کووڈ۔19 کا پھیلاؤ اور حساب کی غلطی: جب لوگوں کا رویہ ہی ان کے آڑے آتا ہے


حساب کی غلطی

ایک سادہ سی حساب کی غلطی بتاتی ہے کہ کیوں اکثر لوگوں نے کورونا وائرس کے خطرات کو کم سمجھا اور سماجی دوری، ماسک پہننے اور ہاتھ صاف کرنے کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔

ذرا سوچیں کہ آپ کے بینک نے آپ کو ایک ڈیل دی ہے جس کے تحت ہر تین دن کے بعد آپ کا پیسہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ اگر آپ آج ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو تقریباً کتنی دیر میں آپ لکھ پتی بن جائیں گے؟

کیا ایسا ایک سال میں ہو گا؟ چھ مہینے میں؟ 100 دن میں؟

یہ بھی پڑھیئے

الگورتھم علمِ ریاضی میں کہاں سے آیا؟

علمِ ریاضی کیا ہے، حقیقت کا عکس یا خود ایک حقیقت؟

6174: نمبر جس نے ریاضی دانوں کو حیران کر رکھا ہے

قدیم چین:علمِ ریاضی، شہنشاہ اور 121 عورتوں کے حرم کا ٹائم ٹیبل

اس کا درست جواب ہے ابتدائی سرمایہ کاری کے بعد ٹھیک 60 دنوں میں آپ کا بیلنس ٹھیک 1,048,576 ڈالر ہو گا۔ اور مزید 30 دن کے بعد آپ نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کما لیے ہوں گے۔ سال کے اختتام تک آپ کے پاس 1,000,000,000,000,000,000,000,000,000,000,000,000 ڈالر سے زیادہ ہوں گے، جن کی گنتی بھی مشکل ہے۔

اگر آپ کے اعداد و شمار کافی غیر معمولی ہیں، تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ کئی لوگ متواتر چیزوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قدر کے متعلق غلط اندازے لگاتے ہیں۔ اس غلطی کو ’ایکسپونینشیئل گروتھ بائس‘ (ای پی بی) کہتے ہیں، اور اگرچہ شاید یہ آپ کو تصوراتی لگے، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس نے اس سال لوگوں کے رویوں پر گہرا اثر چھوڑا ہو۔

کئی مطالعاتی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں میں ای پی بی ہے، وہ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کے متعلق کم فکر مند ہیں، اور وہ سماجی دوری، ہاتھ صاف کرنے اور ماسک پہننے جیسے اقدامات کی کم تقلید کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حساب کی ایک سادہ سی غلطی سے کئی جانیں جا سکتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم نے خم کو چپٹا کرنے کی کوشش کرنی ہے اور پوری دنیا میں عالمی وبا کی دوسری لہر کو روکنا ہے تو ہماری ترجیح ہونی چاہیئے کہ ہم بائس یا تعصب کو درست کریں۔

کسی خاص تعصب کے آغاز کے بارے میں جاننے کے لیے سب سے پہلے ہمیں مختلف قسم کی نشو نما کے متعلق جاننا ضروری ہے۔ سب سے عام ’لینیئر‘ یا لکیر کی طرح کی ترقی ہے۔ جیسا کہ اگر آپ کے باغ میں ہر روز تین آم لگتے ہیں، تو دو دن میں آپ کے پاس چھ آم ہوں گے، تین دنوں کے بعد نو اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔

اس کے برعکس ایکسپونینشیئل یا قوت نمایانہ ترقی وقت کے ساتھ تیز بڑھتی ہے۔ شاید اس کی سادہ ترین مثال آبادی میں اضافہ ہے۔ آپ جتنے زیادہ بچے پیدا کریں گے، آبادی میں اضافہ اتنی ہی تیزی سے ہو گا۔ اگر آپ کے تالاب میں گھاس لگی ہوئی ہے جو دن میں تین گنا زیادہ ہوتی ہے، تو دوسرے پودے آہستہ لگیں گے۔

چاول اور شطرنج

اگر شطرنج کے ہر خانے میں چاول میں دانے کو دوگنا کرتے جائیں تو 64 ویں خانے تک پہنچتے پہنچتے گندم کے انبار لگ جائیں گے

ایکسپونینشیئل گروتھ کو نظر انداز کرنے کی ہماری صلاحیت کا ہمیں ہزاروں سال سے علم ہے۔ ایک انڈین کہانی کے مطابق سیسا ابنِ داہر نامی ایک براہمن کو شطرنج کی ایک ابتدائی قسم تیار کرنے پر انعام کی پیشکش کی گئی۔ اس نے کہا کہ شطرنج کی بساط کے پہلے خانے میں اسے گندم کا ایک دانہ دیا جائے، دوسرے میں دو، تیسرے میں چار، اور 64 خانوں تک ہر خانے میں ان کو دوگنا کر دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ کو ابنِ داہر کی اس سادگی ہر بظاہر ہنسی آ گئی لیکن بعد میں جب اس کے خزانچی نے بتایا کہ اس طرح تو ان کی زمین پر گندم کا ہر دانہ ختم ہو جائے گا، یعنی کل ملا کے تقریباً 18,446,744,073,709,551,615 گندم کے دانے، تو اسے یہ بات سمجھ آئی۔

سنہ 2000 کی دہائی کے آخر میں سائنسدانوں نے اس تعصب پر باقاعدہ طور سے تحقیق کرنا شروع کر دی تھی، جس میں پتہ چلا کہ اکثر لوگ سیسا ابنِ داہر کے بادشاہ کی طرح خود ہی یقین کر لیتے ہیں کہ اکثر ترقی لکیر کی طرح سیدھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر وہ ایکسپونینشیئل اضافے کی تیزی کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔

یہ ابتدائی تحقیق بنیادی طور پر ہمارے بینک بیلنس سے وابستہ تھی۔ اکثر سیونگ اکاؤنٹ آپ کو کمپاؤنڈ انٹرسٹ یا سود دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں آپ کو پہلے سے حاصل کیے گئے سود پر سود ملتا ہے۔ یہ ایکسپونینشیئل گروتھ کی واضح مثال ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ کم انٹرسٹ ریٹ سے بھی وقت کے ساتھ ساتھ اچھا فائدہ ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کی شرح سود پانچ فیصد ہے تو آج 1000 پاؤنڈ کی سرمایہ کاری ایک سال کے بعد 1,050 پاؤنڈ ہو جائے گی، اور دو سال بعد 1,102.50 پاؤنڈ، جو کہ 40 سال میں بڑھتے بڑھتے 7000 پاؤنڈ ہو جائے گی۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر وہ جلدی سرمایہ لگانا شروع کر دیں تو انھیں کتنا پیسہ مل سکتا ہے، تاکہ انھیں ریٹائرمنٹ میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔

مزید پڑھیئے

’شونیہ‘ سے لامحدودیت تک کا سفر

’کیلکولیٹرز بچوں کے لیے مفید ہیں‘

صفر کا ہندسہ موجودہ اندازوں سے کہیں قدیم

کووڈ 19 کے مردوں اور عورتوں پر اثرات مختلف کیوں؟

اپنی بچت میں کمی کے علاوہ اس تعصب کی وجہ سے کافی زیادہ لوگ غیر فائدہ مند قرضوں میں پھنس جاتے ہیں، جہاں قرضہ کا بوجھ ان پر لٹکتا رہتا ہے۔ سنہ 2008 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اس تعصب کی وجہ سے کسی کی ڈیبٹ ٹو انکم ریشو یا قرضے کے حوالے سے آمدنی کی شرح اوسطاً 23 فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد تک ہو جاتی ہے۔

حیرانی کے طور پر اس طرح کی غلطی کرنے والے سبھی طرح کے لوگ ہیں جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ ڈینیالا سیلے جنھوں نے زیورخ میں قائم سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی اقتصادی فیصلہ سازی پر تحقیق کی ہے، کہتی ہیں کہ علم ریاضی کے تربیت یافتہ طالب علم بھی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ ’اس سے شاید کچھ فائدہ ہو جاتا ہو، لیکن اس سے تعصب نہیں رکتا۔‘

یہ شاید اس لیے ہے کہ وہ غور و فکر کے بجائے الہام پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں، سو اگرچہ انھیں کمپاؤنڈ انٹرسٹ جیسی چیزوں کے بارے میں پتہ بھی ہے، وہ اس کا استعمال کرنا بھول جاتے ہیں۔ معاملہ اس وقت مزید بگڑ جاتا ہے جب اکثر لوگ بڑے اعتماد سے دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں ایکسپونینشیئل گروتھ کا پتہ ہے لیکن پھر بھی جب انھیں کہا جائے کہ کمپاؤنڈ انٹرسٹ جیسی چیزوں کا تخمینہ لگائیں تو تعصب کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔

چارٹ

جو چارٹ اکثر سیاستدان ہمیں دکھاتیں ہیں وہ پوری تصویر پیش نے کرتے

ایسی ہی تحقیق میں نے اپنی کتاب ’دی انٹیلیجنس ٹریپ‘ میں بھی کی ہے جس میں دیکھا گیا کہ عقلمند اور تعلیم یافتہ لوگوں کا اکثر ایک ’بائس بلائنڈ سپاٹ‘ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ان سے غلطی سرزد ہونے کی گنجائش کم ہے۔

اس سال کووڈ۔19 کی وبا کے آغاز میں ہی تحقیق کاروں نے یہ جاننے کی کوشش شروع کی کہ کیا یہ تعصب متعددی بیماریوں کے متعلق ہماری سمجھ کو متاثر کر سکتا ہے۔

وبائی امراض کے متعلق مختلف تحقیق کے مطابق اگر مداخلت نہ کی جائے تو ہر تین اور چار دنوں کے دوران کووڈ۔19 کے نئے کیسز دو گنا ہو جاتے ہیں، اسی وجہ سے بہت سے سائنسدانوں نے مشورہ دیا تھا کہ وبا کے آپے سے باہر ہو جانے سے پہلے ہی تیزی سے لاک ڈاؤن لگا دیے جانے چاہیئں۔

مارچ میں جرمنی میں قائم یونیورسٹی آف بریمین میں یورس لیمرز نے یونیورسٹی آف کولون کے جان کروسیئس اور این گاسٹ کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا جس میں لوگوں سے بیماری کے ممکنہ پھیلاؤ کے متعلق سوالات کیے گئے۔ سروے کے نتائج سے پتہ چلا کہ وائرس کے پھیلاؤ کے متعلق لوگوں میں بڑی تعداد میں ایکپونینشیئل گروتھ بائس موجود ہے، حالانکہ اکثر لوگوں کو شرح کے بڑھنے کے متعلق اچھی طرح علم تھا۔ اس کے علاوہ جو ضروری بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ سروے میں حصہ لینے والوں کے یہ عقائد اُن کے ان خیالات سے براہ راست جڑے ہوئے تھے جو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے بہترین طریقوں کے متعلق تھے۔ جتنے برے ان کے تخمینے ہوں گے، اتنے ہی کم امکانات ہوں گے کہ وہ سماجی دوری کی ضرورت کو سمجھ سکیں۔ ایکپونینشیئل گروتھ بائس نے انھیں سرکاری ہدایات کے متعلق مطمئن کر دیا تھا۔

اسی طرح کی تحقیق بنگلور میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کی رتوک بینرجی اور پریاما ماجمدا اور آئیوا سٹیٹ یونیورسٹی کے جودیپ بھٹہ چاریہ نے بھی کی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایکسپونینشیئل گروتھ بائس کے اثر کی وجہ سے عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات پر کم عمل کیے جانے کے متعلق پیشنگوئی کی جا سکتی ہے، جن میں ماسک پہننا، سینیٹائزرز کا استعمال اور خود ساختہ تنہائی شامل ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ لچکدار ہے۔ جب لیمرز اور ان کے رفقاء نے تحقیق میں شرکت کرنے والوں کو ایکسپونینشیئل گروتھ بائس کے متعلق یاد دلایا اور کہا کہ وہ ترقی کا دو ہفتوں کے عرصے میں باقاعدہ قدم بہ قدم حساب لگائیں تو لوگوں کے بیماری کے پھیلاؤ کے تخمینوں میں بہت زیادہ بہتری آ گئی اور اس کی وجہ سے سماجی دوری کے متعلق ان کی سوچ میں تبدیلی آئی۔

لیمرز سجھتے ہیں کہ وبا کی کوریج میں وائرس کی توضیحی نوعیت کو مزید نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ’میرے خیال میں یہ تحقیق بتاتی ہے کہ اس طرح کے حالات میں میڈیا اور حکومت کو وبا کو کس طرح رپورٹ کرنا چاہیئے۔ نہ صرف آج کے نمبر اور گذشتہ ہفتے کی ترقی رپورٹ کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ اگر اسی طرح اس کے پھیلاؤ میں تیزی رہی تو اگلے کچھ دنوں، مہینوں میں کیا ہو گا۔‘

انھیں یقین ہے کہ تعصب کو ٹھیک کرنے کی چھوٹی کوشش بھی بڑے فوائد لا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ، جہاں وبا نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، وائرس نے چند مہینوں میں پچاس لاکھ لوگوں کو انفیکٹ کیا ہے۔ ’اگر ہم ایکپونینشیئل گروتھ بائس پر قابو پا لیتے اور مارچ میں ہی سبھی امریکیوں کو اس کے خطرات کے بارے میں قائل کر لیتے تو مجھے یقین ہے 99 فیصد لوگوں نے سماجی دوری کے تمام ممکنہ اقدامات پر عمل کیا ہوتا۔‘

(ڈیوڈ رابسن کتاب ’دی انٹیلیجنس ٹریپ: وائے سمارٹ پیپل ڈو ڈمب تھنگز کے مصنف ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp