روایت اور جدیدت کے بیچ معلق پاکستان کیا کرے؟


اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب دنیا میں قومی ریاست (نیشن سٹیٹ) کا تصور پروان چڑھا تو سیاست کا یہ اصول بتدریج پوری دنیا کو متاثر کرتا گیا۔ نیشن سٹیٹ کا بنیادی اصول ہی کسی جغرافیائی حدود کے اندر خودمختار حکمرانی کا حق ان حدود کے اندر سب کو یا وہی کسی بڑی نسلی قوم کو دینا ہے۔ نیشن سٹیٹ کا یہ تصور اپنے اندر اسی طرح کے کسی دوسری سیاسی انتظام مثلاً شہنشائیت، کلیسیت/تھیوکریسی یا کلونیل سلطنتوں کا متبادل نظام لیا ہوا ہے جہاں حکمرانی کا حق صرف ”لوگوں“ کو دیا گیا ہے۔

قومی ریاست کے اس تصور اور اس کی روشنی میں پروان چڑھتی ہوئی سیاست نے سیاسی انصرام کے سارے روایتی، بادشاہی اور کلیسائی نظام کو ختم کر دیا۔

قومی ریاست نے ادارہ جاتی شہریت کا اصول مقدم رکھا اور سیاسی و سماجی انصرام کے لیے ادارے بنائے۔ رنگ، نسل، طبقے اور مذہب کی بنیاد پر حکمرانی کے فرسودہ حق کو نہ صرف چیلینج کیا بلکہ ان بنیادوں کے الٹ ادارہ جاتی شہریت کی بنیاد ہی قومی ریاست کا اساس بن گئی۔

قومی ریاستوں میں عموماً مرکزی نسلی گروہ یا قومی ریاست کے بانیوں کی اکثریت کی زبان، مذہب، قومی بیانیے اور ثقافت کو دوسروں پر ترجیح دی گئی۔ اسی وجہ سے بسا اوقات ایک ”یکساں قوم“ بنانے کے لیے اسی جغرافیائی اکائی کے اندر دوسری قومیتوں کو ختم کیا یا پھر ملک بدر کیا۔ اس کشمکش کی وجہ سے دو عالمی جنگوں سمیت کئی جنگیں لڑی گئیں۔

قومی ریاستوں کی اکثریت میں ثقافتی، نسلی، مذہبی اور لسانی تنوع کو خاص لائحہ عمل سے سنبھالا گیا جہاں ان تصورات اور خیالات کو فرد کی نجی زندگی سے منسلک کر کے برتا گیا اور ریاست کو ان چیزوں خصوصاً مذہب میں مداخلت کرنے سے روکا گیا۔ جبکہ چند ایک قومی ریاستوں میں اس تنوع کو برابری کی بنیاد پر سمبھالا۔ اس کی بڑی مثال موجودہ سوئٹزرلینڈ ہے جہاں سب نسلی، لسانی اور مذہبی گروہوں کو یکساں مقام دیا گیا ہے۔

قومی ریاست جدیدیت کا نتیجہ ہے۔ موجودہ دور جسے ”عالم گیریت“ کہا جاتا ہے اور جو ”پس جدیدیت“ کا خاصہ ہے، نے قومی ریاست کو کئی مسائل سے دوچار کیا ہے جس کے اثرات پاکستان جیسے عجیب و غریب قومی ریاست میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں اب بھی، عالم گیریت کے اس دور میں بھی، کوشش کی جاتی ہے کہ کس طرح اس تنوع کو ایک جبری اکثریتی بیانیے میں ڈھالا جائے اور جو اس سے برعکس سوچے اس پر ملک دشمن، غدار اور ایجنٹ کے ٹھپے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر کسی اور وقت بحث کی جا سکتی ہے۔ یہاں پاکستان جیسے سماج میں قومی ریاست سے منسلک کچھ اور امور پر بات کی جا رہی ہے۔

پاکستانی سماج اور سیاست روایت اور جدیدیت کے بیچ معلق ہے۔ ہمارے زعماء نے 1947 ء سے پہلے ایک جداگانہ قومی ریاست کے قیام کو یورپی نیشن سٹیٹ کی تھیوری کے فریم ورک میں قیاس کیا اور اپنی جدوجہد کی بنیاد اسی نظریے کو بنایا۔ چونکہ اس وقت کے ہندوستان کے سماج میں وہی پرانی روایتی انصرام موجود تھا اور اس کی مثالیں سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں اور جہاں ایسی بادشاہی ریاستیں نہیں تھیں وہاں ”قبائلی سیاسی انتظام کا روایتی نظام مثلاً پنچایت/جرگہ/یرک“ موجود تھے۔

پاکستان کی جدوجہد سے منسلک ہمارے زعماء کی اکثریت مغربی سیاسی نظریے سے متاثر تھی اگرچہ وہ اس پر مذہبی ملمع لگائے تھکتے نہیں تھے۔ یوں انہوں نے جدوجہد یورپی نیشن سٹیٹ کو سامنے رکھ کر کی مگر لوگوں کی کوئی علمی و فکری تربیت نہیں ہو سکی کہ وہ اس نئے انصرام کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے۔ یوں ریاست جدید قومی ریاست کے تصور کی بنیاد پر بن گئی مگر اس کے ”شہریوں“ کا ذہین روایات میں اٹکتے رہا۔ نئے انصرام کے لیے ”ادارے“ بنائے گئے اور ان اداروں کی مدد سے لوگوں کے قدیم سیاسی روایات کو ختم کر دیا گیا۔

چونکہ سماجی ذہین تیار نہیں تھا اس لیے یہاں جدید قومی ریاست کی جستجو میں روایات تو چلی گئیں البتہ ان کا شخصی رویہ ہر ادارے میں موجود رہا۔ یوں یہ ادارے ناکام ہوتے گئے اور سلامتی/تحفظ کا ادارہ جس کا بنیادی ڈھانچہ جبری اور غیر جمہوری ہوتا ہے وہ دوسرے سارے اداروں پر سبقت لیتا گیا۔ اس کی اس قوت کو سماج کے روایتی ذہن نے خوب پذیرائی بخشی۔ یہ ادارہ اس قدر خود سر ہوتا گیا کہ اسے اب پاکستان کے سیاسی نظریے میں ”ریاست“ سے مراد یہی ادارہ ہوتا ہے اور ہر قسم کے انصرامی، معاشی اور اخلاقی احتساب سے ماورا ہوتا گیا۔

اسے سماج میں قبولیت اس لیے ملی کہ سماجی کی سابقہ روایات جو قبائلیت، غیرت، دشمنی، بدل وغیرہ پر قائم تھیں نے اس کو نظریاتی اساس فراہم کیا۔ یوں سماج اس جبری انصرام کو نفسیاتی طور پر بھی قبول کرتا گیا اور اس ملک پر حقیقی جمہوریت کا راستہ روکا گیا۔ یہاں ”جمہوریت“ کو نظریہ اول اور اعلی مانا گیا مگر ہمیشہ جمہوریت اس روایتی نظریات کی کشمکش میں کہیں غائب ہی رہی۔

جدید ریاست کے اس تصور نے سماج سے ان کی روایات تو چھین لیں اور ان کو بھیڑوں کی طرح سیاسی انصرام کی جدیدیت میں دھکیل دیا مگر انصرام اور انتظام کے جدید اداروں سے ان کو جڑ نہ سکا۔ اس کی وجہ سے ہمارا سماج جدیدیت ریاستی تصور/جمہوریت کو اپنا سکا نہ روایات باقی رہیں۔

یوں ہمارا سماج روایت اور جدیدیت کے بیچ معلق ہو کر رہ گیا۔ روایت سے نکل گیا مگر ریاست جدید اصولوں کو سب شہریوں کے لیے اپنا نہ سکی اور نہ ”قوم“ ذہنی طور پر تیار کی گئی بلکہ ریاستی بیانیہ نے ”قوم“ کو اس کا الٹا سبق پڑھایا۔ سبق روایات اور رجعت پسندی کا پڑھایا اور ریاست کا انصرام یورپی قومی ریاست کے نمونے پر رکھا۔

یہی وہ تضاد ہے جو ہمیں بہ حیثیت ایک سیاسی اور سماجی نظام کے ایک گھن چکر میں گھماتا رہا ہے۔ راستہ کھو گیا ہے اور ہم کسی گھنے جنگل میں کھو گئے ہیں۔ اس ملک میں ایک مخفی عسکری بادشاہت قائم ہے جو ہمیشہ سے کسی سویلین پردے کے پیچھے چھپی رہتی ہے۔ جو دکھتا ہے وہ اصل حکمران نہیں ہے۔ جو نہیں دکھتا ہے وہی نظام ہستی پاکستان چلا رہا ہے۔

ایسے میں کیا کیا جائے ایک نہایت اہم سوال بنتا ہے۔ جواب جو بھی ہو مگر اس گھن چکر سے پاکستان کو نکلنا ہوگا۔ اگر پاکستان میں مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کیا جاسکتا تو بہتر ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ہی کوئی واضح، آشکار بادشاہت قائم کی جائے۔

دوسرا راستہ وہی ہے جس کو کئی قوموں نے اپنا کر اپنے شہریوں کے لیے مثالی نہیں تو بہتر نظام دیے ہیں۔ جدید طرز پر استوار عالم گیریت کو سامنے رکھتے ہوئے خالص جمہوری فیڈریشن ہو جہاں لسانی، نسلی، مذہبی اور علاقائی تنوع کا خیال رکھ کر ہی ایک خالص جمہوری ریاست کا قیام ممکن ہو۔ دونوں میں سے جو بھی راستہ ہو مگر اس گھن چکر کو ختم ہوجانا چاہے تاکہ پاکستان کو اخر کار کوئی سمت تو مل جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).