چین: تعلیمی نصاب میں منگولیائی زبان پر پابندیوں کے خلاف چین کے مختلف علاقوں میں احتجاج


مظاہرین کے حق میں منگولیا کے دارالحکومت الانباتار میں بھی لوگوں نے احتجاج کیا

مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے منگولیا کے دارالحکومت الانباتار کے باشندوں نے بھی احتجاج کیا

شمالی چین میں منگولیائی نسل کے باشندوں نے شعبہ تدریس میں چینی زبان کو منگولیائی زبان پر ترجیح دیے جانے کے خلاف ریلیاں نکالی ہیں، چین میں اس نوعیت کا احتجاج شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

منگل کو سکولوں میں نئے سال کے آغاز پر ہی کچھ والدین نے چینی ریاست کی اس پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے بچوں کو سکول بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

نئے قوانین کے تحت، انر یا اندرونی منگولیا (شمالی چین کا وہ خود مختار علاقہ جو منگولیا کی سرحد کے ساتھ ہے) میں تین بنیادی مضامین کو مختلف مراحل میں میندرن زبان میں پڑھایا جائے گا، جو کہ چین کی سرکاری زبان ہے۔

بہت سے منگولیائی باشندے اس اقدام کو اپنی ثقافتی شناخت کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چنگيز خان کی قبر کہاں گئی؟

اویغور مسلمان خواتین کی جبری نسبندی کے الزامات، چین کی تردید

اویغور ماڈل کو ’کورونا بچاؤ مرکز‘ میں رکھا گیا ہے: سنکیانگ حکومت کا دعویٰ

طلبا اور والدین کی ایک بڑی تعداد نے ہفتے کے اختتام سے جاری ان مظاہروں میں شرکت کی ہے اور انتظامیہ کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ یہ مظاہرے کئی شہروں میں کیے گئے ہیں۔

امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلائے جانے والے ایک نشریاتی ادارے ریڈیو فری ایشیا کی ایک رپورٹ کے مطابق طلبا نعرے لگا رہے تھے کہ ’ہماری زبان منگولیائی ہے، اور ہمارا وطن ہمیشہ سے منگولیا ہے! ہماری مادری زبان منگولیائی ہے، اور ہم اپنی مادری زبان کے لیے جان دے دیں گے۔‘

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس اقدام کے خلاف لکھی جانے والی پیٹیشن پر بڑے پیمانے پر خواتین کی انگلیوں کے نشان اور دستخط موجود ہیں۔

مظاہرین کے حق میں منگولیا کے دارالحکومت الانباتار میں بھی لوگوں نے احتجاج کیا

منگولیا میں احتجاج

’منگولیائی زبان پر دباؤ‘

نئی پالیسی کے مطابق رواں ماہ سے چین کے اندرونی اور خود مختار علاقوں میں سکول دھیرے دھیرے تین مضامین، سیاست، تاریخ، اور زبان و ادب کو پڑھانے کے لیے منگولیائی زبان سے میندرن زبان پر منتقل ہو جائیں گے۔ ان علاقوں میں منگولیائی اقلیت بڑی تعداد میں بستی ہے۔

نیو یارک میں مقیم ایک سرگرم گروہ، سدرن منگولیئن ہیومن رائٹس انفارمیشن سینٹر کے مطابق پورے خطے میں لوگ ناراض ہیں کیونکہ بہت سے والدین کو بھی سکول ٹرم شروع ہونے کے دنوں میں ہی پالیسی میں اس تبدیلی کے بارے میں پتا چلا ہے۔

سینٹر کے مطابق ایک بورڈنگ سکول میں بہت زیادہ تناؤ کے مناظر نظر آئے جہاں ہزاروں والدین مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے بچوں واپس بھیجا جائے۔ یہ بچے اس سے قبل بورڈنگ میں رہنے آئے تھے۔

سینٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’فسادات کو روکنے والی پولیس کے بڑی تعداد میں اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور والدین کو سکول کے ہاسٹلز تک جانے سے روکا۔ کئی گھنٹوں کے تعطل کے بعد والدین آخر کار پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر اپنے بچوں کو لینے کے لیے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔‘

حکام نے اندرونی منگولیا میں لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اس معاملے کو نہ اچھالیں۔ چین کے ٹوئٹر نما پلیٹ فارم ویبو پر اس کے متعلق پیغامات کو ہٹا دیا گیا ہے۔

لیکن اس حکم نامے پر تشویش اب بھی عروج پر ہے اور کچھ والدین اپنے بچوں کو گھروں پر ہی رکھے ہوئے ہیں۔

منگل کو نائمین کاؤنٹی کے ایک سکول میں عملے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے سکول میں صرف 40 کے قریب طلبا کا سمیسٹر کے لیے اندراج ہوا ہے، جہاں پہلے عموماً ایک ہزار تک طلبا کا اندارج ہوتا تھا۔ بعد میں مزید لوگوں نے رائے بدل لی اور آخر میں صرف 10 ہی باقی رہ گئے۔

انھوں نے بتایا کہ والدین کو راضی کرنے کے لیے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول واپس بھیجیں اساتذہ کو ان کے گھروں میں بھیجا گیا ہے۔ لیکن والدین کو خوف ہے کہ زبان کی تبدیلی سے ان کی اپنی زبان کے مستقبل کو خطرہ ہے۔

اویغور

چین پر اقلیتی مذاہب کے ماننے والوں پر جبر کرنے کے الزامات لگتے رہتے ہیں (حراستی کیمپ کی فائل فوٹو)

اتنے بڑے پیمانے پر اس طرح کا اختلاف رائے منگولیا اور روس سے متصل ان دور دراز سرسبز علاقوں میں ایک غیر معمولی بات ہے۔

زیلنگول لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک 32 سالہ چرواہے نے خبر رساں ادارے ایف پی کو بتایا کہ انھیں تشویش ہے کہ بچے اب روانی سے اپنی مادری زبان نہیں بول سکیں گے۔

ہو نامی ایک باشندے نے کہا کہ ’اندرونی منگولیا میں تقریباً سبھی منگولیائی نظر ثانی شدہ نصاب کے خلاف ہیں۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت مغربی سنکیانگ میں زیادہ تر مسلم اویغوروں سمیت اقلیتوں کے گروہوں کو ضم کرنے کے لیے اپنا دباؤ بڑھا رہی ہے، حالانکہ اقلیتوں کے ساتھ اس سلوک کی وجہ سے بین الاقوامی برادری اُن پر وسیع پیمانے پر تنقید بھی کر رہی ہے۔

جمعہ کے روز شائع ہونے والے ایک بیان میں، جو کہ بظاہر بڑھتی ہوئی مخالفت کے جواب میں دیا گیا، اندرونی منگولیا کی علاقائی اتھارٹی نے ’نسلی علاقوں میں قومی زبان کی تعلیم کو مضبوط بنانے‘ کی اہمیت پر زور دیا۔

نئے حکم نامے کے بعد ہمسایہ ملک منگولیا کے دارالحکومت میں بھی کچھ افراد نے احتجاج کیا ہے، جبکہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے کئی ایک نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

جرمنی سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک جلا وطن گروپ ’انر منگولین پیپلز پارٹی‘ کے چیئرمین ٹیمٹسلٹو شوبٹسوڈ نے الزام لگایا کہ چین منگولیائی زبان کو ’دبانے کی کوشش‘ کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پوری دنیا انسانی حقوق کی بات کر رہی ہے، لیکن ہم کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اندرونی منگولیا میں اقلیتوں پر میندرن اور اکثریتی ہن چینی ثقافت مسلط کرنا ’ثقافتی نسل کشی‘ کی ہی ایک شکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp