ہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیں


انسانی اعضا

ایک ریسرچ کے مطابق، انسانی جسم کے بعض اعضا دوسرے اعضا کی نسبت تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ایک مجموعی جسم کی عمر کی نسبت زیادہ عمر پاتے ہیں۔ کیا یہ بات دریافت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم طویل عمر تک زندہ رہ سکتے ہیں؟

یہ ایک بہت ہی پریشان کن حالت تھی۔ ایک 19 برس کی ترک خاتون کو جگر کی تبدیلی کے لیے فوری طور پر کسی کے جگر کے عطیے کی ضرورت تھی۔ جب جگر کے عطیے کے وصول کنندگان کی منتظرین کی فہرست میں اس کا نام تھا، تو اسی دوران اُسے ہیپاٹک انسیفالوپیتھی (جگر کی بیماری سے ہونے والے کوما) کا مرض لاحق ہوگیا۔ یہ ایک ایسی حالت ہوتی ہے جب جگر کی ناکامی کی صورت میں جو زہر آلودہ مادہ خون میں شامل ہوتا ہے وہ دماغ کو بری طرح متاثر کرنے لگتا ہے۔

اس سے پہلے اس کے جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور ڈاکٹر اس کی زندگی بچانے کی کوششیں کر رہے تھے۔

جب اس کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا تھا، ڈاکٹروں کے پاس اب صرف ایک رستہ رہ گیا تھا کہ وہ جگر کے اس عطیے کو آزمائیں جسے باقی دوسرے ہستالوں نے مسترد کردیا تھا۔ عطیہ کیا گیا جگر بری حالت میں تھا۔

اس میں نہ صرف انفیکشن کی وجہ سے پس موجود تھے، بلکہ جس کے جسم سے یہ عطیہ حاصل کیا گیا تھا وہ خود ترانوے برس کی معمر خاتون تھی جس کا اسی وقت انتقال ہوا تھا۔ جگر کی پیوندکاری کے مروجہ اصولوں اور معیار کے لحاظ سے یہ ایک بہت زیادہ عمر کا جگر تھا اور خاص کر ایک ایسے جسم کے لیے جو خود بہت جوان تھا یہ کچھ زیادہ ہی بوڑھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جسم کے چھ حصے جو کسی کے کام نہیں آتے

ڈاکٹروں نے دھڑکتے دل کا آپریشن کرنا کیسے سیکھا

’میرا بچہ مر گیا لیکن اس نے ایک بچے کو زندگی دی‘

جس کا دنیا میں کوئی نہیں اس کا ٹرانسپلانٹ کیسے ہوگا؟

لیکن اس وقت حالت یہ تھی کے اس جوان خاتون کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا اور کوئی دوسرا جگر فوری طور پر مل نہیں سکتا تھا، تو ڈاکٹروں نے اسی جگر کی پیوندکاری کے لیے آپریشن شروع کردیا۔ کمال کی بات یہ ہوئی کہ یہ آپریشن جو ترکی کے شہر ملاتیا کی انونو یونیورسٹی کی لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ میں سنہ 2008 میں کیا گیا تھا، کامیاب ثابت ہوا۔

یہ جوان ترک عورت زندہ رہی اور پیوندکاری کے اس آپریشن کے چھ برس بعد اس نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ کے موقع پر یہ ترک خاتون 26 برس کی ہو چکی ہے اور اُس وقت اس نے اپنے جگر کی سو ویں سالگرہ منائی۔

ہم میں اس بات کا بہت لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ اپنے دادا نانا کی عمر کے لوگوں کا جگر استعمال کرنے سے کیسا محسوس کریں گے۔ لیکن کمال کی بات جو سمجھ میں آئی وہ یہ کہ ہمارے جسم کے بعض اعضائے رئیسہ ہماری طبعی زندگی سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں جب کہ بعض اعضا ہماری زندگی سے پہلے ہی تیزی سے بوڑھا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کے جسم کے اعضاء اور جسم کے ٹیشوز بوڑھے ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا جسم اصل میں کتنا بوڑھا ہوا ہے نہ کہ یہ کہ آپ کون سی سالگرہ منا رہے ہیں۔

عمر کی طوالت کی ریسرچ کے بارے میں جس بات کو جاننے میں بہت زیادہ تجسس ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہ آپ کی اصل میں عمر کتنی ہے بلکہ اصل دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ آپ کتنے برس جی سکتے ہیں۔ دراصل، ماہرین اس فرق کے جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ اپ کو پیدا ہوئے کتنے برس ہوگئے ہیں اور آپ کے جسم کی ‘بائیولوجیکل عمر’ کتنی ہے، یعنی یہ کہ ہماری عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کے اعضا کی کارکردگی کیسی بدل رہی ہے۔

ایسے افراد کی تعداد سو سے زیادہ بڑھ گئی ہے جن کے جسموں میں بوڑھوں کے جگر کے عطیوں کی پیوندکاری کی گئی ہے۔

سرجری

ان دو قسم کے اعداد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک بدیہی احساس پیدا کرتے ہیں کہ یہ دونوں اعداد ہر مرتبہ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہماری غذا میں بے احتیاطی اور معمول کے اوقات میں نیند کا پورا نہ کرنے سے ہم طبعی عمر کے لحاظ سے جلد بوڑھے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

بوڑھے ہونے کے عمل کے بارے میں ہمارا عمومی تصور یہ ہے کہ ہمارا جسم ایک مجموعی اکائی کی صورت میں بوڑھا ہوتا ہے، تاہم ہر شخص کے لیے بڑھاپے کی ایک اپنی رفتار ہوتی ہے۔ اگرچہ بڑھاپے کا یہ مجموعی اکائی کی صورت میں وقوع پذیر ہونے کا یہ تصور ہمارے جسم کے روبہ زوال ہونے کے عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، لیکن اس سے ہمیں اس جسم کے بوڑھا ہونے کے عمل کی مکمل تصویر نظر نہیں آتی ہے۔

ریسرچ بتاتی ہے کہ جینیاتی، طرزِ زندگی، ماحولیاتی عوامل جو ہماری جسم کے بوڑھا ہونے کی رفتار کا تعین کرتے ہیں، وہ ہمارے جسم کے تمام اعضا کو ایک ہی رفتار کے ساتھ بوڑھا نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔

ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق، اس لیے ممکن ہے کہ ہم ظاہری طور پر 38 برس کے نظر آرہے ہوں لیکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے گردے ایک 61 برس کے بوڑھے فرد کی طرح سُکڑ گئے رہے ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے جسم پر ایک 80 برس کے بوڑھے شخص کی طرح جھریاں پیدا ہوگئی ہوں اور سر پر گنج آگیا ہو لیکن ہمارا دل ایک 40 برس کے شخص کی طرح دھڑکتا ہو۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر جینیات مائیکل سنائیڈر اس کی ایک کار سے مثال دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک کار کی مجموعی کارکردگی روبزوال ہوتی ہے، لیکن اسی کار کے بعض پرزے دوسرے پرزوں کی نسبت زیادہ تیزی سے گِھس جاتے ہیں۔ اگر آپ (کی گاڑی) کا انجن خراب ہوتا ہے تو آپ اِس کی مرمت کرتے ہیں، اگر کار کی باڈی خراب ہوتی ہو تو اس کی مرمت کرتے ہیں، اور یہ عمل اسی طرح چلتا رہتا ہے۔’

لہٰذا جس طرح ہمارے لیے اپنی مجموعی بائیولوجیکل عمر کے بارے میں جاننا اچھی بات ہے۔ اگر ہم زیادہ عرصہ صحت مند انداز سے جینا چاہتے ہیں، تو ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کہیں ہمارے جسم کے تمام اعضا ایک ہی رفتار کے ساتھ بوڑھے تو نہیں ہو رہے ہیں۔

لیکن کسی بھی عضو کی بائیولوجیکل عمر کا درست طریقے سے تعین کرنے کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ اس وقت کافی ساری ویب سائیٹس ایسی ہیں جن میں ایسے ‘کیلکیولیٹرز’ (حساب لگانے والے نظام) موجود ہیں جو دل یا پھیپھڑے جیسے مختلف اعضا کی بائیولوجیکل عمر کا تعین کرتے ہیں، لیکن اصل میں کسی کی بھی عمر کے تعین کرنے کے لیے اس عضو کے تفصیلی معائینے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں اس کے ٹیشوز کی جُڑت، خلیوں کی ساخت، اور جینیاتی صحت کے بارے میں معلومات درکار ہوتی ہیں۔

