چار ہزار سال سے بھٹکتی آتماؤں کی نحوست!


ہزاروں سال قبل مسیح، وادیٔ سندھ میں آباد جس قوم کے نشان ملتے ہیں، اس کے مذہبی عقائد سے متعلق معلومات ناکافی ہیں۔ شمال مغرب دروں سے اترنے والوں نے ہی غالباً ان مقامیوں کا کام تمام کیا اور پھر ہمالیہ کے دامن اور سندھو دریا کے کنارے بیٹھ کر وید لکھے۔

ہندو دھرم کو پہلا صدمہ تب پہنچا جب عظیم اشوکا نے بدھ مت کا چولا پہنا، تلوار پھینکی اور انسانوں سے روا داری کا معاملہ کرنے لگا۔ برہمنوں کو اقتدار واپس ملا تو بدھ مت کے ماننے والوں کی شامت بن آئی۔ قدیم وید لکھنے والے رشیوں نے اہنسا کا چولا اتار پھینکا اور ہندوستان کی دھرتی بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگ دی۔

تین سو سال قبل مسیح، سکندر کی فوجیں انہی شمال مغربی دروں سے وارد ہو کر مکرانی ساحل سے خون بہاتی، خاک اڑاتے نکل گئیں۔ ایک ہزار سال بعد محمد بن قاسم کا لشکر ملتان تک آن پہنچا۔ نوجوان سالار تو واپس ہوا، مگر مقامی مسلمانوں کی صورت اپنا نشان پیچھے چھوڑ گیا۔ عربوں کے لئے ’موالی‘ اور ہندؤوں کے لئے جو ’ملیچھ‘ تھے۔

دسویں صدی سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک دلی بار بار اجڑی۔ اسی دور میں مگر مسلمان صوفیا کی ہندوستان آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مغلوں کی بادشاہت قائم ہونے تک مسلمان برصغیر میں کثیر تعداد میں آباد ہوچکے تھے۔ کچھ تو حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے، مگر اکثریت مقامی مسلمانوں کی تھی۔ پندرہویں صدی ختم ہوتے ہوتے، بابا گورونانک نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھ دی۔

صدیوں سے ہندوستان وارد ہونے والے صوفیا اور بابا نانک جیسے درویش اپنے آفاقی افکار سے خطے کو منور کرتے رہے۔ ان ہستیوں کے آستانوں پر بلا تمیز رنگ و نسل ہندوستانی حاضر ہوتے اور فیض پاتے۔ جہاں اولیا کے ہاتھوں ذات پات کے ستائے ’شودر‘ دھڑا دھڑ قبول اسلام میں عافیت ڈھونڈتے تو وہیں پنجاب میں سکھ مذہب تیزی سے پھیل رہا تھا۔ صدیوں ساتھ جیتے مرتے سبھی مذاہب کے ماننے والے باہم جینے کا ڈھنگ سیکھ چکے تھے۔

اورنگ زیب بادشاہ کے زمانے میں پہلی بار مسلمانوں کو گرو نانک کی تعلیمات کے اثر سے دور رکھنے کی غرض سے سکھوں کے خلاف طاقت استعمال کی گئی۔ سکھوں پر تشدد کے رد عمل میں دسویں گرو گوبند نے سکھوں کو ظلم کے خلاف لڑنے کا درس دیا۔ امن اور محبت کے پیامبر بابا گورو نانک کے پیرو کار اٹھارہویں صدی میں داخل ہوئے تو کرپانیں پہلوؤں میں لٹکائے، اب سنگھ (شیر) کہلاتے تھے۔

اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حاکمیت قائم ہوئی تو مسیحی مبلغ بھی ہندوستان میں آن دھمکے۔ اسی دور کے اندر بر صغیر میں قرآن، سنت اور حدیث کے سوا ہر روایت کو رد کرنے والوں نے ایک اصلاحی (Puritan) تحریک کی داغ بیل ڈالی کہ جس کا بنیادی ہدف مقامی مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے بدعتی اثرات سے پاک کرنا اور غیر اسلامی شعائر سے روکنا تھا۔ دوسری طرف جزیرۃ العرب میں عثمانی خلافت میں رائج ’غیر شرعی شعائر‘ کے خلاف نجد سے اٹھنے والی اصلاحی تحریک، سعود بن عبدالعزیز کے ساتھ مل کر شام اور ملحقہ علاقوں میں اپنی عملداری قائم کرچکی تھی۔

اسلاف کے مذہب کی طرف لوٹنے کا عزم لئے دونوں تحریکیں جلد ہی رابطے میں آ گئیں۔ اٹھارہویں صدی میں ہی اسلام کو مغربی اثرات سے پاک کرنے کی غرض سے دیو بند میں ایک عظیم الشان ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس امر کے باوجود کہ حصول پاکستان کے سوال پر مسلمان قائد اعظم کی قیادت میں متحد رہے، اس تحریک کے بطن سے کئی ایسی مذہبی تحریکوں اور سیاسی جماعتوں نے جنم لیا کہ جن کے اثرات معاشرے میں آج بھی واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

اسی صدی کے آخری عشروں میں ہندؤوں کے اندر بھی مغربی و اسلامی اثرات کے خلاف مزاحمت کا احساس پیدا ہوا اور اصلاحی تحریکوں نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ ویدک تعلیمات میں ذات پات کا کوئی تصور موجود نہیں، لہٰذا 1875 میں قائم کردہ ’آریا سماج‘ کا مقصد سکھ اور مسلمان ہو جانے والے ہندؤوں کو واپس لانا اور ہندو مت کو قدیم ویدوں پر ازسر نو استوار کرنا تھا۔ آ ریا سماج کی ’شدھی‘ (Purification) تحریک کو ہندو مت کی پہلی تبلیغی (Proselytic) کوشش کہا جا سکتا ہے۔

سال 1870 میں چٹو پانڈے نے ’ہندوتوا‘ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کی بنیاد پر سال 1923 میں ونائیک ساورکر نے ’مہابھارت‘ کے قیام کے خدو خال ’ہندوتوا‘ نامی کتاب میں وضاحت سے رقم کیے۔ ’ہندوتوا‘ کے نظریے کو لے کر 1925 میں ’آر ایس ایس‘ نامی ہندو انتہا پسند تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1940 میں گولوالکر نے آر ایس ایس کی قیادت سنبھالی تو ہندو مت اور ہندو دھرتی کی رکھشا کا عزم دہراتے ہوئے بر صغیر میں آباد مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’مہا بھارت‘ کی ہندو شناخت تسلیم کرنے کا واضح پیغام دیا۔ تاہم آر ایس ایس کے نظریات فوری طور پر قبولیت عام پانے میں ناکام رہے اور آزادی کے بعد کئی عشروں تک بھارت اپنا سیکولر تشخص قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔

تقسیم ہوئی تو نئی مسلمان ریاست کو گونا گوں خطرات درپیش تھے۔ گرو گوبند کے کرپان بردار پیرو کاروں، متشدد مسلمانوں، اور آر ایس ایس کے غنڈوں کے ہاتھوں لاکھوں انسان اپنے اپنے آبائی گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اپنے حصے کے مہاجرین سنبھالنے کے لئے پاکستانی ریاست بے دست و پا نظر آ رہی تھی۔ مغرب میں افغان منہ پھاڑے بیٹھے تھے تو بھارت کشمیر پر دھونس، دھاندلی اور نئے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی پشت پناہی کے ذریعے قبضہ جمانے کو تلا ہوا تھا۔

پاک فوج کی آپریشنل کمان بالواسطہ طور پر اب بھی ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھ میں ہی تھی۔ جنرل میسی کی طرف سے قائداعظم کی حکم عدولی کے بعد، سابقہ کشمیری فوجیوں اور قبائلی رضا کاروں پر مشتمل لشکر جب سری نگر سے چند میل کے فاصلے پر رہ گیا تو نہرو چلائے، ’ریڈرز (Raiders) کشمیر پر حملہ آور ہیں۔‘ میجرجنرل اکبر خان نے جواب دیا، ’ہاں، ہمیں فخر ہو گا اگر ہمارا شمار چنگیز خان، تیمور، محمود غزنوی حتٰی کہ سکندر اعظم کے ساتھ ہو‘ ۔ مادی طور پر کمزور ریاستوں کو جب خود سے بڑی طاقت سے پالا پڑے تو ’غیر روایتی ہتھیاروں‘ پر ان کا انحصار بڑھ جاتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں پر زر کثیر کے اصراف اور جہادی جتھوں کی آبیاری کی متروک پالیسی کو اسی تناظر میں سمجھنے کے ضرورت ہے۔

اسی کی دہائی نے پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا کہ عسکری جتھے ’قومی اثاثوں‘ میں بدل گئے۔ اٹھارہویں صدی میں اٹھنے والی اصلاحی تحریکوں کی فکر سے سرشار ’مجاہدین‘ سرکاری سرپرستی اور ’پیٹرو ڈالرز‘ کی فراوانی کے ساتھ بروئے کار آ چکے تھے۔ آنے والے دو عشرے غارت ہو کر رہ گئے۔ اندرونی طور پر ملک فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ڈوبا ہوا اور معاشرہ بری طرح بٹ چکا تھا۔ انتہا پسندی زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چکی تھی۔

اقلیتوں کی ہی نہیں، خود مسلمانوں کی عبادت گاہیں اور اولیا کے مزارات تک محفوظ نہیں رہے تھے۔ اکیسویں صدی کے طلوع ہونے تک پاکستانیوں کو احساس ہو چلا تھا کہ جس بھینسے پر وہ سوار ہیں اس سے چاہیں بھی تو اب اترنا اس قدر آسان نہیں۔ کئی سالوں پر محیط صبر آزما جنگ میں افواج نے ہزاروں جانوں سے کفارہ ادا کرنے کے بعد درست سمت پکڑی تو وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھا ’ڈان لیکس‘ گروہ پرانے قرض اتارنے پر اتر آیا۔ باہم بد اعتمادی نفرت کی حدوں کو چھو رہی ہو تو قومی اہداف دھندلا جاتے ہیں۔

طویل انتظار کے بعد، خدا خدا کر کے سویلین اور عسکری قیادتیں ہم آہنگ ہیں۔ افغانستان میں روشنی نظر آ رہی ہے۔ امریکی مشکور ہیں۔ ایران اور بنگلہ دیش سے تعلقات میں برف پگھل رہی ہے۔ دنیا پاکستان سے دہشت گردی سمٹنے کی معترف ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کے خلاف قانون سازی کو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ کشمیریوں کی مزاحمت سے بو کھلائے ہوئے بھارت کے سوا کوئی انگلی پاکستان کی طرف نہیں اٹھ رہی۔ پاکستان کہ ایک بدلی ہوئی ریاست ہے، بھارت سمیت جو تمام ہمسائیوں سے مراسم کا نیا باب لکھنے کو آمادہ ہے۔

افسوس صد افسوس کہ بھارت مگر اب اٹھارہویں صدی میں اٹھنے والی بنیاد پرست اصلاحی تحریکوں (Puritans) کی گرفت میں ہے۔ سوارکر کی انتہا پسند تنظیم اب گاندھی کے ہندوستان پر حکمران ہے۔ کرپان بردار سکھ قیام پاکستان میں قائد اعظم کی پیش کش ٹھکرانے پر پشیمان بتائے جاتے ہیں۔ تقسیم پنجاب کے دوران قتل و غارت پر جبکہ کم از کم دو فریق نادم نظر آتے ہیں، تیسرے فریق کی کوکھ سے پھوٹنے والی ’بی جی پی‘ مگر آج بھارت کی مقبول ترین جماعت ہے۔ مہاتما جی نہیں انتہا پسند مودی ہی اب بھارت کا ’مہا نیتا‘ ہے۔ بھارتی میڈیا جس کا مددگار اور بھارتی فوج جس کا عسکری ونگ ہے۔

ہزاروں سال قبل موہنجوداڑو اور ہڑپہ میں آباد جن پر امن مقامیوں کو جنگجو آریا جتھوں نے تہ تیغ کیا تھا، گمان یہی ہے کہ صدیوں سے ان کی بھٹکتی آتمائیں اب بھی کہیں ہمارے سروں پر ہی منڈلاتی ہوں گی۔ چار ہزار سال سے رشیوں کے وید، صوفیوں کی کافیاں اور گرو گرنتھ صاحب کے گیت اس قدیم مٹی میں آفاقی دانش گوندھتے رہے ہیں، خطہ مگر کسی نا کسی صورت آج بھی نفرت، بے انصافی اور قتل و غارت کی ہی آماجگاہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).