ہندوستانی مسلمان بھی کافر ہی نکلے


ممتاز عالم دین و دنیا جناب اوریا مقبول جان صاحب نے اپنے 25 نومبر 2016 کے کالم میں لکھا ہے کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں ’نے زمین سے محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہجرت پر مقدم رکھا اور آج بھارت میں گھل مل کر بھی رہتے ہیں لیکن ذلیل و رسوا ہیں اور غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے ہیں‘۔ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ سے حضرت اوریا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان بھارتی مسلمانوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم اپنی ناسمجھی میں بھارت میں رہ جانے والوں کو مسلمان ہی جانتے تھے مگر شکر ہے کہ حضرت اوریا مقبول جان کی اس مدلل تحریر سے ہماری غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔

ہم طبعاً بھولے بھالے ہیں اور جو شخص بھی باتوں کے طوطا مینا بنائے وہ ہمیں پرچا لیتا ہے۔ اسی سبب سے ہم آج تک یہ سمجھتے رہے کہ تقسیم ہند کے وقت بھارت میں رہ جانے والے کلمہ گو مسلمان ہی تھے کیونکہ دارالعلوم دیوبند اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے خانوادے کے اکابر علما وہیں ہندوستان میں رہ گئے تھے اور ہمیں گمان تھا کہ وہ قرآن و حدیث کو عام مسلمانوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر ہم اب غور کرتے ہیں تو حضرت اوریا کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔

پروفیسر ہود بھائی سے ایک ٹی وی مذاکرے میں حضرت اوریا نے علم کے متعلق ایک اصول بیان فرمایا تھا کہ سائنسی علوم کی دنیا میں اعلی ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک، ایم آئی ٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کرنا علم کی نشانی نہیں ہے بلکہ علم کا اصل ثبوت تو سی ایس ایس کرنا ہوتا ہے۔ اسی اصول کو صرف دنیاوی علوم تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اسے ایک عمومی اصول سمجھا جائے تو درست ہو گا۔ یعنی دینی علوم کے سب سے بڑے ماہرین بھی سی ایس ایس کرنے والے علما ہی قرار پائیں تو درست ہے۔ اس لئے ہم اکابرین دیوبند و بریلی کی دینی رائے پر، حضرت اوریا کی رائے کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں کیونکہ اکابرین دیوبند و بریلی نے سی ایس ایس نہیں کیا تھا اور اس معیار کے تحت ان کا دینی علم بھی پروفیسر ہود بھائی کے دنیاوی علم کی مانند ناقص ہے۔

حضرت اوریا نے مزید فرمایا ہے کہ ’جب پاکستان اللہ کے نام پر تخلیق ہوا تو مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ تھی اور بھارت میں رہنے کا فیصلہ کرنے والے ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم تھے۔ آج یہ پاکستان بیس کروڑ انسانوں کو عزت کے ساتھ آباد کیے ہوئے ہے۔ اگر بھارت میں رہ جانے والے مسلمان اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے یہاں ہجرت کرجاتے تو یہاں کی آبادی صرف چار کروڑ ہی ہوتی۔ لیکن انھوں نے زمین سے محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہجرت پر مقدم رکھا اور آج بھارت میں گھل مل کر بھی رہتے لیکن ذلیل و رسوا ہیں اور غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کشمیری پہلے دن سے اسی بنیاد پر بھارت سے علیحدگی چاہتے اور جدوجہد کرتے رہے جس بنیاد پر پاکستان نے ہندوستان سے علیحدہ وطن حاصل کیا تھا‘۔

سنہ 1941 کی مردم شماری کے مطابق متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی، کل آبادی کا پچیس فیصد یعنی نو کروڑ کے قریب تھی اور سنہ 1951 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں بلکہ بھارت کی کل آبادی کا دس فیصد یعنی ساڑھے تین کروڑ سے زائد تھی۔ سنہ 1951 کی پاکستانی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی جس میں سے مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ سینتیس لاکھ اور مشرقی پاکستان کی آبادی چار کروڑ بیس لاکھ تھی۔ ان ساڑھے سات کروڑ میں سے تیرہ فیصد، یعنی تقریباً ایک کروڑ ہندو تھے۔

ہمیں یقین ہے کہ مردم شماری کے یہ سارے اعداد و شمار جھوٹ ہیں اور تقسیم ہند کے بعد بھارت میں کل ڈیڑھ کروڑ مسلمان ہی تھے، تین کروڑ نہیں اور اگر 1947 میں یہ تین کروڑ مسلمان بھی مغربی پاکستان آ جاتے تو مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے چھے کروڑ نہیں بلکہ چار کروڑ ہی ہوتی۔ ہمارے یقین کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی مردم شماری یہود و ہنود کی سازش تھی، اور حضرت اوریا کے دیے گئے اعداد و شمار درست ہیں کیونکہ انہوں نے سی ایس ایس کیا ہوا ہے۔

مولانا توقیر رضا خان اور دارالعلوم دیوبند کے ریکٹر مفتی ابو القاسم نعمانی

نمبروں اور عقیدے کی بحث میں ہمیں حضرت اوریا مقبول جان کا موقف تسلیم کرنے میں ذرہ برابر تامل نہ کرتے ہوئے یہ مان لینا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمان کفار میں سے ہیں۔ یاد رکھیں، کہ حضرت اوریا مقبول جان کا علم حتمی ہے کیونکہ انہوں نے سی ایس ایس کیا ہوا ہے، مولانا حسین احمد مدنی یا مولانا احمد رضا خان نے سی ایس ایس (یا اس زمانے کا آئی سی ایس) نہیں کیا تھا، اس لئے علم دین کے معاملے میں ان کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ہندوستانی مسلمان کفار میں سے ہیں کیونکہ حضرت اوریا مقبول جان نے سی ایس ایس کیا ہوا ہے۔

نوٹ: یہ علمائے دیوبند و بریلی و تبلیغی جماعت کے دفاع میں لکھی گئی ایک طنزیہ تحریر ہے جو کہ اوریا صاحب کو یہ یاد دلاتی ہے کہ کیسا کیسا عالمِ بے بدل تقسیم ہندوستان کے وقت وہیں رہ گیا تھا اور بلا شک و شبہ ان علما کی فہمِ دین اوریا صاحب یا ہم سے زیادہ تھی۔ ان محترم ہستیوں پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے زمین کی محبت کو سنت رسولؐ پر ترجیح دی، انتہائی نامناسب ہے۔

Nov 26, 2016


اسی بارے میں
یہ علاقائی جنگ نہیں معرکہ حق و باطل ہے از اوریا مقبول جان
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
19 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments