تحریک انصاف کی حکومت سے انصاف کی توقع


احمد نورانی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 99 کمپنیاں، 130 فرنچائز ریسٹورنٹس، 30 جائیدادیں جن میں امریکہ میں دو کمرشل پلازے بھی شامل ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان، یو اے ای، امریکہ اور کینیڈا میں پھیلی اربوں ڈالرز کی کاروباری اقلیم۔ رپورٹ کی کوئی تردید کسی ثبوت کے ساتھ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے بس ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ”میرے اور میرے خاندان کے خلاف ایک انجانی سائٹ پر ایک کینہ پرور پروپیگنڈا سٹوری (جو سوشل میڈیا پر ابھی اپ لوڈ کی گئی ہے) کی سختی سے تردید کی جاتی ہے“ ۔

بظاہر احمد نورانی نے بظاہر سب کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس تمام الزامات کے سرکاری طور پر جاری کردہ ثبوت موجود ہیں۔ وہ میڈیا جو لندن سے نواز شریف کی تصویر آنے پر کہرام مچا دیتا ہے اور تصویر کو قومی وقار اور ملکی سالمیت کے خلاف گہری سازش قرار دیتا ہے، آج شرمندہ و خجل کسی کونے میں چھپا سسکیاں لے رہا ہے۔ چلیں جن کو اب بھی قومی میڈیا کی آزادی کا یقین تھا ان کے بھرم کا جنازہ تو نکلا۔ کنٹرولڈ میڈیا، پابہ جولاں سیاست اور طاقتوروں کے شکنجے میں جکڑے قانون کے بارے میں لکھتے لکھتے ہماری انگلیاں فگار اور خامہ خوں چکاں رہا۔

ایسی کوئی خبر اگر زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن وغیرہ کے خلاف آئی ہوتی تو اب تک مقتدرہ کے پسندیدہ اینکرز چینلز پر عدالتیں لگا کر ان سیاستدانوں کو چور، ڈاکو اور کرپٹ ثابت کر کے چوک میں لٹکانے کا فیصلہ بھی صادر کر چکے ہوتے مگر افسوس وہ مجرمانہ خاموشی سے کام لے رہے ہیں۔ ان کی آواز حلق میں دب کے رہ گئی ہے۔ ان کے ضمیر سو چکے ہیں۔ ان کی اصول پسندی کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ ان کی آزادی دم توڑ چکی ہے۔ ان کی جرات رندانہ اور گفتار بے باکانہ پر سکوت مرگ طاری ہے۔ ان کی نظریں جھکی، لہجے معذرت خواہانہ اور اسلوب فدویانہ ہیں۔ نواز شریف سے منی ٹریل مانگنے والوں کی زبانیں کیوں گنگ ہو گئی ہیں؟

حکومت کے حامی غیر ملکی لاؤڈ سپیکر باجوہ لیکس کو سی پیک کے خلاف دشمن قوتوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔ احمد نورانی کو را کا ایجنٹ، ملک دشمن اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ ملک کے واحد ”دیانتدار“ وزیر اعظم کے حق میں تصنع سے بھری مسجع و مقفیٰ دعائیں کرنے والے مولانا کو بھی چپ لگی ہے۔ پانامہ سکینڈل پر سیاسی بیان بازی کرنے والے آئی ایس پی آر بھی خاموش ہے۔ غرض سوشل میڈیا کے سوا ہر جگہ ہو کا عالم طاری ہے۔ سکوت مرگ جاری ہے۔ خواری ہی خواری ہے۔

معلوم نہیں وہ عادلانہ و منصفانہ عدالتیں اور دہلیز پر انصاف فراہم کرنے والے ججز کیوں نہ رہے جو دھرنوں میں مصروف عمل سیاستدانوں کو یہ پیغام بھیجتے تھے کہ یہاں شور مچانے کے بجائے ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کو انصاف فراہم کریں گے۔

کاش آج بابا رحمتا زندہ ہوتا تو فوراً انمول ہیروں پر مشتمل جی آئی ٹی بنوا کر اندرون اور بیرون ملک جنرل باجوہ اور ان کے خاندان کے بھاری بھرکم اثاثوں کی چھان پھٹک کرواتا۔ عدالتی تاریخ میں پہلی بار کسی کیس میں نگران جج مقرر کر کے چھ ماہ کے اندر فیصلہ صادر کرواتا۔

کاش کرپشن کے خلاف ڈی چوک میں ایک چھبیس دن تک اودھم مچانے والے عمران خان اور ان کے رفیق کار سراج الحق زندہ ہوتے تو فوراً یہ کیس عدالت لے جاتے جہاں دن رات سماعتیں منعقد ہوتیں اور رات ایک بجے بھی فیصلے سنانے کے عزم کیے جاتے۔

مگر افسوس کہ جنرل صاحب اور ان کے ہوشربا مبینہ اثاثہ جات کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد کرپشن کے خلاف دن رات نعرہ زن وزیراعظم بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہیں۔ اگر احمد نورانی غلط ہیں تو عدالت میں ان کو گھسیٹ کر جنرل باجوہ کا نام صاف کیا جائے، اگر وہ درست ہیں تو قانون پر عمل کیا جائے۔ آج ایک مرتبہ پھر ایک نہیں دو پاکستان کے تصور کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ پڑا ہے۔ ایک نہیں دو پاکستان۔ ۔ ۔ ایک سیاستدانوں کے لیے ایک طاقتوروں کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).