’بعض اوقات تشدد کرتے ہوئے کہتے تمھیں معلوم ہے کہ تمہیں کیا بولنا ہے؟‘


لاپتہ افراد

فائل فوٹو

‘قید کے دوران ایک دن مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی گئی۔ اس نے روتے روتے مجھ سے پوچھا کہ رمیض (فرضی نام) تمھاری سیاست نے ہمیں کیا دیا؟ میرے سارے بچے مار دیے گئے ہیں۔ پھر کبھی مجھے اپنی ماں کی روتے ہوئے آواز سنائی دیتی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ تمہیں وہی ادویات کھلائی گئی ہیں جو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد فلسطینی قیدیوں پر استعمال کرتی ہے ۔’

یہ واقعات بی بی سی کو سندھ اور بلوچستان کے سرحدی شہر سے ایک سینئیر سیاسی ورکر رمیض (فرضی نام) نے بتائے جنھیں بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کی اگست 2006 میں ہلاکت کے چند ماہ بعد حراست میں لیا گیا اور پھر وہ کافی عرصے تک لاپتہ رہے تھے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

2018 میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ

ہدایت نامہ برائے مِسنگ پرسن

جبری گمشدگیاں: ’700 کیس زیر التوا، مزید سینکڑوں کی اطلاع‘

’واپس آنے والے اسی حکومت میں لاپتہ ہوئے‘

11 سال سے لاپتہ والد کی راہ تکتی سمی بلوچ کی کہانی

جسمانی تشدد کے بجائے ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ

رمیض بلوچ کی عمر 64 سال ہے اور انھیں اپریل 2007 کو مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔

رمیض بلوچ نے بتایا کہ دوران قید ان سے سوال کیا گیا کہ نوابزادہ براہمدغ خان اس وقت کہاں ہیں؟ ان کی والدہ کہاں ہیں؟

انھوں نے جواب دیا کہ آپ کے پاس امریکہ کی دی ہوئی جدید ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے آپ کو پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ کہاں سے گفتگو کر رہے ہیں۔

ان کی والدہ کے بارے میں مجھے کیا پتہ کہ وہ کہاں ہیں، ان کا نواب اکبر خان بگٹی کے خاندان کے ساتھ صرف سیاسی تعلق ہے۔

بقول ان کے، انھیں جسمانی تشدد کے بجائے ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس سے ان کی ذہنی کیفیت کافی متاثر ہوئی تھی اور انھیں ہر وقت مختلف لوگوں کی آوازیں سنائی دیتی تھی۔

‘کبھی یہ آواز سنتا کہ آج دو جنازے ہوں گے۔ ایک دن سنا کہ رمیض کو زندہ قبر میں گاڑ دیا جائے کیونکہ یہ کمیونسٹ ہے۔’

انھوں نے بتایا: ‘ایک دن میں نے تفتیش کار سے پوچھا تھا کہ آپ میری لاش گھر والوں کے حوالے کرو گے تو اس کے جانے کے بعد آواز سنائی دی کہ تم نے ہمیں تنگ کیا ہے۔ ہم نے اکبر خان کی لاش نہیں دی تھی یہ ہم سے پوچھتا ہے میری لاش ورثا کو دو گے۔’

رمیض بلوچ کا دعویٰ ہے کہ انھیں دوران تفتیش مختلف پیشکشں بھی کی گئیں۔

‘انھوں نے کہا کہ آپ جمہوری وطن پارٹی کو چھوڑ کر حکمران لیگ میں شامل ہو جائیں۔ ہم آپ کو سینیٹر منتخب کروائیں گے۔ پھر دو تین دن گزرنے کے بعد انھوں نے بتایا کہ وہ جمہوری وطن پارٹی میں ایک نیا دھڑا بنا رہے ہیں اس میں شامل ہو جائیں، تاہم میں نے صاف انکار کردیا۔’

وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے وہ مطالبات نہیں مانے تو انھیں کھانے پینے کی اشیا میں ادویات ملا کر کھلانی شروع کر دی گئیں جس سے ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بہت زیادہ متاثر ہو گئی اور رہائی کے کئی سالوں بعد جا کر ذہنی کیفیت بتدریج بہتر ہوئی ہے۔

Short presentational grey line

جسم پر ڈنڈوں کی بوچھاڑ کرتے

علی ( فرضی نام) کا تعلق کراچی سے ہے اور ان کی عمر 30 سال کے قریب ہے۔

وہ ایک ماہ لاپتہ رہے جس کے بعد ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ دوران تفتیش انداز سخت اور بد تمیز تھا۔

‘دوران تفتیش آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہوتی تھی۔ دائیں اور بائیں طرف دو اہلکار ڈنڈوں کے ساتھ موجود ہوتے جو تفتیش کار کے اشاروں پر جسم پر ڈنڈوں کی بوچھاڑ کرتے۔

جب ان کے کسی سوال کے جواب میں لاعلمی کااظہار کرتے تو تشدد کیا جاتا۔ کبھی زمین پر الٹا لیٹا کر تشدد کرتے، اس کے علاوہ منہ پر تھپڑ مارتے اور بعض اوقات تشدد کرتے ہوئے کہتے تمھیں معلوم ہے کہ تمہیں کیا بولنا ہے؟

علی کا کہنا ہے کہ ان سے ای میل آئی ڈی کے پاس ورڈ کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک کی آئی ڈی کی معلومات لیں اور انھیں کچھ تصاویریں دکھائیں اور ان کے بارے میں معلومات چاہیئں۔

علی کا کہنا ہے کہ وہ اس ایک ماہ کے تشدد کی صورتحال سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی اُن دنوں کو یاد کرکے رات بھرسو نہیں پاتے، مزاج میں چڑچڑا پن آگیا ہے اور احساس مایوسی اور بے چارگی بڑھ گئی ہے۔

Short presentational grey line

دشمن سمجھ کر تشدد کیا جاتا

محمد وریام ( فرضی نام) کا تعلق زیریں سندھ سے ہے۔ ان کی عمر 60 برس ہے اور وہ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی کارکن رہے ہیں اور بعد میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہوگئے۔

وہ تین ماہ سے زائد عرصہ تحویل میں رہے۔ دورا تفتیش ان کے ساتھ مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد ہوتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہہ تشدد کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ یوں سمجھ لیں کہ دشمن سمجھا جاتا تھا جس پر ڈنڈے اور ہنٹر برسائے جاتے تھے۔

وریام علی کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ تفتیش کار ناخن نوچتے، جلتا سگریٹ جسم پر لگاتے، قید تنہائی میں رکھ کر سونے نہیں دیتے تھے۔

‘بار بار یہی سوالات تھے کہ باہر سے پيسے کون بھیجتا ہے۔ کس کس ملک میں گئے ہو۔ فلاں بندے سے کب اور کیسے واسطہ ہے۔ سی پیک کو کس تناظر میں دیکھتے ہو۔’

وریام کے مطابق ‘زبردستی ادویات کھلائی جاتی تھیں۔ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس مرض کی ہیں اور کیوں کھلائی جارہی ہیں۔ رہائی کے بعد یادداشت شدید متاثر ہوئی ہے اور عارضہ قلب کا مریض بن چکا ہوں۔’

Short presentational grey line

مجھے کہا کہ تم طالبان دہشت گرد ہو

گل خان (فرضی نام) کا تعلق کراچی کے پشتون اکثریتی علاقے سے ہے۔

انھیں گذشتہ سال حراست میں لیا گیا اور 20 روز زیر حراست رکھا گیا۔ اُس وقت ان کی عمر 18 سال سے کم تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے حمایتی ہیں اور ان کی کراچی میں سرگرمیوں میں شرکت کرتے تھے جب ایک دن کسی نے فون کیا کہ آپ کو ملازمت دی جارہی ہے، وہاں فلاں فیکٹری کے پاس شام کو پہنچنا۔

