پاک فوج، ففتھ جنریشن وار اور احمد نورانی


صحافی احمد نورانی نے سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے اثاثوں کے بارے میں گزشتہ ہفتے جو رپورٹ فائل کی تھی، سرکاری طور پر اس کی وضاحت تو سامنے نہیں آئی لیکن سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلز کے ذریعے اسے ففتھ جنریشن وار کا حصہ قرار دے کر پاک فوج کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی سازش ضرور کہا جارہا ہے۔ حیرت ہے کہ کسی سیاست دان کے بارے میں ایسی ہی معلومات سامنے آنے پر کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ اس سے ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے یا دشمن نے پاکستانی نظام کو تلپٹ کرنے کے لئے سازش تیار کی تھی۔
اس مباحثہ میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کسی بھی صحافی کی خبر درست یاغلط تو ہوسکتی ہے۔ لیکن کسی خبر میں فراہم کی گئی معلومات کی بنیاد پر فوج کے خلاف سازش تلاش کرنے کا رویہ ملک میں پیدا کئے گئے ایک خاص مزاج کا پتہ دیتا ہے۔ ملک کا سابق صدر ہو یا وزیر اعظم، کوئی سیاسی لیڈر ہو یا بیوروکریٹ ، ماضی میں جب بھی ان کے بارے میں اثاثے بنانے کی کوئی اطلاع سامنے آئی ہے تو فوری طور سے میڈیا اور حکمران سیاست دانوں نے اسے قومی خزانہ لوٹنے کا قصہ بنا کر نشر کر نا شروع کیا۔ پاناما لیکس کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف شروع کئے گئے مباحث سے اس معاملہ کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
جب بھی کوئی شخص کسی سیاست دان پر لگنے والے الزامات کو درست پس منظر میں دیکھنے یا الزام اور جرم میں فرق کرتے ہوئے نافذالعمل عدالتی فیصلوں سے پہلے رائے زنی سے گریز کی بات کرتا ہے تو اسے ’بکاؤ‘ قرار دے کر اس اہم نکتہ کو نظر انداز کرنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ عاصم باجوہ کیس میں تو کوئی الزام بھی نہیں لگایا گیا اور نہ ہی کسی طور سے یہ کہا جارہا ہے کہ ان کے خاندان نے یہ اثاثے غیر قانونی سرمایے یا بدعنوانی سے حاصل کی گئی دولت سے بنائے ہیں۔ بلکہ صرف اتنا استفسار کیا جارہا ہے کہ ایک سابق فوجی جنرل اور سی پیک اتھارٹی کی سربراہی کے علاوہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے اعلیٰ عہدے پر فائز لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے بارے میں کچھ حیران کن معلومات سامنے آئی ہیں، ان پر وضاحت آنا ضروری ہے۔
اس کے جواب میں سازش، فوج و سی پیک پر حملہ اور دشمن ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا سراغ لگانے کی بے سر و پا کوششیں ناقابل فہم ہیں۔ اس صورت حال میں عاصم باجوہ کے بیرون ملک اثاثوں کی وضاحت طلب کرنے کے علاوہ یہ اضافی سوال بھی سامنے آتاہے کہ کیا سازش اور قومی وقار پر حملہ کی خبریں پھیلانے والے ، اپنی سادہ لوحی میں یہ حرکت کررہے ہیں یا پاکستان کی حکومت اور فوج بھی یہی سمجھتی ہے کہ جنرل عاصم باجوہ پر ’الزامات‘ عائد کرکے دشمن نے گھناؤنی سازش کی ہے جس سے ملک کے سب سے اہم ادارے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر یہ سرکاری مؤقف ہے تو حکومتی یافوجی ترجمانوں کے ذریعے وضاحت کرنے اور قومی میڈیا میں اس کی تشہیر کی بجائے خود ساختہ حب الوطنوں اور پراکسی ذرائع کی خدمات کیوں حاصل کی جارہی ہیں۔
اگر جنرل عاصم باجوہ کے بارے میں ’غلط اور گمراہ کن‘ خبر سامنے لانے کی کوئی سازش ہوئی ہے اور ایک ایسا پاکستانی صحافی اس میں ملوث ہے جو اس وقت صحافتی کورس کرنے کے لئے امریکہ میں مقیم ہے ۔ اور پاکستان میں اس سازش کو پکڑ لیا گیا ہے، اس طرح دشمن کی چال بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ تو اس پر خوش ہونے اور اس کامیابی کے بارے میں عوام کو حقائق بتانے کی بجائے، خاموشی اختیا رکرنے کا اہتمام کیوں کیا جارہا ہے ؟ جس سے یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوجائے جیسے ملک کے مفادات یا پاک فوج کے خلاف سازش پکڑنے کا کام بھی کوئی ’جرم‘ ہو۔ اس ’سازش ‘کے بارے میں سرکاری طور سے مؤقف سامنے آنا چاہئے اور واضح ہونا چاہئے کہ کس طرح دشمن ملک کی ایجنسی ’را‘ بیرون ملک جانے والے پاکستانی صحافیوں کو ورغلا کر اپنے جال میں پھنسا لیتی ہے اور ان کے ذریعے ایسی خبریں پلانٹ کر وائی جاتی ہیں جن سے ملک و قوم اور اس کے اہم اداروں کی شہرت پر داغ لگتا ہے۔
ایسا دو ٹوک اعلان ملک سے باہر جانے والے بلکہ ملک میں مقیم صحافیوں کو بھی چوکنا کرسکتا ہے تاکہ کوئی دشمن ایجنٹ ان کے ذریعے پاکستانی مفادات کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ لیکن مسئلہ تو پاکستان میں پیدا کی گئی صورت حال کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔ کسی رپورٹ یا خبر کے جواب میں یہ کہنا آسان ترین ہے کہ یہ بغض و عناد پر مبنی ہے یا یہ سب جھوٹ ہے۔ عاصم باجوہ کی اہلیہ ، بھائیوں اور بیٹوں کے اثاثوں اور کاروباری مفادات کے بارے میں احمد نورانی کی رپورٹ میں سرکاری اداروں سے حاصل کردہ دستاویزات کی نقول لف کی گئی ہیں۔ احمد نورانی نے متعدد انٹرویوز میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ، کینیڈا ، متحدہ عرب امارات کے علاوہ پاکستان میں باجوہ فیملی کی املاک اور کاروبار کے بارے میں کسی سرکاری افسر یا ’خفیہ ذریعہ‘ کا حوالہ دے کر رپورٹ فائل نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے سرکاری ریکارڈ میں موجود معلومات کو ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے ذریعے عام لوگوں کے مطالعہ کے لئے فراہم کیا ہے۔
یہ رپورٹ اگر بے بنیاد یا محض بغض و عناد تھی تو ایک طریقہ تو یہ تھا کہ جنرل عاصم باجوہ اور ان کے بھائی اور بیٹے اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرتے تاکہ ایک خاندان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی یہ کوشش خود ہی ناکام ہوجاتی۔ اور اگر حکومت پاکستان کے کسی ادارے یا سیاسی حکمران کو اس سے کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو وہ مزید تحقیقات کے ذریعے یہ جان سکتا تھا کہ ان معلومات میں کتنی سچائی ہے۔ اگر عاصم باجوہ نے اس خبر کو اتنا نقصان دہ سمجھا کہ ایک ٹوئٹ میں اس کی دو ٹوک تردید کرنا ضروری سمجھا تو انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ اس رپورٹ میں شامل کون سی معلومات کس بنیاد پرغلط ہیں۔ ایک بار خاموشی توڑ کر مکمل سکوت محض شبہات کو تقویت دیتا ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ باجوہ فیملی ، احمد نورانی اور ویب سائٹ کو اپنے بارے میں جھوٹ پھیلانے پر نوٹس بھیجتے اور اگر وہ اس رپورٹ کو واپس لینے یا معافی مانگنے سے انکار کریں تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے۔
ملک کے سیاست دانوں کو اکثر ایسی خبریں شائع ہونے پر قانونی کارروائی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ آپشن پاکستانی فوج کے سابق جنرل کے لئے بھی میسر ہے۔ احمد نورانی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس رپورٹ میں شامل کی گئی معلومات اور دستاویزات کے بارے میں جنرل عاصم باجوہ کا مؤقف جاننے کے لئے تین ہفتے تک ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ عاصم باجوہ کو اس پہلو پر بھی روشنی ڈالنی چاہئے۔ خاص طور سے جب پاکستان کے مخصوص محبان کی طرف سے اب اسے ففتھ جنریشن وار کا حصہ، را کی سازش اور سی آئی کا سی پیک کو ڈی ریل کرنے کا منصوبہ قرار دیا جارہا ہے تو یہ وضاحت پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوچکی ہے۔ مزید خاموش رہنے سے یہ گرد بیٹھ نہیں سکے گی بلکہ اگر یہ رپورٹ واقعی کسی دشمن ایجنسی نے پلانٹ کروائی ہے تو اس پر خاموش رہ کر اس سازش کو کامیاب بنایا جارہا ہے ۔ جبکہ اس کی تردید اور اسے دستاویزی طور سے مسترد کرکے اس سازش کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں انٹر نیٹ عام ہونے اور سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کنٹرول کے بغیر معلو مات کی تشہیر کے بارے میں مباحث بھی ہوتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے طریقے بھی وضع کئے جاتے ہیں۔ سائبر کرائم کو کنٹرول کرتے ہوئے البتہ سب مہذب اور جمہوری حکومتیں یہ یقینی بناتی ہیں کہ آزای رائے کا حق متاثر نہ ہو بلکہ ایسی قانون سازی صرف ان لوگوں کے خلاف استعمال ہو جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں سائبر کرائم سے متعلق امور کو ففتھ جنریشن وار کا پر اسرار نام دیا گیا ہے ۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس اصطلاح کا استعمال دیکھنے میں نہیں آتا۔ البتہ پاکستان میں اس لفظ کو چونکہ سب سے پہلے آئی ایس پی آر کی طرف سے استعمال کیا گیا تھا ، اس لئے اسے خطرناک اور اہم سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں یا رائے کے اظہار کو ہمہ وقت ففتھ جنریشن وار قرار دے کر کسی قومی مفاد کا تحفظ نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے آزادانہ رائے اور خیالات کے اظہار کو مشکل بنا کر ملک میں گھٹن اور سراسیمگی کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔
عاصم باجوہ کے بارے میں احمد نورانی کی رپورٹ کو بھی بعض حلقوں کی جانب سے دشمن کی سازش کے علاوہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں اس اصطلاح کے استعمال سے صرف ان مقاصد کو نقصان پہنچے گا جنہیں پورا کرنے کے لئے اس اصطلاح کا استعمال شروع کیا گیا تھا۔ اس لئے ایسی غیر واضح اور پراسرار اصطلاحات کے ذریعے ایک سادہ اور بعض دستاویز کی بنیاد پر استوار کسی رپورٹ کو مسترد کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح یہ مؤقف بھی بے بنیاد ہے کہ امریکی یا کینیڈین نظام میں کسی کی جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں معلومات حاصل کر نے پر لاکھوں ڈالر صرف ہوتے ہیں جو ایک پاکستانی صحافی اپنے طور پر فراہم نہیں کرسکتا۔ معلومات فراہم کرنے والے صحافی کو ’چور اور بدنیت‘ ثابت کرنے سے نہ تو عاصم باجوہ کا نام صاف ہوگا اور نہ اس تجسس کو ختم کیا جاسکے گا کہ ایک صحافی کی رپورٹ پر غیر سرکاری طور پر اتنا ہنگامہ ہے تو سرکاری طور پر پراسرار خاموشی کیوں ہے؟
یہ کہنا غلط ہے کہ فوج کے کسی افسر کی املاک کے بارے میں معلومات پاک فوج کو بطور ادارہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پاک فوج ایک مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر استوار ادارہ ہے۔ کسی ایک فرد کے بارے میں معلومات سے یہ ادارہ کمزور نہیں ہوسکتا۔ البتہ ایسی خبروں کے بارے میں اسرار پیدا کرکے ضرور فوج کی شہرت اور نیت کے بارے میں شبہات پیدا کئے جارہے ہیں۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایک سابق جنرل کے حوالے سے رپورٹ کو اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ پاکستان میں فوج صرف ایک عسکری ادارہ نہیں ہے بلکہ ملکی سیاست میں بڑی اسٹیک ہولڈر بن چکی ہے۔ اس کے کردار کے حوالے سے سوال بھی اٹھیں گے اور اگر کوئی افسر غیر معمولی طور سے امیر ثابت ہوگا تو پوچھا بھی جائے گا کہ اس کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali