عنوان منتخب کیجیے، پلیز


میں نے پہلی فلم پانچ چھہ سال کی عمر میں امی کے ساتھ ریکس سنیما راول پنڈی میں دیکھی تھی۔ فلم کا نام ”معصوم“ ہے۔ مرکزی کرداروں میں غلام محی الدین اور بابرہ دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے اس فلم کے کچھ منظر ابھی تک یاد ہیں۔ امی اکثر اس حیرانی کا اظہار کر چکی ہیں، کہ مجھے بہت کم سنی کی باتیں بھی صحیح سے یاد ہیں۔ جیسے ملتان کے گھر کا نقشہ اور وہاں کے چند واقعات۔ میں دو ڈھائی برس کا تھا تو ہم ملتان سے راول پنڈی منتقل ہو گئے تھے۔

خواتین کا شو سوم وار صبح نو ساڑھے نو بجے مخصوص تھا۔ ویسٹرج میں گھر سے قریب ریکس سنیما پڑتا تھا، جہاں خواتین پیدل چلی جاتی تھیں۔ مرد ملازمت پر ہوتے، اور محلے کی خواتین اکٹھی ہو کر کالے برقع پہنے سنیما کا رخ کرتیں۔ گھر کی عورتیں فلم دیکھنے جاتی ہیں، اس کا گھر کے مردوں کو پتا نہیں ہوتا، میرا یہ وہم کم سنی ہی میں دور ہو گیا تھا، جب پانچ چھہ سال کی عمر میں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ امی، خالائیں اور ممانیاں فلم دیکھنے جانے لگیں تو میں نے ضد کر لی کہ میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ کسی نا کسی طرح وہ مجھے چکر دے کے نکل گئیں۔ مجھے خبر ہوئی کہ مجھے دھوکے دے کر چلی گئی ہیں، تو میں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ روتا چلا گیا۔ اتنے میں امی کے چچا گھر میں داخل ہوئے۔ مجھے روتا دیکھ کے انھوں نے کسی سے وجہ پوچھی، تو چچا کو بتایا گیا کہ اس کی امی بازار گئی ہیں اور اسے ساتھ نہیں لے کر گئیں۔ مجھے لگا یہ موقع اچھا ہے، نانا ابو کو بتاتا ہوں کہ امی فلم دیکھنے گئی ہیں، تا کہ امی کو ان کے سب سے چھوٹے چچا سے ڈانٹ پڑے۔ جونہی میں نے سچ بولا، میرے گال پہ ایک زور دار تھپڑ پڑا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا کہ نانا ابو نے مجھے کیوں مارا ہے! اس کم سنی میں بھی مجھے شعور تھا کہ نانا ابو جانتے ہیں، میں سچ کہ رہا ہوں، لیکن بھتیجیوں کا بھرم رکھنا مقصود ہے۔

کم سنی میں ہم بچوں کو ماموں جان پلازہ سنیما میں ”کنگ کانگ“ دکھانے لے گئے تھے۔ آخری بار جب اوڈین، پلازہ کی ویران عمارتیں دیکھیں، تو دل درد سے بھر آیا۔ راول پنڈی کے اوڈین، پلازہ، سیروز، ریالٹو، موتی محل، سنگیت، کہکشاں، ریکس، پی اے ایف، روز، میلوڈی اسلام آباد، ان سینماؤں میں فلمیں دیکھیں۔ نشاط، ناولٹی، اور ڈنگی کھوئی کے سنیما کا نام بھول رہا ہوں، ان میں اس لیے کوئی فلم نہ دیکھ سکا کہ ان میں پشتو فلمیں ہی لگتی تھیں۔ نیف ڈیک اسلام آباد میں بھی کوئی فلم نہ دیکھ سکا۔ آج ان میں سے کئی سنیما باقی نہیں رہے۔

یہ ان دنوں کی داستان ہے جب دن بہت طویل ہوتے تھے، اور ہم اس کا ہر ہر لمحہ محسوس کرتے تھے۔ اس زمانے میں جب کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی تو میں اور جاوید دعائیں مانگا کرتے کہ یہ فلاپ ہو جائے۔ جاوید میرا ہم مکتب بھی تھا اور محلے دار بھی۔ راول پنڈی میں نئی فلموں کے لیے ”شبستان“ اور ”گلستان“ سنیما مخصوص تھے۔ ان سنیماؤں کی گیلری کی ٹکٹ کی قیمت بارہ رپے تھی۔ ”پی اے ایف سنیما“ میں گیلری کی ٹکٹ ساڑھے تین رپے کی تھی۔ ہم مڈل کلاس کے شاہانہ مزاج لڑکے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے تھے کہ فلم گیلری میں بیٹھ کر نہ دیکھی جائے۔ میرا جیب خرچ ایک رپیا یومیہ تھا، جس میں آٹھ آنے اسکول آنے جانے کے لیے بس کا کرایہ تھا۔ آٹھ آنے میں اسکول کی کینٹین سے چنا چاٹ کی پلیٹ ملتی تھی۔ شامی برگر ایک رپے میں آتا تھا۔ ایسے میں ہفتہ دو ہفتے میں بارہ رپے کیوں کر پس انداز کیے جا سکتے تھے۔ لہاذا دعا یہی ہوتی کہ فلم فلاپ ہو۔ ”گلستان“ ، ”شبستان“ سے ہوتی، ”ریالٹو“ یا ”سنگیت“ پہ دکھائی جائے اور سب سے آخر میں ”پی اے ایف سنیما“ پر، جہاں گیلری کا ٹکٹ ساڑھے تین رپے تھا۔ دعاؤں سے مطلب یہ تھا کہ جتنی جلد فلم فلاپ ہو گی اتنی تیزی سے ”پی اے ایف سنیما“ پہ پہنچے گی۔ ایک اور ایک دو، سات رپے سنیما گیلری کی ٹکٹ کے اور دو رپے سائیکل اسٹینڈ کے۔ کس نے کتنے رپے جمع کیے، اس کا حساب نہ ہوتا تھا، بس سات جمع دو، کل نو رپے ہوئے نہیں اور ہم نے پی اے ایف کا رخ کیا نہیں۔ جس ہفتے مونگ پھلی کے لیے دو رپے اضافی ہوں، اس ہفتے کی کیا ہی بات تھی۔

اس کے بعد میں نے کتنی ہی فلمیں دیکھیں، جیب میں ہزاروں رپے ہوئے، لیکن فلم دیکھنے کا وہ لطف نہیں آیا، جو چونی چونی جوڑ کے دیکھنے کا تھا۔ جاوید اس وقت آزاد کشمیر اسٹیٹ بنک میں ایگزیکو پوسٹ پہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا، وہ دن اسے بھولے ہوں۔ میں نہیں بھولا، تو وہ کیسے بھول سکتا ہے۔

سن اسی کی دہائی کے وسط میں اردو فلمیں بن رہی تھیں، لیکن اتنی نہیں کہ سنیماؤں کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔ سو سینماؤں پر ستر کی دہائی کی کام یاب فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں۔ اگر چہ سنگیتا، زیبا، وحید مراد، شاہد، محمد علی کا دور لد چکا تھا اور پرانے اداکاروں میں ندیم ہی واحد ستارہ تھے، جو ان کے بعد بھی حتی المقدور چمکا۔ فیصل اور ایاز ”نہیں ابھی نہیں“ ( 79 ء) سے سامنے آئے۔ وہ ابھی اسکول کالج کے بچے تھے کہ سنیما اسکرین پہ نمودار ہوئے۔ دونوں ہی خوب رو تھے، لیکن فیصل کو ایاز سے زیادہ فلمیں ملیں۔ ایاز کے لیے ہم نے ایک پنجابی فلم بھی دیکھ لی۔ اس کا نام ”عشق نچایا گلی گلی“ ہے۔ اسلم ڈار اس فلم کے ہدایت کار ہیں اور ایاز کے ساتھ دردانہ رحمان ہیروئن۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس دردانہ رحمان کو دیکھ کر میں نے آہیں بھری ہیں، کبھی اس کے ساتھ بیٹھ کے تاش کی بازی لگاؤں گا اور ہارتا چلا جاؤں گا۔ تب دردانہ رحمان کی شخصیت میں وہ طلسم نہ محسوس ہوا، جو پردہ سیمیں پہ دیکھ کے ہوا تھا۔

نئی پرانی، تب ہمیں سبھی ہیروئن پسند تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ستر کی دہائی کی فلمیں ہمارے لیے تازہ ریلیز فلموں کی طرح تھیں۔ شمیم آرا کی ”نائلہ“ پہلی بار 1969 ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ہم نے سن پچاسی چھیاسی میں دیکھی تو گویا وہ اس زمانے میں یا ہم اس دور میں جا پہنچے، جو شمیم آرا کی جوانی اور ہمارے لڑک پن کا تھا۔ شبنم، بابرہ، کویتا، وحیدہ رحمان، سونیا، سلمی آغا، حتا کہ ترکی کی نازاں سانچی کو نا پسند کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی۔

انہی دنوں ایک کزن کے ساتھ بائیک پہ سوار، چھوٹا بازار صدر سے گزرا تو کزن نے کہا، ”دیکھو! دیکھو! وہ سنگیتا ہے۔“ سنگیتا کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی جوس پی رہی تھیں۔ جوانی کا اپنا حسن ہوتا ہے، اور سنگیتا پھر نہایت حسین خاتون تھیں۔ اس شام چھوٹا بازار، ہاتھی چوک صدر میں سنگیتا کی ایک جھلک نے بعد میں کتنا عرصہ مجھے مسحور کیے رکھا، یہ خدا خوب جانتا ہے۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں، جب ندیم فلموں سے کنارہ کر چکے تھے، انھیں راہ چلتے دیکھا۔ تب بھی میں موٹر سائیکل پہ سوار تھا، اور ان کی کار میرے پاس سے گزری تھی۔ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی فیز ٹو کے مسجد چوک کے پاس ندیم کی وہ ایک جھلک بھی گویا قارون کا خزانہ دیکھ لینے جیسا تھا۔

میرے لڑک پن میں ایک فلمی رسالے کے سرورق پہ اداکار فیصل رحمان اور سویرا کی تصویر شایع ہوئی۔ سویرا ایک آدھ فلم میں نمودار ہوئی، یا شاید ایک فلم میں بھی نہیں۔ سنا یہی تھا کہ مسرت شاہین کی بہن ہے۔ مجھے نہ سویرا نہ مسرت شاہین کی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلمی پرچے پہ چھپی فیصل کی اس تصویر میں اس کی مانگ دائیں ہاتھ سے نکلی ہے، اور کن پٹیاں خالی۔ اس کا وہ ہیئر اسٹائل مجھے اتنا بھایا کہ میں نے اس کی نقل میں کن پٹیوں پہ ریزر پھیر کے وہ حصہ خالی کر لیا تھا، تا کہ ویسا لگوں۔ اس عمر میں کیا معلوم تھا کہ فیصل کے بال گر رہے ہیں، تو ہی کن پٹیاں ننگی ہیں۔

ایک شب ایک ہدایت کار دوست کی کال آ گئی کہ صبح مجھے ایک ڈرامے کی رکارڈنگ کرنی ہے، اس میں ایک مختصر سا کردار ہے، وہ نباہ دو۔ میں اداکار تو نہیں ہوں، لیکن ایسے ہی تعلقات میں کئی ڈراموں میں مختصر کردار ادا کرنے پڑے ہیں۔ اگلے روز سیٹ پر میرے سامنے فیصل رحمان تھے۔ اب کہاں وہ بات، اب کہاں وہ دن کہ کسی اداکار کو دیکھ کے کئی کئی روز نشے کی سی کیفیت طاری ہوتی۔ وہ زمانہ بیت چکا تھا۔ اب میں خود اس الف لیلے کا شہری تھا، جسے شو بز کہتے ہیں۔ آج دن یوں نکلتا ہے اور یوں گزر جاتا ہے، کہ خبر ہی نہیں ہوتی، کب بیت گیا۔ برسوں میں کوئی ایک پل ایسا ہوتا ہے، جو اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ کیمرا رول ہونے سے پہلے ہم اپنے اپنے مکالمے یاد کر رہے تھے، تو میں نے محسوس کیا، فیصل رحمان کنکھیوں سے بار بار میری بالوں کو دیکھ رہا ہے۔ آخر اس سے نہ رہا گیا۔

”یہ بال؟ ۔ ۔ آپ کے بال بہت اچھے ہیں۔ ۔ ۔ کیسے کیئر کرتے ہیں، ان کی؟“
”کچھ بھی تو نہیں۔ خود بہ خود ایسے ہیں۔“

مجھے سمجھ ہی نہیں آیا، اس کے سوا کیا کہنا چاہیے۔ حالاں کہ میں کہنا چاہتا تھا، کبھی میں آپ کے ہیئر اسٹائل کی نقل کرتا تھا۔ نہ جانے کیوں نہیں کہ پایا اور مسکرائے چلا گیا۔ کاش کہ دیتا تو فیصل رحمان یہ سن کے کتنا خوش ہو جاتا۔ وہ بچپن اچھا تھا، جب سچ سچ کہ دیتے تھے، چاہے تھپڑ پڑتا تھا۔

اے کاش! وقت ذرا دھیرے چلے تو پل پل محسوس ہو۔ برق رفتاری میں سچائیاں کہیں کھو سی جاتی ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran