مردانہ بانجھ پن: کیا، کیسے اور کیوں؟


ایک مرد اور دو عورتیں!

ہمیشہ کی طرح وہی مثلث، اور ہمارا کلینک! شوہر بیوی اور ساس!

صاحب، ہمارا مسئلہ کچھ اور ہے- ہمیں عورت کی شکم سیری اور سر پہ چھت کے عوض وہ تازیانے نہیں قبول جو مالک اپنا حق سمجھتے ہوئے اپنی ملکیت پہ برساتا ہے۔ کاش میں وہ منظر ان تمام لکھاریوں کو دکھا سکوں جنہیں عزت سے سر اٹھا کے زندگی گزارنے کی خواہش اور ” ظالم مرد کی برابری” میں فرق معلوم نہیں۔

اس جوڑے کی شادی کو پانچ برس ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک آنگن بچوں سے خالی تھا۔ بیگم کے چہرے پہ اداسی بھری مسکان تھی۔ شوہر کچھ اکتائے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور والدہ ہمیں بار بار کہے جاتی تھیں کہ وہ بہت امید لے کر آئی ہیں۔

ہم نے تفصیلاً بات سنی، سوال پوچھے اور پھر ہدایت نامہ نشر کرنا شروع کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ بانجھ پن کا علاج اصل میں مریض کے صبر، ضبط اور طبیب کی کوششوں کا امتحان ہوا کرتا ہے۔ اس علاج میں ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی امید رکھنا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔

دوسری بات یہ کہ جس طرح پرانے زمانوں میں لڑکے والے رشتہ لینے کی خاطر جوتیاں گھس ڈالتے تھے یا لڑکی والوں کی چوکھٹ پہ بسیرا کر لیتے تھے، اسی طرح خواہش مند جوڑے کو ایک طبیب کا پیچھا کرنا چاہیے۔ بار بار ڈاکٹر تبدیل کرنے سے علاج کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے اور اگلے ڈاکٹر کے پاس پھر سب کچھ صفر سے شروع، وقت اور رقم کا ضیاع ہے۔

“ہم آپ دونوں کے بنیادی ٹیسٹ کریں گے اور پھر علاج شروع ہو گا” ہم نے سمجھایا،

” نہیں ڈاکٹر صاحب ، میرا بیٹا بالکل ٹھیک ہے، آپ شاہدہ کو چیک کریں۔ اس کے اندر بے انتہا کمزوری پائی جاتی ہے” اماں کلس کر بولیں،

ہم ذہنی طور پہ اس حملے کے لئے تیار تھے، سو رسان سے بولے،

” یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی کہ آپ کے بیٹے میں میں کوئی خرابی نہیں “

” میرا بیٹا ہے، میں جانتی ہوں ” وہ چمک کے بولیں،

” یہ شاہدہ بھی کسی کی بیٹی ہے اگر اس کی اماں ساتھ ہوتیں تو وہ بھی یہی کہتیں” ہم نے حملے کا بھرپور دفاع کیا۔

“علاج کی پہلی کڑی شوہر کے مادہ تولید کا معائنہ ہے اگر بیج ہی نہ ہوں تو بیوی کے معائنے کا فائدہ ؟” ہم نے دوبارہ سمجھایا۔

طوہاََ وکرہاََ وہ ماں بیٹا راضی ہوئے اور ہم نے شاہدہ کی آنکھ میں ایک پل کے لئےتشکر کی چمک دیکھی۔

اگلے ہفتے وہ تینوں مع رپورٹ کے موجود تھے اور مادہ منویہ کا نتیجہ ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ مادہ تو تھا لیکن تولید کی صلاحیت سے کلی طور پہ عاری۔ اب سمجھانے کا کوہ طور حائل تھا جس کو وہ صاحب اور ان کی والدہ سرکرنا نہیں چاہتے تھے اور شاہدہ ملتجی نظروں سے ہمیں تکے جاتی تھیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے مادہ منویہ کے نارمل ہونے کی خصوصیات اس طرح سے ترتیب دی ہیں۔

سپرم( حیوان منویہ) کی تعداد – 15 سے 20 ملین/ ملی میٹر

سپرم کی حرکت- 40 پرسنٹ

سپرم کی نارمل شکل – 4 پرسنٹ

جب بھی سپرمز ان خصوصیات سے عاری ہوں تو تشخیص مردانہ بانجھ پن ٹھہرتی ہے۔ سپرمز کی تعداد کم ہونے کو Oligospermia کہا جاتا ہے اور اگر سپرمز سرے سے ہی غائب ہوں تو اس صورت حال کو Azospermia کہا جاتا ہے۔

ہمارے کلینک میں بیٹھے ہوئے صاحب Azospermia کا شکار تھے۔ ہم نے تفصیلاً سمجھایا کہ اب علاج کی انہیں ضرورت ہے ان کی بیگم کو نہیں۔ ہم انہیں مردانہ امراض کے سپیشلسٹ کے پاس بھیجنا چاہتے تھے۔ یہ سن کر والدہ اور ان پہ مانو قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ دونوں مصر رہے کہ بیگم کے بھی تفصیلی ٹیسٹ کیے جائیں کہ شاید کوئی خرابی ادھر بھی نکل آئے۔ مردانہ بانجھ پن نے ان کی مردانگی پہ کاری ضرب لگائی تھی جس کا علاج یوں ہی ممکن تھا کہ دوسری طرف بھی کچھ نہ کچھ غلط نکلتا۔ ہمارے یہ کہنے پہ کہ بیگم کی باری ان کے ٹھیک ہونے کے بعد آئے گی، وہ خشمگیں نظروں سے گھورتے، بکتے جھکتے باہر نکل گئے۔

مردانہ بانجھ پن کی باز گشت ہمارے معاشرے میں بہت کم سنائی دیتی ہے۔ زیادہ تر حمل نہ ٹھہرنے کا ذمہ دار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مردانہ بانجھ پن کی شرح ٹوٹل کیسسز میں پچاس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

صاحب، ذکر چل نکلا ہے تو لگے ہاتھوں Azospermia یعنی سپرمز کی غیر موجودگی کے اسباب بھی سن لیجیے۔ Azospermia  دو طرح کا ہوتا ہے رکاوٹ بھرا اور رکاوٹ کے بنا۔

رکاوٹی Azospermia میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سپرمز بنتے تو ہیں لیکن کسی پیچیدگی کی وجہ سے مادہ تولید تک نہیں پہنچ پاتے۔ جب بھی خصیوں اور ان کی ملحقہ نالیوں میں کوئی انفیکشن ہو، ضرب پہنچے، کوئی پرانا آپریشن ہوا ہو یا نالیوں کی رطوبات گاڑھی ہو جائیں، سپرمز باہر نہیں نکل سکتے۔ نتیجتاً مادہ تو نکلے گا لیکن بیج سے خالی!

رکاوٹ کے بغیر Azospermia کے اسباب کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جس میں پیدائشی طور پہ خصیوں کی غیر موجودگی، پیدائش کے وقت خصیوں کا پیٹ میں رہ جانا، خصیوں کی رسولی، ریڈی ایشین، ہارمونز کی کمی بیشی، کن پیڑوں کی انفیکشن، خصیوں کا زندہ یا نارمل سپرمز نہ بنا سکنا، خصیوں سے خون لے جانے والی نالیوں کا ایب نارمل پھیلاؤ، ذیابیطس اور گردے کی بیماریاں شامل ہیں۔ یہاں بیج بنانے کی صلاحیت کی کمزوری کا چیلنج درپیش ہے۔

مردانہ بانجھ پن کا علاج تب ہی ممکن ہے جب اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ مرد میں بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے یہ صرف عورت کا نصیب نہیں۔ اگر آپ کو علاج کی تفصیلات جاننے سے دلچسپی ہو تو دیکھ لیجیے گا ہمارا اگلا کالم!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).