گل خان کا کہنا ہے کہ وہ فیکٹری کے قریب پہنچے تو ایک ویگو گاڑی رکی جس میں سے چند لوگ اترے اور ان کے منہ پرکپڑا ڈال کر اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے گئے۔

‘تین چارلوگوں نے مجھ پرتھپڑوں اور لاتوں کی بارش شروع کر دی اور کہا کہ تم طالبان دہشت گرد ہو اور اب انڈیا کے لیے پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے کام کررہے ہوں۔ پھر ایک تنگ سے کمرے میں کرسی پربٹھا دیا۔ وہاں جب سونے کی کوشش کرتا تھا تو ایک بندہ مجھے تھپڑ مارکر سونے نہیں دیتا۔’

گل خان کے بقول، روزانہ دن میں دو مرتبہ تفتیش کے لیے انھیں لے جایا جاتا جہاں پی ٹی ایم کی مقامی لیڈرشپ، ان کے متحدہ قومی موومنٹ لندن اور طالبان سے تعلق وغیرہ کے متعلق سوالات پوچھتے تھے۔

‘میں صرف ان کاحمایتی تھا، اس لیے مجھے تین چار ناموں کے علاوہ پی ٹی ایم کی کراچی قیادت کے بارے میں کچھ معلومات نہیں تھی۔ چار روز تک تھپڑ اور گھٹنوں پرڈنڈے مارے گئے پھر ایک افسر کو میں نے یہ کہتے سنا کہ بچہ ہے اس پر زیادہ تشدد نہ کیا جائے۔ اس کے بعد تشدد بند ہوگیا اور پھرکھانے پینے کے لیے چیزیں بھی فراہم کی گئیں لیکن ان سارے دنوں میرے منہ ماسک یاکپڑا لگارہا۔ 20ویں دن سپر ہائی وی کے قریب چھوڑ دیا۔’

Short presentational grey line

چیک اپ کے نام پر کچھ انجکشن لگائے

نوتک بلوچ ( فرضی نام) کو 2017 میں تحویل میں لیا گیا اور وہ کئی سال لاپتہ رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش مار پیٹ، گالم گلوچ عام تھا۔ دیوار سے ٹیک لگانے اور آنکھوں پر سے پٹی ہٹانے یا پاؤں پھیلانے کی اجازت نہیں تھی۔

انھوں نے بتایا کہ دوران حراست ان کے ساتھ جسمانی تشدد ہوتا جیسے ہاتھ اوپر باندھ کر لٹکانا اور کسی مخصوص آلے کی مدد سے جسم کی کھال کو کھینچنا اور اس کے علاوہ ذہنی تشدد بھی کیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں سونے کی اجازت نہیں تھی اور واش روم کا وقت بھی دو سے تین منٹ مقرر ہوتا تھا۔

‘حراست کے پہلے ہفتے چیک اپ کے نام پر کچھ انجکشن لگائے گئے تھے۔ رہائی کے بعد ہڈیوں کی کمزوری، معدے کی بیماری، یاد داشت کی کمزوری، سر کا شدید درد اور بے خوابی کا شکار ہوں۔’

Short presentational grey line

رہائی کے بعد خیالات منتشر ہوجا نا معمول بن گیا

حمل بلوچ ( فرضی نام) 15 ماہ زیر حراست رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تفتیش کے ابتدائی ایام میں رویہ سخت تھا جس میں اکثر مار پیٹ ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی رویہ میں تبدیلی آگئی۔

‘اکثر سوالات تنظیمی فنانس کے متعلق، دوستوں کے نام اور رہائشگاہوں کے بارے میں کیے جاتے تھے اور اہل خانہ کا حوالہ دیکر نفسیاتی دباؤ بھی ڈالا جاتا تھا۔’

حمل کے مطابق رہائی کے بعد انھیں پیروں میں درد ، سر درد چکر آنا، چیزوں کو بھول جانا، خیالات منتشر ہوجا نا معمول سا بن گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp