قاری اللہ وسایا کی ”دلیم“۔


صبح صبح دروازے پر مسلسل گھنٹی بج رہی تھی، بجانے والے کا غالب گمان تھا کہ شاید میری چارپائی گیٹ کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور میں گیٹ کا کنڈا تھامے سو جاتا ہوں۔ پہنچتے پہنچے گھنٹی کا گلا تقریباً جواب دے چکا تھا اور کسی قریب المرگ چڑیا کی طرح اپنی آخری سانسیں، لے رہی تھی اور محض چ ی، چ، ی، چ، ی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جلدی سے گیٹ کھولا تو سامنے قاری اللہ وسایا صاحب کھڑے تھے۔ قاری اللہ وسایا پانچ چھ گھر چھوڑ کر ہمارے پڑوس میں رہتے ہیں نیک آدمی ہیں۔

عربی زبان کی کافی شد بد رکھتے ہیں۔ ہر جمعرات کو دروازے پر گھنٹی بجاتے ہیں اور تبلیغی مرکز پر ساتھ چلنے کو کہتے ہیں۔ لیکن میری پہلے سے کوئی نہ کوئی مصروفیت ہوتی ہے۔ اس لیے معذرت کر لیتا ہوں، پھر کہتے ہیں چلو نیت ہی کر لیں کبھی نہ کبھی تو ضرور حاضری ہوگی اب تک وہ کئی نیتیں کروا چکے ہیں لیکن کار جہاں دراز ہے۔

آج وہ اسی محبت میں پلیٹ میں کچھ لیے کھڑے تھے۔ میں نے باہر نکل کر سلام کیا تو وعلیکم السلام کے بعد ایک با پردہ پلیٹ میرے حوالے کر دی۔ میں نے استفسار کیا، حضور یہ کیا ہے؟
خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے :
جناب یہ ”دلیم“ ہے۔
”دلیم“ ہے! یہ کیا ہوتا ہے؟
میں نے تعجب سے پوچھا!

کہنے لگے ”حضور آج عاشورہ ہے اس لیے گھر والوں نے نیاز امام حسینؓ کے طور پر بنایا ہے“ میں سید الشہدا کا اسم مبارک سنتے ہی احترام سے کھڑا ہو گیا۔ با پردہ پلیٹ تھامی اور اندر آ گیا۔ پلیٹ بیگم کے حوالے کی اور کہا کہ خالی کر دیں باہر قاری صاحب انتظار میں ہیں لیکن ”دلیم“ کے لیے متجسس رہا کہ یہ کیا ہوتا ہے کچن میں گیا تو پلیٹ کی نقاب کشائی ہو چکی تھی ”دلیم“ پر نظر پڑھی تو ایک جھٹکا سا لگا، ارے یہ تو ”حلیم“ ہے جسے ہم کشمیری میں ہریسہ کہتے ہیں۔

میں نے واپس آ کر قاری اللہ وسایا صاحب سے کہا، حضور یہ تو ”حلیم“ ہے اسے ہم شوق سے کھاتے بھی ہیں اور پکاتے بھی ہیں۔
بولے ”ڈاکٹر صاحب! آپ پڑھے لکھے ہیں آپ تو اسے“ حلیم ”نہ کہیں۔

میں نے کہا حضور اس لفظ میں کیا قباحت ہے؟ اس کے معانی تو ”نرم“ کے ملائم کے زود ہضم کے سختی نہ کرنے والے کے ہیں۔ چونکہ یہ نرم اور زود ہضم ہے اس لیے اسے ”حلیم“ کہتے ہیں۔ عرب اور وسط ایشیا کے حملہ آوروں اور تجار نے حلیم کو برصغیر میں متعارف کروایا تھا۔ عربی معاشرے میں اس کو ”ہریسہ“ اور کچھ لوگ ”ہریس“ کہتے ہیں۔ انطولیہ ایران میں اس کو ”ڈشک“ شمالی عراق میں اس کو ”کس کس“ کہا جاتا ہے۔

برصغیر میں حلیم کو ثقافتی اور مذہبی پکوان کی حیثیت حاصل ہے۔ جو محرم الحرام میں خوب کھایا جاتا ہے۔ مغلوں کے زمانے میں یمنی عرب، ایرانی اور افغانی باشندوں نے اسے حیدرآباد دکن میں متعارف کروایا تھا۔ لیکن لفظ ”دلیم“ پہلی بار آپ کے منہ سے سن رہا ہوں۔ سچ پوچھیں تو مجھے تو اس لفظ سے کراہت سی آتی ہے۔ چونکہ لفظ ”حلیم“ کے پیچھے پوری ایک تہذیب کار فرما ہے اس لیے اس کو متروک کرنا آسان نہیں ہے۔

قاری صاحب بولے ”آپ واقعی بادشاہ آدمی ہیں“ میں نے سوچا آپ کو پتہ ہوگا لیکن آپ نے تو کبھی غور ہی نہیں کیا۔ میں نے کہا آپ سمجھائیے۔
بولے ”حلیم“ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور ہم نے ایک کھانے کی چیز کا نام رکھ لیا ہے۔

میں نے کہا:وہ تو ”الحلیم“ ہے۔

کہنے لگے ایک ہی بات ہے، جب ہم کھانے کی چیزوں کا نام رکھ لیں گے تو کفر کی حدوں میں داخل ہو جائیں گے۔ اس میں ”دلیہ“ ڈلتا ہے اس لیے ہم اسے حلیم کی جگہ دلیم کہہ رہے ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ جو لفظ یا نام قبول عام حاصل کر لیں وہ تبدیلی قبول نہیں کرتے۔ روشن اختر محمد شاہ رنگیلے کی حس لطافت بہت تیز تھی۔ اس نے اعلان کروا دیا تھا کہ آج کے بعد سنگترے کو سنگترہ نہ کہا جائے بلکہ رنگترہ کہا جائے چونکہ اس میں سنگ کا عنصر بالکل نہیں ہے اس کا خوبصورت رنگ ہے لہذا اسی مناسبت سے اسے رنگترہ کہا جائے، لیکن لاکھ اعلانات اور بھاری جرمانوں کے باوجود وہ یہ لفظ عوام پر مسلط نہیں کر سکا۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ سنگترے سے سنترہ ضرور ہو گیا۔

اب قاری صاحب کا چہرہ سنترے کی طرح ہی لال سرخ ہو چکا تھا۔ وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چلتے چلتے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب ہم نے اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ لہذا ہم اسے ”دلیم“ ہی کہیں گے۔ میں نے کہا آپ کی تجویز سر آنکھوں پر۔

لیکن حضور اللہ تعالیٰ کا ایک نام ”الکریم“ بھی ہے آپ کو عربی کی کافی سدھ بدھ ہے۔ اس کریم کا بھی کوئی متبادل تلاش کریں ہم جو الٹی سیدھی کریمیں لگاتے پھرتے ہیں کل اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے۔ اس کا کوئی متبادل مل جائے تو مجھے بھی ضرور بتائیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).