صائمہ احمد: گالف کورس سے لاش برآمد ہونے کا پُراسرار کیس تاحال ’سمجھ سے بالاتر‘


صائمہ احمد

2015 میں صائمہ کے لاپتہ ہونے کے چار ماہ بعد ان کی لاش برآمد ہوئی تھی

سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا میں سنہ 2015 کے دوران ایک خاتون لاپتہ ہوگئی تھیں اور ان کی لاش چار ماہ بعد ایک گالف کورس سے برآمد ہوئی تھی۔ ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکت آج بھی ‘سمجھ سے بالاتر ہے۔’

30 اگست 2015 کو 36 سالہ صائمہ احمد کی اپنے ویمبلی کے گھر سے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ لیکن ان کی لاش 9 جنوری 2016 کو گوگاربرن گالف کورس کے میدانوں سے ملی تھی۔

ان کے لاپتہ ہونے کے پانچ برس بعد اب بھی حکام کا کہنا ہے صائمہ احمد کی ہلاکت غیر واضح ہے۔

ان کے بھائی سعادت احمد نے معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر اپیل ہے اور وہ اس سلسلے میں ایڈنبرا آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ خاندان کا درد کچھ خاص کم نہیں ہو پایا۔

سعادت احمد

سعادت کے مطابق ان کا خاندان آج تک بہن کی ہلاکت کے صدمے سے نہیں نکل سکا

سعادت احمد کا کہنا تھا کہ ‘ہم ابھی بھی اس بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں۔ اور سمجھ نہیں پاتے۔

‘ہر مرتبہ جب ہم کوشش کرتے ہیں اور یہ واقعہ ہمارے ذہن میں چلتا ہے تو اس کے باوجود ہم اسے سمجھ نہیں پاتے۔

‘ایسی بہت سی باتیں ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔’

30 اگست 2015 (اتوار) کے روز صائمہ احمد لاپتہ ہوئیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن انھوں نے لندن سے ایڈنبرا براستہ ہیمل ہیمپسٹڈ اور برمنگھم ٹرین پر سفر کیا تھا۔

اس دوران ایڈنبرا کے قریب پورٹوبیلو بیچ کے قریب ان کے جیسے خد و خال والی خاتون کی موجودگی کی غیر مصدقہ شناخت ہوئی تھی۔

37 سعادت احمد کہتے ہیں کہ: ‘ہمارا خاندان اس صدمے سے نکل نہیں پایا۔ ہم نہیں جانتے کیا ہوا، ہمیں آج بھی کئی جواب نہیں ملے اور ہم صرف تمام لوگوں سے مطالبہ کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے اُن سے بات کی ہو۔‘

‘وہ متجسس انسان تھیں تو اگر وہ ایسی جگہ پر تھیں جہاں وہ پہلے نہیں گئی تھیں تو انھوں نے بہت سوال پوچھے ہوں گے۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ انھوں نے کسی سے بات کی ہوگی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صائمہ کی ‘فطرت کے خلاف تھا’ کہ وہ ویمبلی میں رہتے ہوئے خود سے سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت اکیلے جاتیں۔

گولف کورس

صائمہ کی لاش ایڈنبرا کے ایک گالف کورس سے برآمد ہوئی تھی

سعادت سمجھتے ہیں کہ ان کی بہن نے ضرور کچھ لوگوں سے رابطہ کیا ہوگا تاکہ وہ اس جگہ پہنچ سکیں جہاں سے ان کی لاش برآمد ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ: ‘کسی کو کچھ ضرور معلوم ہوگا۔ ضرور ان میں بھی ضمیر ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ سامنے آکر ہمیں اس بارے میں کچھ بتائیں گے۔‘

‘ہر گزرتے سال کے ساتھ ہم جوابات کی تلاش میں اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔ لیکن ہم کبھی نہیں رُکیں گے اور کبھی ناامید نہیں ہوں گے۔’

سکاٹ لینڈ پولیس کے مارٹن مکلین کہتے ہیں کہ پورٹوبیلو میں انھیں ممکنہ طور پر شام کے وقت دیکھا گیا جب ان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ کتے کو واک کرانے والے ایک شخص نے پیر کی صبح کو انھیں دیکھا تھا۔

افسران ایسے کسی بھی فرد سے بات کرنا چاہتے ہیں جن کا صائمہ احمد سے رابطہ رہا ہو، چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیو ہوں یا کسی گیسٹ ہاؤس کے مالک۔

مارٹن مکلین کے مطابق ان کی ہلاکت کے سلسلے میں ’مفصل اور کافی دیکھ بھال کے ساتھ‘ تحقیقات ہوئی تھی لیکن آج تک افسران اس سے لاعلم ہیں کہ ایڈنبرا میں صائمہ احمد کی سرگرمیاں کیا تھیں۔

پولیس ابھی تک ان کی حرکات کی ٹائم لائن بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور انھوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ اکیلی سفر کر رہی تھیں اور یہ کسی کے علم میں نہیں تھا کہ آیا وہ کسی سے ملاقات کرنے جا رہی ہیں۔

مارٹن مکلین کا کہنا ہے کہ لاش پر تفصیلی فارنزیک کام ہوا ہے لیکن اس سے کسی جرم کے شواہد نہیں ملے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’صائمہ کی گمشدگی سے لے کر ان کی لاش کی بازیابی تک کے عرصے نے تحقیقات کو مشکل بنایا کیونکہ اتنے طویل عرصے میں سی سی ٹی وی ویڈیو کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

’ہم نے کھوج کے ہر طریقے کو آزما لیا ہے۔‘

صائمہ کو ایشیائی نژاد ظاہر کیا گیا تھا جن کا قد پانچ فٹ پانچ انچ ہے۔ ان کا خد و خال اور کندھوں کی چوڑائی درمیانی اور سیاہ سیدھے بال بتائے گئے تھے۔ انھوں نے آخری بار لمبی وی نیک شرٹ، سیاہ پتلون، سیاہ جوتے اور سیاہ جیکٹ پہن رکھی تھی۔

ان کے لاپتہ ہونے کے ایک سال بعد یہ معلوم ہوا تھا کہ اسی کیس کی وجہ سے پولیس کے چار اہلکاروں کے خلاف غلط رویے کی تفتیش چل رہی تھی۔

یہ تفتیش تب شروع کی گئی جب صائمہ احمد کے خاندان نے شکایت درج کرائی تھی کہ ان کی گمشدگی کو ’کم خطرے والا‘ کیس سمجھا جا رہا ہے۔

جولائی 2017 کو یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولیس کے قائم مقام ڈیٹیکٹو چیف انسپیکٹر کو اس کیس پر پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے ایک میٹنگ کا سامنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp