نواز شریف اور عمران خان کی پراگریس ٹرینڈ لائنز


اسی کی دہائی میں انجینئرنگ کی تعلیم جس ادارے سے حاصل کی، وہاں اس زمانے میں بھی سمیسٹر سسٹم رائج تھا۔ سمیسٹر کے اختتام پر خراب رزلٹ کی صورت میں سٹوڈنٹ کے مستقبل کا فیصلہ ہوا کرتا۔ اس کے لئے ایک پالیسی وضع تھی، مگر اس پالیسی پر من و عن عمل کی بجائے سٹوڈنٹ کو کمانڈانٹ کی سربراہی میں قائم ایک فیکلٹی کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا، جہاں وہ اپنی خراب پرفارمنس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتا۔ گاہے بگاہے کسی سٹوڈنٹ کی قسمت یاوری کرتی اور پالیسی کے برعکس بھی اسے کچھ ریلیف مل جاتا۔

اس ضمن میں ایک متھ مشہور تھا، کہ فیکلٹی کمیٹی آپ کی سمیسٹر کے دوران پراگریس دیکھتی ہے، اگر شروع میں اچھی کارکردگی ہو مگر اختتام کے نزدیک پرفارمنس خراب ہو جائے تو اسے لاپرواہی کی نشانی سمجھتے ہوئے سخت فیصلہ ہوتا ہے، جبکہ اگر شروع میں پرفارمنس خراب ہو اور بتدریج بہتری ہو رہی ہو لیکن فائنل میں کچھ اونچ نیچ رہ جائے تو ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کچھ رعائت مل جاتی ہے۔ اس ساری تھیوری کو پراگریس ٹرینڈ لائن سے تعبیر کیا جاتا تھا، کہ اگر ٹرینڈ مثبت ہے تو بہتر، اور اگر ٹرینڈ منفی ہے تو معاملہ گڑبڑ ہے۔

اس متھ میں سچائی تھی یا نہیں، مجھے آج تک علم نہیں مگر مجھ جیسے نالائق طالب علم سمیسٹر کی شروعات میں آنے والے انڈوں پر دل کو اسی تھیوری کی بنا پر تسلی دے لیا کرتے تھے۔

ملک کے سیاسی افق پر بھی پچھلے چند سالوں سے ہمیں دو ٹرینڈ نظر آتے ہیں۔ اسی کی دہائی میں ملکی سیاست کے افق پر میاں نواز شریف ضیائی مارشل لاء کی کوکھ سے جنم لینے والے طفلی سیاسی رہنما کی شناخت لئے ہوئے نمودار ہوئے۔ 1988 میں جونیجو حکومت کے خاتمے پر ان کا ضیا الحق کے چرنوں میں بیٹھ جانا، اس تاثر کو مزید گہرا کر گیا۔ نوے کی دہائی کی کھینچا تانی والی سیاست میں گاہے بگاہے اسٹیبلشمنٹ سے ہونے والی کھٹ پٹ کتنی اصولی تھی اور کتنی معاملہ فہمی کے فقدان کا نتیجہ تھی، اس کا تخمینہ ہر ایک اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی عینک سے ہی لگاتا ہے۔

لیکن رجعت پسندوں کو کاکڑ کے پستول کی نوک پر استعفیٰ لکھنے سے لے کر مشرف کی بغاوت کے وقت ”اوور مائی ڈیڈ باڈی“ تک کے سفر میں کہیں نہ کہیں ایک موہوم سی مثبت پیشرفت کی اٹھان نظر آتی ہے۔ 2007 میں وطن واپسی پر شروع ہونے والے سفر میں بے نظیر کی شہادت، وکلا لانگ مارچ، راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے فیصلوں تک کی مثبت اٹھان بھی سیاسی چال بازی اور حقیقی تالیف قلبی کی بحث کا شکار رہی۔ البتہ بیٹے کی کمپنی سے نا وصول کردہ تنخواہ انکم ٹیکس گوشواروں میں اثاثے کی شکل میں ظاہر نہ کرنے کے گناہ کبیرہ کی سزا کے بعد سے میاں صاحب کا موقف مسلسل میاں صاحب کے مداحوں اور ناقدین دونوں کو حیران کر رہا ہے۔ اس موقف کے نتیجے میں ان کی اصولی سیاست اور مصلحت کوشی سے انکار نے ان کو ایک واضح مثبت ٹرینڈ لائن پر کھڑا کر دیا ہے۔ وہ اس سمیسٹر کے اختتام پر پاس ہوتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ ان کا اس مثبت ٹرینڈ لائن پر استقامت کے ساتھ آخری وقت تک کھڑے ہونے پر منحصر ہے۔

دوسری جانب، ایک سیاسی سفر محترم عمران خان صاحب نے ایک انتہائی بلند اخلاقی پلیٹ فارم پر براجمان ہوتے ہوئے شروع کیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی تک سیاسی منظر نامے پر کسی قابل ذکر مادی کامیابی کی عدم موجودگی کے باوصف ان کی نیک نامی، نیک نیتی اور اخلاص پر کبھی سوال نہیں اٹھا۔ پھر آہستہ آہستہ آئیڈیلزم سے پریگماٹزم کی جانب سفر شروع ہوا۔ لوٹے الیکٹیبلز میں تبدیل ہو گئے، سیاسی جوڑ توڑ انتخابی حکمت عملی قرار پائی، طاقت کا منبع عوام کی بجائے ایمپائر کی انگلی ہونے کا ادراک ہوا اور بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔

مخالفین کی ہرزہ سرائیوں سے قطع نظر ان کے پرستار اور معترفین ہر قدم پر یہی سمجھتے رہے کہ یہ مجبوری میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے، اور ارفع تر آخری منزل کے حصول کے لئے ایک کڑوا گھونٹ۔ End justifies means ایک متنازعہ سہی لیکن نظریہ تو ہے۔ لیکن سمجھوتوں، جوڑ توڑ، غیر فطری اتحادوں اور اخلاقیات سے صرف نظر کی ایک نہ ختم ہونے والی ڈھلان کے اختتام پر حاصل ہونے والی منزل اقتدار پر دو سال براجمان رہنے کے بعد آج اندھے مقلدوں کے سوا، ان کے مخلص سپورٹرز اور قدر دان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس اقتدار میں اختیار کی کوئی رمق بھی ہے یا نہیں؟ اس منفی ٹرینڈ لائن کے سفر میں اصول، اخلاق، اخلاص کی تھریش ہولڈ کب عبور ہو گئی، خال ہی کسی کو آگہی ہوئی۔ اس مسلسل انحطاط پذیر ٹرینڈ لائن کے اختتام پر وہ تینتیس فیصد پاسنگ مارکس کی سطح سے اوپر رہتے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لئے بظاہر 2023 کا انتظار کرنا پڑے گا۔

میاں صاحب کی موجودہ خاموشی کو ان کے ناقدین کمپرومائز پر محمول کرتے ہیں، شاید نجی اور ذاتی سہولت کے حصول کی حد تک یہ الزام درست بھی ہے۔ یہ خاموشی یقیناً ان کے پاپولر امیج پر منفی اثر مرتب کرے گی، اور بحیثیت ایک عملی سیاستدان، یقیناً وہ اور ان کی ٹیم اس سود و زیاں کی بیلنس شیٹ کو مسلسل اپ ڈیٹ کر رہی ہوگی۔ لیکن میرے نزدیک زیادہ فکرمندی کی بات تب ہوگی اگر وہ مقتدرہ کے اشاروں پر اس حکومت کے خلاف کسی وسط مدتی انتظام کا حصہ یا آلہ کار بنتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ہمہ وقت تیار رہنے والے غاصبین کی ہلکی ہلکی ڈھولکی شروع ہو چکی ہے، جس کی سب سے بڑی اور واضح نشانی صدارتی نظام کی گھسی پٹی راگنی کا دوبارہ الاپ ہے۔ ایسے میں خواجہ سعد رفیق کا بیان کہ ”چوائسز ہمیشہ ہوتی ہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہم دستیاب نہیں ہیں“ ، سویلین بالا دستی کے خواب کی تعبیر کی منتظر آنکھوں کے کانوں کے لئے بڑی شیریں موسیقی کی حیثیت رکھتا ہے۔

2023 میں برپا ہونے والے روز حساب میں جب ”پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے“ کی صدا بلند ہوگی تو ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے سیدھے یا الٹے ہاتھ میں آ جائے گا۔ ایسے میں اگر پاسنگ مارکس میں کوئی کمی بیشی ہوئی تو فیصلہ اسی ٹرینڈ لائن کی مثبت اٹھان یا منفی ڈھلان کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ دونوں طالب علموں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).