ایک باپ کو کیسا ہونا چاہیے


ہمارے معاشرے میں والدین اولاد کی شادی تو کر دیتے ہیں۔ مگر وہ اولاد کی اس نہج پہ تربیت نہیں کرتے۔ کہ بطور زوجین اور بطور والدین ان کو کیسا ہونا چاہیے۔ میاں بیوی کا رشتہ کیسا ہونا چاہیے۔ اس پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لکھا جاتا ہے۔ اور ہم سب کہیں نہ کہیں لکھتے رہتے ہیں۔ مگر بطور والدین ہمیں کیسا ہونا چاہیے۔ بچہ پیدا کرنے سے لے کر اسے بڑا کرنے تک ہماری کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ ہمیں معاشرے کو ایک صحت مند اور باشعور شہری دینا ہے۔ تو اس کے لیے ہمیں کن باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں کن باتوں پہ عمل کی ضرورت ہے۔

میں ہمیشہ سے جب بھی کسی باپ کو اپنی اولاد سے محبت برتتے دیکھتی تھی۔ تو میرے ذہن میں ایک سوال ہوتا تھا۔ میرا باپ کہاں ہے۔ بچپن میں گلی میں کھیلتے جب اچانک سے بچوں نے پوچھ لینا کہ تمہارے ابو کہاں ہیں۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ میرا باپ زندہ ہے۔ مگر وہ کہاں ہے۔ یہ سمجھ نہ آتی تھی۔ کراچی گلشن اقبال کی روڈز پہ کتنی کتنی دور تک میں اپنے باپ کو ڈھونڈھنے کی کوشش میں پھرتی رہتی تھی۔ گھر پہنچتی تو ماں سے مار الگ پڑتی۔ مگر میرے سوال کا کوئی جواب نہ دیتا۔ (بروکن فیملی چائلڈ کو جواب کم ہی ملتے ہیں ) ۔

مجھے یاد ہے ایک بار امی کسی کو ابو کے بارے بتا رہی تھیں۔ تو میں نے سنا کہ اس عورت نے کہا کہ تم کہہ دیا کرو کہ وہ مر گیا ہے۔ لوگ خاوند سے الگ ہونے والی عورت کو برداشت نہیں کرتے۔ بیوہ کو کر لیتے ہیں۔ یہ میری سمجھ سے تو اوپر کی باتیں تھیں۔ جو اس وقت تو سمجھ نہ آتی تھیں۔ مگر بعد میں سمجھ آنے پہ جب یاد آتی تھیں۔ تو چیزیں واضح ہوتی جاتی تھیں۔ اوپر سے حافظہ کم بخت کوئی اتنا گھٹیا پایا گیا ہے۔ کہ مجھے یہ تو بھول جاتا ہے کہ آخری بار دکان کی چابی کہاں رکھی تھی۔ مگر بچپن کی ماضی کی باتیں دماغ سے نہیں نکلتیں۔ ہائے کاش چھین لے کوئی حافظہ میرا، پر بے سود۔

اپنے باپ کو ڈھونڈنا۔ ان سے ملنا۔ ان کے ساتھ کچھ عرصہ رہنا۔ یہ سب ایک لمبی کہانی ہے۔ جو ایک کالم یا بلاگ میں لکھنا تو ممکن نہیں۔ مگر میں نے ہمیشہ اپنے باپ کو اپنی اولاد کے لیے باپ کم اور حاکم زیادہ پایا تھا۔ ہمیں اولاد سے زیادہ پراپرٹی سمجھا گیا۔ اب پراپرٹی بے چاری کیا کرے۔ وہ تو بس مالک کے رحم و کرم پہ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے اپنے باپ سے محبت نہ تھی۔ مجھے ان سے محبت نہ ہوتی تو میں کبھی ان کو ملتی ہی نہیں۔ مگر میری ایک باپ کو لے کر جو سوچ تھی۔ وہ مجھے لگتا تھا کہ شاید افسانوی بات ہے۔ ایسے باپ کہیں پائے ہی نہ جاتے ہیں۔ کیونکہ اپنے ارد گرد تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ میرے باپ جیسے ہی باپ پائے جاتے تھے۔ جن کے لیے اولاد صرف ان کے حکم کے تابع ہو۔ وہ وہی سوچے جو سوچنے پہ اسے کہا جائے۔ وہ وہی کرے جو کرنے کا اسے کہا جائے۔ وہ ایک الگ شخصیت ہے۔ یہ ماننے کو کم سے کم میرا باپ اپنی زندگی میں نہیں مانا۔

ان سے جتنے شکوے شکایتیں تھیں۔ وہ سب ان کی زندگی میں ان کی موت سے پہلے کم ہو گئی تھیں۔ اور ان کی موت کے ساتھ ختم ہو گئیں۔ میں نے تو ختم کر دیں۔ میرا بھائی نہیں کر سکا۔ وہ آج بھی باپ سے گلے اپنے گلے سے لگائے رکھتا ہے۔ وہ بھی سچا ہے۔ جو کچھ ہم نے زندگی میں سہا ہے۔ وہ سب والدین کی غلطیوں کے نتیجے ہیں۔ میں اپنی ماں کو عورت ہونے اور اس سماج کی عورت ہونے کا مارجن دیتی ہوں۔ وہ عورت نہ ہوتی تو آج ہم بھی نہ ہوتے۔ اپنی عقل کے مطابق وہ جیسے چل سکتی تھی۔ اس نے ہمارے لیے وہ کیا ہے۔

خیر کل میں نے حسنین جمال کا اپنی بیٹی کے لیے لکھا خط پڑھا۔ میں نے پچھلے سال بھی ان کا آئلہ کے لیے لکھا خط پڑھا تھا۔ تب بھی میں نے ان کے خط پہ کمنٹ کیا تھا۔ کہ کاش آپ جیسے والد مجھے بھی ملے ہوتے۔ ہر بیٹی کو ایسا ہی باپ ملے۔ ایک اچھے باپ کو حسنین جمال جیسا ہونا چاہیے۔ احمد بشیر جیسا ہونا چاہیے۔ احمد بشیر کے بچوں کو دیکھتے سنتے ہوئے ان کے والد کا دیا وہ اعتماد ان کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔ جو ایک باپ کو اپنی اولاد کو دینا چاہیے۔ ایک باپ کو اپنی اولاد کو وہ اعتماد دینا چاہیے کہ وہ کچھ غلط بھی کر لے۔ تو بنا ڈرے اپنے باپ کے پاس آ کے اپنی غلطی بتا سکے۔

ہم بیٹیاں چاہتی ہی کیا ہیں۔ گھر سے باپ سے ملنے والا تحفظ کا احساس۔ یہ احساس کہ کوئی ہے جو ہمارے سامنے آنے والی کسی بھی مشکل کے سامنے دیوار بن جائے گا۔ جو کسی بھی حال میں کہے کہ پتر میں ہوں۔ جاو یہ دنیا سامنے پڑی ہے۔ اپنی زندگی بنا خوف کے جیو۔ باپ کو سپورٹنگ ہونا چاہیے۔ نہ کہ پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لینے والا۔

میں نے حسنین کا پچھلے سال والا خط کئی بار پڑھا۔ اس بار والا ایک بار ہی پڑھ سکی۔ دوبارہ کی ہمت ہی نہ پڑھی۔ دل میں پھر وہی خواہش ابھری کہ یار ہمارے لیے قدرت نے تم جیسے اچھے باپ کیوں نہ چنے۔ تم ہو کچھ اور دوست ہیں۔ بطور والد بہترین لوگ ہیں۔ اصل میں یار تم لوگ بطور انسان بہت اچھے ہو۔ اللہ تم لوگوں کو سلامت رکھے۔ اپنی اپنی اولاد کی خوشیاں دکھائے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے دوستوں میں شامل مرد بطور والد بہترین ہیں۔ سدا یونہی رہئیے۔ اور اپنی اولاد کے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہئیے۔ یقین مانیں بلکہ آپ کو تو سمجھ ہی ہے کہ یہ بہت ضروری ہے۔ بچوں کو اعتماد دے کر ان کو زندگی کی دوڑ میں شامل کریں۔ باپ کا دیا اعتماد اولاد کو کبھی ڈرنے نہیں دیتا۔ ایسی اولاد پھر سب کچھ کر جاتی ہے۔

جیسے وہ دل والے دلہنیا لے جائیں گے میں امریش پوری کہتا ہے ناں، ”جا سمرن جا جی لے اپنی زندگی“ ۔
تو بس اپنے بچوں کو ان کی زندگی جینے دیجئیے۔ تا کہ کل کو جب وہ آپ کے بارے میں لکھیں۔ تو ان کے لفظوں میں فخر ہو۔ میری طرح حسرت نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).