بغیر موجودہ حکومت کے پیدا کردہ مسائل کا بوجھ اٹھانے پر تیار نہیں ہے۔ انہیں فوج کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ اس کے پاس عمران خان کو سہولت فراہم کرنے کے بعد اب ان کی کامیابی کی امید رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن اگر عمران خان نے بلوغت کا مظاہرہ نہ کیا اور سیاسی خوف کی کیفیت سے باہر نہ نکلے تو وہ خود ہی اپنے زوال کی بنیاد رکھنے کا سبب بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali