پاکستان میں دانش ور طبقات کی اجارہ داری


پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد برٹش ایمپائر کے خاتمے کے بعد وجود پذیر ہونے والی نئی ریاستیں عالمی جغرافیائی سرحدوں پر مشتمل ہیں۔ سن پینتالیس کے بعد، نوآبادیاتی عہد کا خاتمہ نہیں درحقیقت مابعد نوآبادیات یا جدید نوآبادیات کا آغاز تھا۔ اس جدید عہد کی بنیاد اس صنعتی ترقی کی مرہون تھی جس کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔ چنانچہ سماج میں دو گروہ وجود پذیر ہوئے۔

اول: زرعی سماج، جو ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے جاگیرداریت کے روپ میں تبدیل ہوا۔ دوم: جدید صنعتی سماج، جس کی بنیادوں میں سرمایہ داریت کا فلسفہ پیوست ہے۔ سماج کی گروہ بندی انھی دو طبقات کے گرد تشکیل ہوئی۔ آگے چل کر، ہر دو طبقات کی نمائندگی سماج کے دانش وروں کے سپرد ہوجاتی ہے گویا یہ دانش ور کسی ایک طبقے کا چناؤ کرتے ہیں۔ بہ قول اطالوی مفکر انتونیو گرامچی، سماج کا ہر فرد اپنے تئیں ایک دانش ور ہوتا ہے، وہ کار دنیا میں ایک تعقل لیے ( عقل کے ذریعے سمجھنا) شریک کار بن کر اپنے شعوری اخلاقی چلن کے تابع رہتا ہے۔

گرامچی اپنی کتاب Prison Notebook میں دانش وروں میں مزید تخصیص کے دوران کہتا ہے کہ سماجی کار پردازی کے حوالے سے ہر کوئی دانش ور نہیں ہوتا، اس بنیاد پر وہ دانش وروں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اول: روایتی دانش ور (Traditional Intellectuals) اور مربوط یا نامیاتی دانش ور (Organic Intellectuals)۔ مربوط دانش ور سماج کے طاقتور طبقات کے مفاد کو منظم کرنے، انھیں مزید طاقتور بنانے میں معاون ہوتے ہیں۔ یہ دانش ور عوامی رائے سازی اور بالا تر طبقات کی اجارہ داری کے نگہبان مقرر ہوتے ہیں۔

پاکستان کے سماج میں یہ مربوط دانش ور میڈیا انڈسٹری کے ذریعے سے معلومات کی تقسیم اور اس کی عوامی ترسیل کرتے ہیں، ان میں مخصوص سیاسی، معاشی، دفاعی اور عالمی امور پر رائے زنی کرنے والے تجزیہ نگار، بعض کالم نگار، چند تجربہ کار صحافی نمایاں ہیں، مربوط دانش ور صرف انفرادی سطح تک ہی محیط نہیں ہیں بلکہ بسا اوقات میڈیا آؤٹ لیٹس خود کو بہ طور مربوط دانش ور کی حیثیت سے بالا تر طبقات کے لئے پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست، معیشت یا دفاعی امور پر تجزیہ انھی مربوط دانش وروں کے تحت پیش کیا جاتا ہے اور پھر یہی دانش ور رائے عامہ کو مزید طاقت ور کرنے کے لیے اخبارات میں بھی خصوصی جگہ پاتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں مربوط دانش ور رائے ساز ہیں، لہذا حکمران طبقات اس گروہ کو سماج کا اہم جزو سمجھ کر ان پر دست شفقت رکھتے ہیں، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں کیونکہ مربوط دانش وروں کا یہ گروہ بالا تر طبقات سے متعلق مخصوص رائے عامہ تشکیل دینے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔

دانش وروں کی مزید تخصیص کرتے ہوئے گرامچی انھیں بالائی ڈھانچے کی دو سطحوں پر بانٹتا ہے، پہلے کو وہ سول سوسائٹی اور دوسرے کو سیاسی سوسائٹی گردانتا ہے۔ یہ دونوں سطحیں ایک طرف تو اپنے تئیں سماجی سطح پر مقتدر گروہ کی اجارہ داری کے کردار کی معاونت کرتی ہیں جبکہ بہ راہ راست ریاستی سطح پر حکومتی اور قانونی طور پر مقتدرانہ کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں دانش ور مقتدر طبقہ مختلف اداروں میں سماجی اجارہ داری اور حکمران طبقات کے استحکام کی خاطر بہ طور ماتحت کام کرتا ہے۔ ان دانش وروں کے موثر کردار کے نتیجے میں بالا تر طبقات عوامی آمادگی یا قبولیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ قبولیت مقتدر طبقات کی ساکھ یا شہرت کو قائم رکھنے کا باعث بنتی ہے۔

ایک دانش ور جب کسی خاص گروہ کی سیاسی جماعت سے متعلق نرم گوشہ رکھتا ہے تو وہ گویا اس سیاسی گروہ کے نامیاتی یا مربوط دانش وروں میں شامل ہوجاتا ہے اور مضبوطی سے اس گروہ سے جڑ جاتا ہے، اس کے عوض وہ معاشی و سماجی مفادات حاصل کرتا ہے۔ ہر عہد میں، پاکستان میں مربوط دانش ور تیار کیے جاتے رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود با شعور حلقوں کے مطابق، دانش وروں کا یہ گروہ ہمارے معاشرتی طبقے کی نمائندگی نہیں کرتا بالکل ایسے ہی جیسے پارلیمان کا رکن بننے والے الیکٹ ایبلز حقیقت میں عوامی نمائندے نہیں ہوتے۔

پاکستان کے ان مربوط دانشوروں کی مقبولیت کے کیا نتائج ہیں؟ عصری دنیا کا یہ سب سے سنگین مسئلہ ہے، جسے سمجھنا ناگزیر ہے۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے فروغ کے لئے دو سو کے قریب یونیورسٹیز ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے یہاں پر تاریخ، سیاسیات، معاشیات، ادب، لسانیات، علم التعلیم اور سائنسی شعبہ جات میں پڑھانے والے ماہرین مضامین کو قومی میڈیا میں بہ طور دانش ور جگہ نہیں دی جاتی۔ دوسری جانب سیاست دانوں کو پرائم ٹائم بلیٹن / ٹاک شوز میں ٹی وی چینلز پر نمائندگی دی جاتی ہے۔

یہ ایک بار پھر سیاست، تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور دینی علوم کے پروفیسروں کی خصوصی مہارت، علم اور اہمیت کا انکار ہے جو اکیڈمیہ میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا قومی اور بین الاقوامی امور پر بحث کرنے کے لئے ان افراد کو منصوبہ بندی کے تحت جگہ فراہم نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے ماہرین مضامین کو صرف روایتی دانش ور کے درجے میں رکھا جاتا ہے تاکہ یہ گروہ عوامی رائے سازی میں کردار ادا نہ کر سکیں۔

در حقیقت، میڈیا رائے عامہ کو فروغ دینے کے لئے ہوشیار کھیل، کھیل رہا ہے یہ پروپیگنڈے کی ایک بہت مشہور تکنیک ہے جس کے ذریعہ سادہ لوح لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ممتاز شخص (مربوط دانش ور) کے نظریات ”لوگوں کے“ ہیں۔ فرانسیسی فلاسفر مشل فوکو کا کہنا ہے کہ عالمگیر دانشور کی جگہ ”مخصوص“ دانشور نے حاصل کرلی ہے اور ان مخصوص دانش وروں کو عوامی اذہان پر طاری کیا جاتا ہے۔ فوکو کے مطابق جدید تاریخ میں دانشوروں کے بغیر کوئی انقلاب نہیں آیا ہے۔

اس کے برعکس، دانشوروں کے بغیر کوئی بڑی انسداد انقلابی تحریک نہیں چل سکی ہے۔ دانشور انقلابی تحریکوں کے باپ اور ماؤں کا کردار نبھاتے رہے ہیں۔ گرامچی مارکس اور اینگلز کے تناظر میں کہتا ہے کہ سچے روایتی دانش ور (اساتذہ، ماہرین تعلیم، پیشہ وارانہ ماہر) کا یہ فریضہ ہے کہ بدلتے ہوئے معاشی و سماجی تقاضوں کے تحت اپنے روایتی بندھنوں کو توڑ کر انقلابی طبقات کی صف میں شامل ہوجائیں، یعنی وہ طبقات جو مستقبل کے معمار ہیں۔

پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل اور ان کے حل پر مبنی تجاویز پیش کرنے کے لیے ہمیں روایتی دانش وروں کو جگہ دینا ہوگی جو دراصل اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ان آوازوں کو جگہ دے کر ہم مربوط دانش وروں کی اجارہ داری توڑ سکتے ہیں جو بعد میں بالاتر طبقات کی طاقت پر چوٹ لگانے میں موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ قومی سطح پر تعلیم یافتہ نوجوان کو پہچان ہونی چاہیے کہ کون کون سے ایسے دانش ور رائے عامہ (داخلی و خارجی امور پر) متعین کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں جو بنیادی طور پر بالا تر طبقات کے نمائندے ہیں۔ پاکستان میں مابعد نوآبادیاتی عہد کے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ابتداء رائے عامہ کو تبدیل کرنے سے ہوگی۔
یہ تحریر اکمل سومرو کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).