کربلا یوں بسائی جاتی ہے: یہ ہمارے ابا نے بتایا


گھڑی کی سوئیوں کی تیزی کے ساتھ، اس کے چمکتے شیشے میں اپنا عکس دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی ماں نظر آتی ہے اور سر جھکائے غور و فکر میں غلطاں اپنے شوہر کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان میں ان کے ابا کی شباہت نظر آتی ہے۔

اپنے ماں باپ سے لاکھ اختلاف کے باوجود گزرتا وقت ہمارے چہرے میں ان کی شباہت ہی نہیں لاتا، عادت و اطوار بھی ان سے لگا کھانے لگتے ہیں۔

ماں کی عظمت اور بچوں کے لیے اس کے تپسیا اپنی جگہ لیکن باپ کے جوکھم اس کے دل کے نہال خانوں میں ایسے ہی چھپے ہوتے ہیں، جیسے سمندر کی تہہ میں جانے کیا کیا۔ ہمارے ابا (سسر) سید غلام الثقلین جعفری بھی ایسے ہی تھے سمندر کی مانند گہرے اور خاموش۔

علم جفر کے ماہر تھے۔ احمد نے جب بتایا کہ جس لڑکی سے وہ شادی کرنا چاہتے ہیں اس کا نام عفت ہے۔ تو ہم دونوں کے نام کا زائچہ نکالا۔ احمد کو نہ بتایا، کہ شاید وہ یقین نہ کریں، مگر ان کے حساب کتاب میں ہمارا جوڑ اچھا تھا، بے حد خوش تھے۔

امی (ساس) کی طبیعت خراب تھی۔ رشتے ناتے عورتیں ہی طے کرتی ہیں۔ مگر کیوں کہ میرے والدین بقرعید کے بعد واپس خیر پور جانے والے تھے اس لیے امی (ساس) کی صحت یابی کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دونوں باپ بیٹا بس میں بیٹھے، ملیر ہالٹ پر اتر کر طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے پیدل ہمارے گھر آئے۔

میرے پاپا جب ابا سے ملے تو ان کی بول چال عاجزی و انکساری اورنفیس شخصیت نے انہیں ایسا گھیرا کہ اپنی بیٹی دینے پر آمادہ ہو گئے۔ واپسی پر ابا بے حد خوش تھے۔ آج بھی احمد اس بات کو دہراتے ہیں کہ جب ابا بس میں بیٹھے تو کہنے لگے۔ جاتے ہوئے تو راستہ بڑا طویل لگا تھا۔ لیکن واپسی پر محسوس ہی نہیں ہوا۔

بیٹیوں کے لیے ان کے باپ آئیڈیل ہو ا کرتے ہیں، لیکن میں نے ابا میں جو صفات دیکھیں وہ آج تک کسی انسان میں نظر نہ آئیں۔

محرم شروع ہوچکے تھے۔ ابا نے بتا یا کہ شب عاشور انچولی کی نکڑ پر احمد کے نوحے ”کربلا یوں بسائی جاتی ہے“ پر زنجیر زنی ہوتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی تھی۔ اس وقت جب کہ احمد کا شاعری میں مقام کوئی ایسا واضح نہ تھا لیکن ان کی دور رس نگاہیں انہیں نمایاں ہوتے دیکھ رہی تھیں۔

شب عاشور، حمل کو تیسرا یا چوتھا مہینہ تھا۔ ابا کے منع کرنے کے باوجود ہم زنجیر زنی دیکھنے انچولی کی نکڑ پر پہنچے۔ جلوس آکر زنجیر زنی کے لیے ترتیب بنا ہی رہا تھا کہ کچھ شر پسندوں نے ہنگامہ کر دیا۔ بھگدڑ مچ گئی۔ ہم گر پڑے۔ احمد ہمیں حصار میں لینے کے لیے جھک گئے لوگ ان کے اوپر پیر رکھ کر پھلانگ رہے تھے۔ چند لمحوں کی پریشانی کے بعد معاملات سنبھلے۔ ابا کو ہم نے دیکھا وہ ہجوم میں کبھی اوجھل اور کبھی ظاہر ہوتے ہوئے ہماری طرف آرہے تھے۔ ابا کو دیکھ کرہم اور احمد چور سے بن گئے، کہ ان کے منع کرنے کے باوجود چلے آئے تھے۔ احمد نے کہا، چلو گھر چلتے ہیں۔

ابا بولے۔ بہو کو اپنے نوحے پر زنجیر زنی دیکھنے دو۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ جلوس ترتیب میں آ چکا تھا۔ ایک جانب نوحہ خواں پڑھ رہے تھے۔

کربلا یوں بسائی جاتی ہے۔ ایک ساتھ ماتمیوں کی زنجیر فضا میں بلند ہوتی اور جھنکار کے ساتھ ان کی پیٹھ پر ایک سرخ لکیر چھوڑتی ہوئی چلی جاتی۔

سفید پاجامے کرتے میں ملبوس سر جھکائے۔ آپ بھی شاعر تھے۔ آپ کی شاعری اہل بیت کی شان اقدس تک محدود تھی۔ عجیب بات تھی، لیکن ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ابا نے رات کو کچھ کہا اور پھرصبح سویرے سے احمد کے جاگنے کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ اور ان کے جاگنے اور ناشتہ کرنے کے بعد ان کے ہاتھ میں پرچہ تھما دیتے۔ بیٹا ذرا دیکھ لو کوئی کمی بیشی ہو تو بتا دو۔

اور احمد کا وہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ ابا ٹھیک ہی ہوگا۔ احمد ان سے نظریں نہ ملا پاتے۔

مگر ابا کا صرار کہ تصحیح ضرور ہے۔ کیسی عجب گھڑی ہو تی تھی۔ ابا کا حکم ٹال بھی نہیں سکتے۔ تصحیح کریں یہ ہو نہیں سکتا۔ کانپتے ہاتھوں پرچے میں لکھی سطور کو دائیں بائیں دیکھتے، اور ابا کے ہاتھ پر پرچہ رکھ دیتے۔ ابا بہت اچھا لکھا ہے۔ احمد اپنے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہتے۔ اور ابا پرچے کوخوشی خوشی تہہ کر کے جیب میں رکھ لیتے۔

تو پھر کل کی مجلس میں یہ ہی پڑھوں نہ۔
جی جی ابا۔ احمد نظریں چرا لیتے۔

ابا ایسے خوش خوش پلٹ جاتے جیسے استاد سے انہیں ڈھیروں شاباش ملی ہو۔ کیسے ابا تھے ہمارے۔ مجلس ہوتی، مگر لاؤڈ اسپیکر کی گھن گھرج کے بغیر۔

کب شروع ہوئی کب ختم ہوئی پتہ بھی نہ چلتا۔ غم حسین ایسا ہی ہے۔ دل میں بس جاتا ہے۔ مجالس عزا ظلم کے خلاف خاموش احتجاج ہے۔ رسم شبیری کی ادائیگی عشق کا انداز ہے۔ جسے میں نے اپنے ابا سے جانا۔ یہ خوانوادۂ میر انیس ہے۔

ابا کا یہ گھرانا بڑا عجیب ہے۔ حد سے زیادہ خود دار ایک دوسرے کی مجبوریوں کے ساتھ ان کی خواہشات، ضروریات اور عزت نفس کا بھی ادراک۔ معلوم تھا احمد سگریٹ پیتے ہیں۔ ایک روز ہم کمرے میں داخل ہوئے ہماری طرف ان کی پیٹھ تھی۔ امی کو کچھ تھماتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ صاحبزادے کو دے دیجیے گا۔ اب ہم ان کے قریب پہنچ چکے تھے۔ امی کے ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ تھا۔

اہل بیت خاندانی اکائی کی وہ تربیت ہے جو ہمیں ہر رشتے میں نظر آتی ہے۔ ابا کے اندر اس تربیت کا بھر پور عکس تھا۔ جس کی روشنی سے ہمارا گھر منور تھا۔

ابا اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے لیے روٹی بھی خود بناتے تھے۔ ایک روز جو میں نے انہیں کچن میں روٹی بناتے دیکھا تو بے حد پریشان ہو گئی۔ یہ ہی خیال آیا کہ شاید میں ان کے مطلب کی روٹی نہیں بناتی۔ کہنے لگے نہیں آپ بہت اچھی روٹی بنا تی ہیں، لیکن ہمیں اپنا کام خود کرنے کی عادت ہے۔ خیر ہماری اور ان کی روٹی بنانے کے معاملے میں سبقت لے جانے کی کارروائی چلتی رہتی۔

جب پہلا بیٹا ہوا تو ابا نے رشی کا رشک کا نام لکھوایا علی رشک۔

ہم نے کہا ابا سید علی رشک۔ بولے اہل سادات ہونا باعث عز و شرف ہے۔ ہمارے اعمال ہمیں اب اس سابقے کی اجازت نہیں دیتے۔ اور اس معتبرسابقے کی دستار باندھے نہ جانے کتنے مکروہ کردار سامنے آگئے۔ ہمارے ابا ایسے ہی تھے۔ ان کی شخصیت میں پوری کربلا بسی ہوئی تھی۔ ابا سا عابد و زاہد اور پرہیز گار ہم نے اپنی زندگی میں ایک ہی دیکھا اور وہ ہمارے ابا ہی تھے۔ ہم نے انہیں کسی کو نصیحت کرتے دیکھا نہ اپنی مثال دیتے، نہ ہی عبد و زہد کے دکھاوے میں مبتلا دیکھا۔ جانے رات کے کس پہر سوتے تھے۔

اس وقت ان کے گھر میں ایک ہی حمام تھا جو دالان میں تھا۔ شادی کے دوسرے تیسرے دن، حمام جاتے ہوئے ان کے کمرے کے سامنے سے گزر ہوا توان کی گریہ کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔ اس خیال کے تحت کے ابا کسی تکلیف میں تو نہیں پردہ سرکا کے دیکھا تو ابا مصلے پر بیٹھے ہیں اور دونوں ہاتھ چہرے پر ہیں۔

اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا۔ اور اگر ہمیں گھر میں کوئی کام کرتا دیکھنا تو امی سے شکایت۔ اور امی دلار سے کہتیں۔ ہماے ہاں بہو بیٹیا ں پوچا جھاڑو نہیں کرتیں۔

امی (ساس) سے بھی نہایت تہذیب اور آپ جناب سے بات کیا کرتے۔ سبک چال، گفتار میں دھیما پن، مزاج میں انکساری، میں ابا سے کچھ بھی تو نہ سیکھ پائی۔

وہ اپنے دل کی ہر بات ہم سے کیا کرتے۔ مشورہ کرتے۔ ہم سے کہتے آپ اپنی سہلیوں میں علی (دیور) کے لیے کوئی رشتہ دیکھیں۔ مگر دیور جی نے کسی بھی رشتے کے لیے ان کی زندگی میں حامی نہ بھری۔

پھر ابا کے پیٹ میں درد رہنے لگا۔ کسی ٹیسٹ سے ان کے درد کی تشخیص نہ ہو سکی۔ انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کے مصداق یہ درد ان کی جان کے ساتھ ہی ٹلا۔

ابا چلے گئے مگر جاتے جاتے درس دے گئے۔ کربلا یوں بسائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).