پیوندکاری کے دوران حاصل کیا گیا ڈیٹا اعضا کے بارے میں اس سے بھی زیادہ پیچیدہ قسم کے اشارے دیتا ہے کہ کون سے اعضا دوسرے اعضا کی نسبت مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائے گا۔ ماہرین نے پیوندکاری کے آپریشنوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ہے، انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ افراد جن میں بوڑھے افراد کے اعضا کی پیوند کاری کی گئی وہ افراد جلد موت کا شکار ہوئے۔ تاہم ان میں ایک خاص بات مختلف تھی وہ یہ کہ بعض اعضا دوسرے اعضا کی نسبت زیادہ مجموعی جسمانی بڑھاپے کے باوجود، صحت مند تھے۔

جہاں دل اور لبلبے کی حالت 40 برس کی عمر کے بعد خراب ہوئی، وہیں ماہرین پھیپھڑوں کو پیوندکاری کے بارے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا سوائے ان آپریشنوں میں جن میں عطیہ دینے والے کی عمر 65 برس سے زیادہ تھی۔ آنکھ کا قرنیہِ چشم سب سے زیادہ مضبوط اور مزاحمت کرنے والا عضو سمجھا جاتا تھا، عطیہ دینے والے کی عمر کا قرنیہ کی عمر سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔

جسم میں خون کے سرخ خلیے تبدیل ہونے سے پہلے چند مہینوں کے لیے پائیدار ثابت ہوتے ہیں لیکن نیورونز جیسے خلیے نئے نہیں بنتے ہیں۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف لیورپول کے محققین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کے اعضا کی نسبتاً پیچیدگی اور ان کا خون کی شریانوں پر انحصار، غالباً یہ طے کرتے ہیں کہ جب جسم بوڑھا ہورہا ہوتا ہے تو اعضا خود بڑھاپے سے کس طرح نبرد آزما ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ سوچ منطقی ہے کہ انسانی جسم کے مختلف اعضا کے واسکیولیچر (عروق کا نظام) اور مائیکرو واسکیولیچر میں تبدیلیاں بہت اہم نوعیت کی ہونی چاہئیے جو عمر بڑھنے کی وجہ سے ان کے کام کو منفی طور پر متاثر کرتی ہیں۔‘

پیوند کاری کے آپریشنز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی وجہ سے اعضا کی زندگی طویل عمر کی حد کے بارے میں بھی اب سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جگر اپنی تجدیدی صلاحیت کے حوالے سے اب کافی شہرت حاصل کرچکا ہے، اور ایسے مریض جن کی پیوندکاری کے دوران ان کا تین چوتھائی جگر تبدیل کردیا گیا تھا ان کا جگر ایک برس میں اپنے پرانے سائز کے برابر خود سے بڑھ گیا۔ انہیں ریسرچروں نے حالیہ برسوں میں زیادہ عمر کے لوگوں کے جگر کے عطیات کی پیوندکاری کے آپریشنز کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوے برس کی عمر کے لوگوں کے جگر کو عطیہ کے طور پر حاصل کر کے استعمال کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ دیگر ماہرین ایسے مریضوں کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں جن کے پیوند شدہ جگروں کی اپنی عمر کئی دہائیاں پہلے سو برس سے زیادہ ہو چکی ہو گی۔

بعض اعضا شاید ہماری طرزِ زندگی کے مخصوص پہلوؤں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اُن سے شاید زیادہ حساس ہوں۔ کنگز کالج لندن کے ڈائریکٹر ایجنگ ریسرچ، رچرڈ سی او کہتے ہیں کہ ‘اس کی ایک اچھی مثال پھیپھڑے اور ماحولیاتی آلودگی ہے۔ (شہروں میں رہنے والوں کے یا زیادہ آلودہ ماحول میں رہنے والوں کے پھیپھڑے زیادہ بوڑھے ہوتے ہیں۔’

ہرچرڈ سی او کے مطابق، ہمارے طرزِ زندگی کے مختلف طریقے ہمارے بوڑھے ہونے کے ایک پیچیدہ عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم کیا غذا کھاتے ہیں اور کیسے کھاتے ہیں، ہم کس طرح سوتے ہیں اور کب سوتے ہیں ۔۔۔ ان سب باتوں کا ہمارے اعضا پر مختلف انداز میں اثر پڑتا ہے، جسے ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں پاتے ہیں۔’

کسی بھی عضو کے بوڑھا ہونے کے عمل کو اگر بہت باریک بینی کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ مزید غیر واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی عضو کے خلیے جو اس کو تشکیل دیتے ہیں وہ روبزوال ہونا شروع کردیتے ہیں اور ایک قاعدے کے تحت اپنا متبادل چاہتے ہیں، یعنی کئی ٹیشوز وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تجدید خود کرتے ہیں، لیکن جس تعداد یا رفتار سے یہ تجدید کرتے ہیں یہ ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔ خون کے سرخ خلیے آپ کے جسم کی رگوں میں چار ماہ تک گھومتے پھرتے ہیں، لیکن وہ خلیے جو آپ کی آنتوں میں پہنچتے ہیں ان کو چند دنوں ہی میں تبدیل کرنا ہوتا۔ جب کہ اس کے بالکل ہی برعکس، دماغ کے خلیے، یا نیورونز، ہمارے بڑھاپے کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوتے ہیں، جس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ یہ اتنے ہی بوڑھے ہوتے ہیں جتنی کہ جسم کی عمر ہوتی ہے۔

لیکن سنہ 2019 میں سالک انسٹیٹیوٹ آف بائیولوجیکل سٹڈیز کی ایک ٹیم جس کی سربراہی مارٹِن ہیٹزر کر رہے تھے، نے یہ دریافت کر کے حیران کردیا کہ دودھ دینے والے جانوروں میں نیورونز وہ واحد خلیے ہیں جن کی عمر طویل ہوتی ہے۔ انھیں جگر اور لبلبے میں ایسے خلیے نظر آئے جن کی اتنی ہی عمر تھی جتنی کے اس جسم کی تھی اور وہ اپنے سے کم عمر کے خلیوں کے ساتھ زندہ رہ رہے تھے۔۔۔ اس بقائے باہمی کو ‘ایج موزیکزم’ (عمر کی پچکاری) بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ لمبی عمر پانے والے خلیے چند دنوں تک زندہ رہنے والے خلیوں کی نسبت بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں، جس کی وجہ ان کے دماغ سے باہر ہونا ہے، اس لیے یہ ماہرین کو اعضا کے بڑھاپے کے نظام کو سمجھنے کے مختلف اشارے مہیا کرتے ہیں۔

شخصی بڑھاپا

اس بات سے قطع نظر کے ہمارے اعضا بڑھاپے کے عمل کے مقابلے میں کتنے مضبوط ہیں، یہ سب کے سب بالآخر اپنی نشو و نما میں سست ہونا شروع ہو جاتے ہیں، تاہم نئی ریسرچ بتاتی ہے کہ ان میں سے کون سا عضو پہلے اپنے انجام تک پہنچے گا.

انسانی جسم کے بوڑھا ہونے کی مختلف رفتار ہوتی ہے، اس لیے ہماری سالگرہ کا ہماری بائیولوجیکل عمر سے بعض اوقات کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔

فوٹو

سنہ 2020 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سنائیڈر، وینیو ژؤ، سارا احدی اور ان کے ساتھیوں نے کم از کم ایسے 87 مالیکولز اور مائیکروبز کی نشاندہی کی ہے جنھیں بڑھاپے کے 'بائیومارکرز' کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ریسرچ میں شریک رضاکاروں کے دو برس تک ہر تین ماہ بعد مختلف انداز سے ان کے بائیومارکرز کے مطالعے کے بعد محققین کی اس ٹیم نے دریافت کیا کہ لوگوں میں بڑھاپے کے ظاہر ہونے کے مختلف حیاتیاتی نظام کام کر رہے تھے۔ اس سے بڑھ کے یہ کہ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مختلف افراد کو ان کے عضو سے خاص تعلق کی بنیاد پر تیار کیے گئے بائیو مارکز کی بدولت انہیں مختلف 'ایجیو ٹائپ' کے گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

اس ٹیم کو بڑھاپے کے ہونے کے مراحل کی بنیاد پر بننے والے چار مختلف قسم کے بڑھاپے کے نشانات ملے۔ گردے، جگر، جسم میں خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا نظام اور قوت مزاحمت۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ شاید دل سے جڑا ہوا بڑھاپے کا بھی ایک مارکر کا وجود ہے۔ اس بات کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ٹیم لوگوں کے ایجیوٹائب کی شناخت کرنے کے قابل تھی، جس کے بارے میں سنائیڈر کہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کے بوڑھا ہونے سے بہت پہلے ان کے جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کا ایک مجموعہ بنتی ہے۔ اگر سٹینفورڈ کی ٹیم درست کہہ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک دن نوجوانوں کو جب وہ بوڑھے ہونا شروع ہوں گے، انہیں پہلے سے بتا دیا جائے گا کہ انھیں اپنی صحت کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

سنائیڈر کہتے ہیں کہ اگر آپ کے بڑھاپے کی وجہ دل کا کوئی مسئلہ ہے تو آپ اپنے برے کولیسٹرول کو چیک کریں، اپنے دل کا چیک اپ کروائیں، جسمانی ورزش کریں۔ خلیوں کے ٹوٹنے کا عمل اگر آپ کے بڑھاپے کی وجہ ہے تو اپنی خوراک کا خیال رکھیں، اگر جگر وجہ ہے تو شراب کم ہیں۔’

ان نظریات پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ سٹینفورڈ ٹیم نے قدرے کم مدت میں جن ‘ایجیوٹائیپس’ کی نشاندہی کی ہے وہ حقیقت میں انسانی جسم میں وہ تبدیلیاں پیدا کریں گے جو طویل مدت کے لیے صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لیکن سنائیڈر کو یقین ہے کہ ہم ایک اسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات پر قابو پانے کے لیے انفرادی طریقے اپنائے جائیں گے۔ ‘جسمانی ورزش اور مناسب غذا سے کافی مدد ملے گی، لیکن اگر آپ کا گردہ یا دل کے چند مسائل سے دو چار ہے تو پھر آپ کو شاید انہیں بہتر بنانے کی حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا۔’

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو

کمپیوٹر میں آرٹیفیشل انٹیلیجینس کی پیش رفت کی وجہ سے اب سائنسدانوں کے لیے ممکن ہے کہ وہ انسانی اعضا کی بائیولوجیکل عمر کا اندازہ بھی لگا سکیں۔ ان میں سے ایک طریقہ ہے کہ ہم اعضا کے ڈی این اے میں غیر مستقل تبدیلیوں، جنھیں ‘میتھائی لیشن’ کہتے ہیں، ان کا مطالعہ کیا جائے۔ متعدد جینز اپنے عمل کے دوران کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سے کام کرنا شروع کردیتے ہیں، جس میں ڈی این اے سے چپکا ہوا کیمائی مواد ‘میتھائل’ بھی شامل ہوتا ہے۔

ایک خیال ہے کہ یہ عمل ڈی این اے کے ایپی جینیٹک (برتولیدی) میں ہونے والی تبدیلیوں میں سے ایک ہے جو یہ تعین کرتا ہے کہ ہمارے جینز اس طرزِ زندگی اور ماحول سے کس طرح متاثر ہوتے ہیں جن میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں۔ ڈی این اے کے میتھائی لیشن کی مقدار میں تبدیلی ہماری عمر میں تبدیلی سے جڑی ہوتی ہے اور ہمارے ‘ایپی جینیٹک پیٹرنز’ (بر تولیدی نمونوں) میں تبدیلی آتی ہے۔ اس پیش رفت کی وجہ سے سائینس دانوں نے ‘ایپی جینیٹک کلاک ( برتولیدی گھڑی) تیار کرلی جو، بقول ان کے، بائیولوجیکل عمر کے تعین کرنے کے بہترین اشارے دیتی ہے۔

یہ گھڑیاں سائنسدانوں کو اعضا کے مختلف ٹیشوز کی بائیولوجیکل عمر کا موازنہ کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اب ایسے کچھ شواہد ملے ہیں کہ عورت کی چھاتی کے ٹیشوز اس کے جسم کے باقی ٹیشوز کی نسبت زیادہ تیزی سے بوڑھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا ‘ایپی جینیٹک کلاکس’ سے چھاتی کے کینسر کے بارے میں پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔

ورزش

اگرچہ باقاعدگی کے ساتھ جسمانی ورزش اور معیاری غذا بڑھتی عمر میں صحت برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے، تام ہدف بنا کر حکمت عملی بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔

فرض کریں کہ یہ سب بالکل درست ہو، بہرحال کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ نہیں معلوم ہے کہ آیا جو علاج ایپی جینیٹک کلاک کو سست کردیتا ہے آیا وہ بڑھاپے کی رفتار کو بھی سست کرے گا۔

ہم عمر بڑھنے کے عمل کو جس انداز سے بھی دیکھیں، بڑھتی عمر کے ریسرچروں کا اصل مقصد اس کلاک کو سست کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس ہے۔ یہ جسم میں خلیوں کی سطح پر پہلے ہی سے ممکن ہے۔ اس برس مارچ میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے ریسرچروں نے کہا تھا کہ انھوں نے بوڑھوں میں سے خلیے لے کر ان کی تجدید کا کام کیا ہے۔ ان بوڑھے افراد کے خلیوں کو لے کر ان سے ‘یماناکا فیکٹر’ تیار کروایا، یعنی ان سے وہ پروٹین بنوائی جس کے بارے میں پہلے سے علم ہے کہ وہ ایک خلیے کو واپس اس سطح پر لے جاتی ہے جو کہ جنینی مر حلہ پر ہوتی ہے۔ اس عمل کے چند دنوں کے بعد بوڑھے جسم سے لیے گئے یہی خلیے کئی برس زیادہ جوان نظر آنے لگے۔

اس طرح کا عمل ایک عضو کے ساتھ کرنا شائد ایک کافی پیچیدہ چیلینج ہو، لیکن یہ ریسرچ اس جانب نئے طریقہِ علاج کے لیے پہلا قدم ہو سکتی ہے جو انسانی جسم کے خلیوں اور ٹیشوز کے بائیولوجیکل کلاک کو جسم سے علحیدہ کیے بغیر پیچھے کی جانب موڑ سکتے ہیں۔

فی الحال کئی سائنسدان زیادہ عمر کے لوگوں کی صحت مند زندگی بڑھانے کی جانب توجہ دے رہے ہیں

تندرست زندگی

یونیورسٹی آف لندن کی لِنڈا پیٹریج اور ان کی ٹیم نے ایسی ادویات کی نشاندہی کی ہے جو جسم میں بیماریوں کےحملوں کو موخر کردیتی ہیں جن سے بڑھاپا پیدا ہوتا ہے، لیکن انھوں ایک بات نوٹ کی کہ ان میں سے کوئی بھی دوائی ایسی نہیں تھی جو بڑھتی عمر کی مختلف علامتوں کو پیچھے کی جانب موڑ سکے۔ تاہم دوسرے سائینس دان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بڑھاپے کی علامتوں کو کم کرنے والے علاج غالباً جسم کے ٹیشوز کو بہتر بنانے کی حکمت علمی ہر کام کریں گے، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ سائنس دانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بوڑھا ہونے کا عمل کس طرح مختلف اعضا کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔

بہرحال اس بارے میں کئی احتلافات ہو سکتے ہیں کہ کون سا عضو کس طرح بوڑھا ہوتا ہے، لیکن ان سب کو ایک اکائی کے طور دیکھنا بھی اپنی جگہ ایک مناسب بات تو بنتی ہے۔ رچرڈ سی او کہتے ہیں کہ یہ اعضا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ایک نظام کا حصہ ہیں اور ایک عضو کے بوڑھا ہونے سے دوسرے کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ کے جوڑوں میں سوزش ہے، وہ سوزش آپ کے دماغ اور دل کو بھی کو متاثر کرسکتی ہے۔ ہر عضو کی اپنی اپنی عمر بڑھنے کا ایک خطِ رفتار ہوتا ہے، لیکن یہ سب باہم وابستہ ہوتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp