جنرل عاصم باجوہ  کس کس کو لے ڈوبیں گے؟


وفاقی وزیر شبلی فراز نے ایک ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ وزارت اطلاعات میں ان کے ساتھی، وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور سی پیک اتھارٹی کے چئیر مین اپنے خاندانی اثاثوں کے بارے میں جلد ہی وضاحت سامنے لائیں گے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی یہ دعویٰ کرچکے تھے کہ احمد نورانی کی فراہم کردہ معلومات کی ’حقیقت‘ جلد ہی سامنے آجائے گی۔ بظاہرحکومت نے اس سلسلہ میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ شبلی فراز کا بیان ایک سنسنی خیز صورت حال کو ٹالنے کی ایسی ہی کوشش ہے جیسے جنگل میں بھڑکی آگ کو ایک چلو پانی سے بجھانے کی کوشش کی جائے۔

ملک بھر میں اس معاملہ پر اختیار کی گئی سنگین خاموشی کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خاندان کے اثاثوں کے بارے میں تفصیلات سامنے لانے اور صحافی احمد نورانی کی معلومات کے بارے میں پوزیشن واضح کرنے کے مطالبے سامنے آنے لگے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فرحت اللہ بابر نے اس معاملہ میں حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں قانون سب کے لئے مساوی طور سے کام کرتا ہے۔

اس دوران پاکستان بار کونسل، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے احمد نورانی کو ماردینے کی دھمکیوں کا سخت نوٹس لیا ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں ان تینوں تنظیموں نے احمد نورانی پر ملک دشمنی اور دشمن کا ایجنٹ ہونے کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اگر کسی کو احمد نورانی سے شکایت ہے تو اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔ ’بار کونسل، سول سوسائیٹی اور صحافیوں کی قیادت حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ احمد نورانی کو تحفظ فراہم کیا جائے‘۔ بیان میں حکومت کو یاددہانی کروائی گئی ہے کہ چند برس قبل بھی احمد نورانی پر حملہ ہؤا تھا لیکن اب تک اس واقعہ میں ملوث لوگ پکڑے نہیں جاسکے۔

ان تینوں تنظیموں کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حکومت کے دور میں آزادی اظہار کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ موجودہ پابندیاں مارشل لا ادوار میں عائد کی گئی پابندیوں سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ تنظیموں نے انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائیٹی پر زور دیا ہے کہ انہیں موجودہ صورت حال کی نگرانی کرنی چاہئے۔ اس وقت طاقت کے ظالمانہ ہتھکنڈوں حتی کہ اغوا جیسے جرائم سے اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک صحافی کو دی گئی دھمکیوں پر اہم قومی تنظیموں کے اس سخت رد عمل کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ عاصم باجوہ کے جانے نہ جانے سے سی پیک منصوبے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہ ایک قومی منصوبہ ہے جو کسی ایک فرد کا محتاج نہیں ہے۔ اس حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈا گمراہ کن ہے۔ اگر تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والا شخص، سپریم کورٹ کا ایک جج اور ان کے اہل خاندان احتساب سے بالا نہیں ہیں تو اس ملک میں کوئی بھی شخص قانون سے ماورا نہیں ہوسکتا۔ جنرل عاصم باجوہ کو اثاثوں کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کے علاج کے لئے بیرون ملک روانگی پر تو وزیر اعظم عمران خان کو لگا تھا کہ احتساب پر ان کا بیانیہ کمزور پڑ گیا ہے لیکن اب اپنے ہی ایک معاون خصوصی پر اٹھنے والے سوالوں سے گریز کرکے بلا تفریق احتساب کے کون سے اصول پر عمل کیا جارہا ہے؟

پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ اس معاملہ کی مکمل تحقیقات کرکے واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ’عاصم باجوہ کے خاندان نے کیسے بیرون ملک بڑے پیمانے پر کاروبار استوار کیا۔ اس بارے میں سامنے آنے والی رپورٹ میں لف کی گئی دستاویزات قابل اعتبار لگتی ہیں۔ عاصم باجوہ نے گزشتہ ماہ اپنے اثاثوں کے حلف نامہ میں ان کاروباری مفادات کا حوالہ بھی نہیں دیاتھا‘۔ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے نیب کے کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ افراد کو نہیں دیکھتی بلکہ کسی معاملہ کی نوعیت اور سنگینی کے مطابق فیصلے کرتی ہے لیکن عاصم باجوہ کے معاملہ میں نیب کی خاموشی حیران کن ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس صورت حال کو نظر انداز کرنا یا خاموشی اختیار کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ تمام حقائق شفاف، مؤثر اور قابل بھروسہ انداز میں سامنے لائے جائیں۔ گنے چنے لوگوں پر مرضی کے مطابق قانون نافذ کرنےسے معاشرے اور ریاست کا ڈھانچہ کمزور ہؤا ہے۔ یہ طریقہ اب ختم ہونا چاہئے۔

ان سطور میں اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ احمد نورانی کی رپورٹ کو رد کرنے یا بدنیتی پر مبنی قرار دینے سے اس معاملہ کو دبایا نہیں جاسکے گا بلکہ رپورٹ میں جو حقائق بیان کئے گئے ہیں، ان کی ٹھوس اور دستاویزی انداز میں تردید سے ہی، اداروں اور قومی سطح پر سرکاری امور انجام دینے والے اہم افراد کے بارے میں عوام کا اعتماد بحال ہوسکے گا۔ حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم عمران خان نے ابھی تک اس معاملہ کو سنجیدہ سمجھنے اور اس بارے میں کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہی حکومت، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے بیرون ملک سے نواز شریف اور اسحاق ڈار کو واپس لانا چاہتی ہے اور تمام تر قومی مسائل کے باوجود اس کی سیاست کا محور ’این آر او نہیں دیا جائے گا‘ رہا ہے۔

عاصم باجوہ کیس میں خاموشی سے مکمل اور شفاف احتساب کے بارے میں وزیر اعظم کے نعرے ڈھونگ اور سیاسی فریب لگنے لگے ہیں۔ جو لوگ پہلے بدعنوانی کے خلاف عمران خان کے بیانیہ کو سیاسی نعرہ نہیں سمجھتے تھے، اب انہیں بھی پتہ چل رہا ہے کہ شریف خاندان اور آصف زرداری پر الزام تراشی کرکے ملک سے کرپٹ سیاست کا خاتمہ مقصود نہیں تھا بلکہ اس بیانیہ پر اپنی لیڈری مستحکم کرنا اصل مقصد تھا۔ ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم کے لئے جس طرح سابقہ حکمران خاندانوں کو ’لٹیرے‘ ثابت کرنا سیاسی طور سے سود مند ثابت ہورہا تھا، اسی طرح اگر وہ فوج کے کسی ریٹائرڈ جنرل کے مشتبہ مالی معاملات پر زبان کھولتے ہیں تو ’ایک پیج والی سیاست‘ کو دھچکہ لگنے کا اندیشہ ہے۔

عمران خان کو دراصل یہ فیصلہ کرنا ہے کہ عاصم باجوہ اسکینڈل کے بعد خاموش رہ کر حکومتی مدت پوری کرنا مناسب ہوگا یا کرپشن کے بارے میں دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے اپنے معاون خصوصی کی سابقہ حیثیت سے قطع نظر انہیں فوری مستند جواب فراہم کرنے پر مجبور کرنا ضروری ہے۔ عاصم باجوہ جیسے طاقت ور شخص کو احتساب کے کٹہرے میں لاکر عمران خان اپنے بیانیہ کی صداقت کا ثبوت فراہم کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں فوج کی ناراضی کا خطرہ مول لینا ہوگا۔ وزیر اعظم کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ ان کے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں ہے۔ اس سے پہلے پرویز مشرف کیس میں آئین شکنی کے دو ٹوک فیصلہ کو موجودہ جمہوری حکومت نے مسترد کرکے دراصل عسکری قیادت کو مطمئن کرنے ہی کی کوشش کی تھی۔ دیکھنا ہے کہ یہ سلسلہ کتنا دراز ہوتا ہے۔

البتہ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ عاصم باجوہ کیس میں خاموشی اور ریاستی اداروں کی بے عملی سے صرف سیاسی حکومت ہی کے مفادات ہی داؤ پر لگے ہیں۔ اس کے دوسرے اسٹیک ہولڈر بھی ہیں۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں ہے کہ عمران خان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نواز شریف اور آصف زرداری کے متبادل کے طور پر سیاسی منظر نامہ پر طلوع ہونے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ عمران خان کے ہر نعرے اور اقدام کو دراصل ملکی اسٹبلشمنٹ کی آواز ہی سمجھنا چاہئے۔ البتہ ناپسندیدہ سیاسی لیڈروں کی کردار کشی کے لئے کرپشن کے خلاف بیانیہ کی تپش اب خود اپنے گھر تک پہنچنے لگی ہے۔ اس لئے اہم ہوگا کہ عاصم باجوہ کو ایک فرد سمجھا جائے اور ان کے کسی بھی فعل کو فوج پر حملہ سمجھتے ہوئے مسترد کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس طریقہ سے ملک میں جمہوریت کے متوازی ’ملا جلا‘ نظام استوار کرنے کا منصوبہ ٹوٹ پھوٹ جائے گا ۔ یہ تاثر بھی دم توڑ دے گا کہ کرپشن محض چند لیڈروں یا یا افراد (جنہیں عرف عام میں مافیا کہنے کا ر واج متعارف ہؤا ہے) کی وجہ سے پھیلی ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

عاصم سلیم کے خاندانی نام ’باجوہ‘ کی وجہ سے یہ تاثر بھی ابھرے گا کہ وہ صرف موجودہ سرکاری پوزیشن اور فوج میں سابق عہدے ہی کی وجہ سے طاقت ور نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان سے ہے جس کی وجہ سے انہیں رعایت مل رہی ہے۔ حالانکہ معلوم حقائق اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ عاصم باجوہ کی پاک فوج کے سربراہ سے عزیز داری ہے۔ ان کے بارے میں رپورٹ سامنے آنے کے بعد جس طرح سوشل میڈیا پر احمد نورانی کے خلاف مہم جوئی شروع کی گئی ہے اور جس طرح اس معاملہ کو قومی سالمیت، فوج کے احترام اور سی پیک کی کامیابی کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے رپورٹ کودشمن کی سازش قرار دینے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے یہی قیاس قوی ہوگا کہ فوج سیاست میں ’شفافیت اور دیانت داری‘ ضرور چاہتی ہے لیکن اپنی صفوں میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں کو درست کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ خاندانی نام کی اتفاقیہ مماثلت کی وجہ سے یہ کیس جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی شہرت اور دیانت داری پر سوالیہ نشان گہرا کرتا رہے گا۔

وزیر اعظم کو اس معاملہ سے یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ کوئی بھی فرد اہم یا ناگزیر نہیں ہوتا کہ اسے بیک وقت حکومت یا مملکت کے دو اہم ترین عہدوں پر فائز کیا جائے۔ سی پیک اتھارٹی ایک اہم ادارہ ہے اور اس کی سربراہی کل وقتی سے بھی زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔ کجا اس کے سربراہ کو وزارت اطلاعات میں بھی اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے نیب کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال بدستور لاپتہ افراد کے کمیشن کی سربراہی پر بھی فائز ہیں۔ اس طرح کوئی بھی شخص کسی بھی کام سے انصاف نہیں کرسکتا۔

حکومت اور جناب عاصم باجوہ کو جان لینا چاہئے کہ اب ان کے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ غیر ملکی کاروبار کے بارے میں اٹھنے والے سوالات اور سوال اٹھانے والے صحافی کے خلاف اختیا رکئے گئے افسوسناک طرز عمل نے متعدد نئے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اب ایک بیان، پریس کانفرنس یا تردیدی نوٹ اس بحران کو ختم نہیں کرسکے گا۔ نعروں اور الزامات کے ذریعے اسے دبانے کی ہر کوشش سیاسی طوفان کی شدت میں اضافہ کرے گی۔ پھر جنرل عاصم باجوہ نہ جانے اور کس کس کو لے ڈوبیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali