کورونا وائرس: کیا بچے وائرس منتقل کر سکتے ہیں؟ سائنسدان ابھی تک کھوج میں


بچے اور کورونا وائرس

جنوبی کوریا کے ایک مطالعے کے مطابق کورونا وائرس تین ہفتے تک بچوں کی ناک میں رہ سکتا ہے۔

اس سے پہلے کئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ وائرس سے متاثرہ زیادہ تر بچوں میں علامات انتہائی ہلکی نوعیت کی یا بالکل نہیں ہوتی۔

لیکن یہ نئی معلومات اس سوال پر روشنی ڈالتی ہیں کہ بچے کس حد تک وائرس پھیلا سکتے ہیں۔

اس مطالعے میں بچوں کی سکول واپسی کے عمل میں سماجی فاصلوں اور صاف ستھرائی کے اصولوں پر عمل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

رائل کالج آف پیڈیاٹریکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے صدر پروفیسر رسل وینر وضاحت کرتے ہیں کہ بچوں اور کورونا وائرس سے تین الگ الگ لیکن آپس میں منسلک سوال ہیں:

  1. کیا بچے وائرس سے متاثر ہوتے ہیں؟
  2. وہ کس حد تک متاثر ہوتے ہیں؟
  3. کیا وہ وائرس دوسروں میں منتقل کرتے ہیں؟
بی بی سی بینر

کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

بچوں کو کورونا وائرس کے بارے میں بتائیں، ڈرائیں نہیں


پروفیسر وینر کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ بچے یقینی طور پر وائرس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن اینٹی باڈی ٹیسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بڑوں کی نسبت بچے (خاص طور پر 12 برس کی عمر سے چھوٹے بچے) اس سے کم متاثر ہوتے ہیں۔

اور سائنسدان اس بارے میں کافی پراعتماد ہیں کہ وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود بچے بڑوں کی نسبت کم بیمار پڑتے ہیں جبکہ زیادہ تر میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ جمعے کو شائع ہونے والی برطانوی تحقیق اس کی تصدیق کرتی ہے۔

تیسرے سوال کے بارے میں ہم سب سے کم جانتے ہیں اور اس بارے میں جنوبی کوریا کا یہ مطالعہ جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔

جنوبی کوریا کی تحقیق کیا کہتی ہے؟

91 بچوں پر مبنی اس مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچے جن میں ہلکی نوعیت کی یا کوئی بھی علامات نہیں پائی جاتی ہیں ان کی ناک میں بھی وائرس تین ہفتے تک رہ سکتا ہے۔

اس حقیقت سے کہ ان کی ناک میں قابل شناخت وائرس تھا، اس مطالعے کے مصنفین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بچے وائرس منتقل کر سکتے ہیں۔

جنوبی کوریا نے جس طرح سے وائرس سے متاثرہ افراد کو ٹیسٹ کیا، ان کا پتا لگایا اور انھیں خود ساختہ تنہائی میں رکھا، حتیٰ کے علامات کے بغیر افراد کی بھی جانچ کی، تو اس گروپ کو دیکھنے کے لیے انفرادی طور پر رکھا گیا۔

بچے اور کورونا وائرس

جب انھوں نے وائرس کی شناخت کر لی اور متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھا، تو مریضوں کے اس وقت تک ٹیسٹ کیے جاتے رہے جب تک وائرس ختم نہیں ہو گیا۔

لہٰذا یہ مطالعہ ہمیں بچوں میں کورونا وائرس سے متعلق کچھ نئی معلومات اور ان کے وائرس پھیلانے کی ممکنہ صلاحیت کے متعلق بتاتا ہے۔

اگرچہ دوسرے مطالعوں کی طرح یہ مطالعہ بھی ایک پہیلی چھوڑتا ہے۔

صرف اس وجہ سے کہ بچے کی ناک میں وائرس پایا جاتا ہے یہ قطعی طور پر ثابت نہیں کرتا کہ بچوں میں وائرس منتقل کرنے کی شرح بڑوں کے برابر ہے۔

واشنگٹن ڈی سی کے چلڈرن نیشنل ہسپتال میں بچوں کے امراض کی ڈویژن کی سربراہ ڈاکٹر رابرٹا ڈیبیاسی کہتی ہیں ’یہ جانتے ہوئے کہ بچے وائرس سے متاثر ہوتے ہیں یہ کہنا غیر معقول ہو گا کہ منتقلی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔‘

لیکن یونیورسٹی آف لیورپول میں بچوں کی صحت کے پروفیسر کیلم سیمپل کہتے ہیں ’ناک میں وائرس کے جینیاتی مواد کا موازنہ منتقلی سے نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر ان افراد میں جن میں کھانسی یا چھینکوں جیسی بنیادی علامات موجود نہ ہوں۔‘

تو کیا ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟

منطق کہتی ہے کہ بچوں اور بڑوں دونوں میں، وہ افراد جن میں ہلکی یا پھر بالکل بھی کوئی علامات نہیں، جو کھانس نہیں رہے اور ہوا میں میں وائرس نہیں پھیلا رہے، ان کے کم متعدی ہونے کا امکان ہے اور بچوں میں اس بیماری کے عام طور پر ہلکی نوعیت کے کیس ہوتے ہیں۔

لیکن بڑی تعداد میں بغیرعلامات کے افراد سے انفیشکن کی شرح میں اب بھی نمایاں اثر پڑ سکتا ہے۔

اور جیسے کے پروفیسر وینر نے بتایا سکولوں کو بند رکھنا غیر جانبدار نہیں لیکن اس سے بچوں کی نشوونما، تعلیم اور ذہنی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔

اگرچہ بچوں سے وائرس کی منتقلی کا خطرہ ابھی بھی ایک کھلا سوال ہے اور اس کا جواب مستقبل کی وباؤں پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر رابرٹا ڈیبیاسی کا ماننا ہے کہ ’بچوں کی ایک بڑی تعداد میں ہلکی نوعیت کی یا بالکل بھی کوئی علامات نہیں لیکن وہ کمیونٹیز میں انفیکشن پھیلانے میں ’اہم‘ کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp