نئے امریکی صدر ٹرمپ رہے یا بائڈن بنے، ’چین کے بارے میں امریکہ کی پالیسی نہیں بدلے گی‘


بائڈن اور ٹرمپ

امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل دو سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹ اور رپبلکن کے قومی کنونشن ووٹروں کے لیے ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ صدارتی امیدواروں کی داخلی پالیسوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔

لیکن اس برس ان کنونشنوں کے دوران چین کے بارے میں بھی بہت کچھ علم ہوا جس کے آج کل امریکہ سے تعلقات انتہائی دشوار دور سے گزر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین اور امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟

کیا چین اور امریکہ کبھی دوست بھی تھے؟

کیا کورونا وائرس چین اور امریکہ میں لڑائی کی وجہ بن سکتا ہے؟

چین کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اندر کام کرنے والے کی افراد نے مجھے بتایا ہے کہ جو بائڈن کا صدارت میں آنا ان کے لیے صدر ٹرمپ کے چار سال مزید اقتدار میں رہنے سے بہت بہتر ہوگا کیونکہ صدر ٹرمپ کا دور انتہائی غیر یقینی ہوسکتا ہے۔

صدر بائڈن کی چین کے بارے میں پالیسیاں اتنی ہی سخت رہیں گی لیکن یہ کسی دلیل اور حقائق پر مبنی ہوں گے نہ کہ صرف بیان بازی اور سیاسی مفاد پرستی پر۔

ایک بہت بالکل واضح ہے کہ چین کی کمپنیاں کو یقین ہے کہ امریکی ایوان صدر میں کوئی بھی آئے امریکہ کی چین بارے میں سخت پالیسیاں ایسی ہی رہیں گی۔

چین کمپنیوں کو کونسی تین چیزیں امریکہ کے بارے میں پریشانی کا باعث بن رہی اور وہ اپنے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہیں۔

چینی کمپنی

ڈی کپلنگ (تعلق منقطع کرنا)

یہ لفظ آجکل بہت استعمال ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے اہلکار اکثر اپنے بیانات اور ٹوئٹر پیغامات میں یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

ڈیکپلنگ کا بنیادی طور پر مطلب ہے کہ امریکہ کے چین سے تین دہائیوں پر محیط تعلقات کو منقطع کرنا۔

سب ہی راستے کھلے ہیں اور زیر غور ہیں جن میں چین میں قائم امریکی فیکٹریوں کو سپلائی کے جال ختم کر دینا، ٹک ٹاک اور ٹین سینٹ جیسی چینی کمپنیاں جو امریکہ میں چل رہی ہیں انہیں امریکہ سے نکال دینا یا ان کے چینی مالکان کی جگہ امریکی مالکان لگانا۔

رپبلکن کے سمندر پار گروپ کے سربراہ سولومن یو کا کہنا ہے کہ کسی خیال میں نہ رہیں صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ڈی کپلنگ کا عمل تیز ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ وہ جائز سکیورٹی خدشات ہیں کہ امریکی ٹیکنالوجی کو چرایا جا رہا ہے۔

لیکن ڈی کپلنگ اتنی آسان نہیں ہے

چین اور امریکہ کے صدور

جہاں امریکہ بہت سی امریکی کمپنیوں کو چین کی کمپنی ہواوے سے کاروبار نہ کرنے آمادہ کرنے میں کامیاب رہا ہے وہیں اس وجہ سے چینی کمپنیاں کئی اہم صنعتی شعبوں جن میں چپ بنانا اور مصنوعی ذہانت شامل ہیں خود انحصاری حاصل کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔

چینی کمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک منصوبہ ساز نے کہا کہ لوگوں کو یہ سمجھ آ رہا ہے کہ امریکہ پر وہ کبھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔ چینی کمپنیاں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ وہ اپنے کاروباری مفادات کا کس طرح تحفظ کر سکتی ہیں۔

ڈی لسٹنگ (فہرست سے خارج کرنا)

چین مخالف پالیسیوں میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ان امریکہ میں رجسٹرڈ چینی کمپنیوں کے بارے میں نئی سفارشات مرتب کی ہیں جن کے تحت انہیں سنہ 2022 تک نئے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا ہو گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ان پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ ہو سکتا ہے کہ جو بائڈن کی انتظامیہ ایسی پابندیاں نہ لگائے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی کمپنیوں کی جانچ پڑتال اور ان کے بارے میں سفارشات کا لب و لہجہ اتنا ہی سخت رہے گا۔

ہانگ کانگ میں قائم جی ایف ایم کمپنی کے سرمایہ کاری کے مشیر طارق ڈینیسن نے کہا کہ ‘ایک ڈیموکریٹ چاہے وہ وائٹ ہاؤس میں ہو، سینیٹ میں ہو یا وہ کانگرس کا رکن ہو اس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے چین کے خلاف پابندیوں کو واپس لینے میں کا کوئی جواز نہیں ہو گا جب تک کہ دوسری طرف سے کوئی نرمی نہیں دکھائی جاتی۔

امریکہ میں جو چینی کمپنیاں سٹاک مارکیٹوں میں لسٹڈ ہیں ان کے لیے ‘ڈی لسٹ’ یا ان کا نام حصص بازاروں سے خارج کر دیا جانا کوئی بڑی پریشانی نہ ہو لیکن نئی کمپنیاں امریکہ کے حصص بازاروں میں اپنے حصص جاری کرنے سے گریز کریں گی۔

چین کی ڈیجیٹل فائنانس کی بہت بڑی کمپنی ائنٹ گروپ کی مثال لیں اس نے اسی ہفتے اپنے حصص جاری کیے ہیں۔

امریکہ میں رجسٹرڈ علی بابا گروپ سے منسلک اس کمپنی نے اپنے حصص فروخت کرنے کے لیے امریکہ کے بجائے شنگھائی اور ہانگ کانگ کے حصص بازاروں کا انتخاب کیا۔

امریکہ اور چین میں جوں جوں تنازع بڑھتا جائے گا چینی کمپنیاں امریکہ سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔

ڈی گلوبلائزیشن

چین گذشتہ تین عشروں سے جاری گلوبلازیشن (عالمگیریت) کے عمل سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے۔ اس سے ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں چینی شہریوں کو اپنا معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد ملی جو صدر ژئی جی پنگ کے چینی خواب کی تکمیل کے لیے بنیاد کی حثیت رکھتا ہے۔

صدر ٹرمپ اصل میں یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ چین امیر سے امیر تر ہو چلا گیا ہے جبکہ امریکہ غریب ہو گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے دورۂ اقتدار کے دوران ‘ڈی گلوبلازیشن’ کا رجحان بڑھ گیا ہے جہاں آزاد تجارت کی حوصلہ شکنی کی گئی اور سرحدوں سختیاں کی گئیں۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں حال ہی میں ایک ادارتی مضمون میں کہا گیا کہ امریکی منصوبہ سازی میں چین کے بارے میں ایک تبدیلی آ چکی ہے۔ گوبل ٹائمز کے مطاق چین اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت دوبارہ طے کرنا ہو گی۔

گلوبلائزیشن کا ایک قدرتی نتیجہ ایک محفوظ دنیا کا قیام ہے۔

اگر آپ کسی کے ساتھ کاروبار کر رہے ہوں اور اس کے امکانات زیادہ ہیں کہ آپ اس سے لڑنا نہیں چاہیں گے یا کم از کم کھلا تصادم نہیں چاہیں گے۔

ایشیا میں بڑے کاروبار کے لیے ایک سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ کہیں دو بڑی عالمی معاشی طاقتوں کے درمیان مسلح جنگ نہ چھڑ جائے اور اس تشویش میں حالیہ ہفتے اس وقت اضافہ ہو گیا جب چین نے جنوبی بحیرہ چین میں دو میزائلوں کو تجربہ کیا۔ یہ سمندری راستے جو بڑے منافع بخش ہیں لیکن اتنے ہی متنازع بھی۔

چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں تبدیلی نہ صرف ان دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ باقی تمام دنیا کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp