بابر اعظم: ڈریسنگ روم سے مشورے اور پیغامات نہیں آتے


بابر

پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز نہ جیت سکی لیکن آخری ٹیسٹ میں سنچری نے کپتان اظہرعلی پر سے دباؤ ختم کر دیا جو بڑی اننگز نہ کھیلنے کی وجہ سے ان پر قائم تھا۔

اسی طرح آخری ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستانی ٹیم کی جیت نے کپتان بابر اعظم کو بھی اس دباؤ سے آزاد کر دیا جو دوسرے ٹی ٹوئنٹی کی شکست کی صورت میں ان پر قائم ہو چکا تھا۔

یہ دونوں کرکٹرز جب سے کپتان بنے ہیں اس بحث اور تنقید کی زد میں رہے ہیں کہ یہ دونوں میدان میں خود فیصلے نہیں کر پاتے اور انھیں ڈریسنگ روم کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جہاں مصباح الحق کی شکل میں ان کے مینٹور بیٹھے ہوئے ہیں۔

یہ بحث اور تنقید پریس کانفرنسوں میں پوچھے گئے سوالات کی شکل میں بھی ہوتی ہے اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر سابق کرکٹرز، مبصرین اور عام شائقین کی بحث کی صورت میں بھی۔

یہ بھی پڑھیے

’ہر بادشاہ تاج نہیں پہنتا، ہمارا بادشاہ ہیلمٹ پہنتا ہے‘

بابر اعظم: فیصلے خود کرتا ہوں، مصباح باہر بیٹھ کر کنٹرول نہیں کرتے

بابر اعظم: لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اتروں تو افسوس ہوتا ہے

بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی، پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ یونس خان نے بھی تیسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے قبل میڈیا سے گفتگو میں یہ کہہ دیا کہ بابر اعظم کافی عرصے سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کپتان ہیں، بعض اوقات کپتان کے لیے مشکل ہو جاتی ہے اگر بہت زیادہ تجاویز آ رہی ہوں۔

انھوں نے کہا لیکن یہ تجاویز باہر سے آ رہی ہوں یا فیلڈ میں سے، یہ سب بہتری کے لیے ہوتی ہیں۔

یونس خان کا کہنا ہے کہ جب وہ خود کپتان تھے تو اس وقت بھی ان کے اردگرد چار پانچ کپتان ہوا کرتے تھے اور یہ کہ بابراعظم سے جب بھی ان کی بات ہوتی ہے اور وہ انھیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پہل کریں اور خود اپنے فیصلے کرنا سیکھیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ (بابر) فیصلے لیتے بھی ہیں تاہم بعض اوقات ہمیں ایسا لگتا ہے کہ شاید ڈریسنگ روم سے بہت زیادہ لوگ انھیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، لیکن آپ کو اپنے فیصلے خود کرنے پڑتے ہیں اور بابر اعظم کو فیصلے کرتے ہوئے ڈرنا نہیں چاہیے۔

بابر

یونس خان کا کہنا ہے کہ جب وہ خود کپتان تھے تو اس وقت بھی ان کے اردگرد چار پانچ کپتان ہوا کرتے تھے اور یہ کہ بابراعظم سے جب بھی ان کی بات ہوتی ہے اور وہ انھیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پہل کریں اور خود اپنے فیصلے کرنا سیکھیں

یہ یونس خان کی گفتگو کا نتیجہ تھا یا عمومی طور پر ’بے اختیار‘ یا ’ڈمی کپتان‘ ہونے کا تاثر، بابراعظم نے اس تاثر کی ایک بار پھر نفی کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی اور یہ واضح کر دیا کہ وہ ڈریسنگ روم سے نہ مشورے لیتے ہیں نہ ہی وہاں سے پیغامات آتے ہیں۔

بابراعظم کہتے ہیں کہ میدان میں ان کے ساتھ سینیئر کرکٹرز موجود ہیں اور انھیں جب بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ ان کے پاس جاتے ہیں یا سینیئر کرکٹرز کو جب محسوس ہوتا ہے تو وہ ان کے پاس آتے ہیں، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔

’یہ سیکھنے کی بات ہے اور میں سیکھ رہا ہوں۔‘

بابر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ تمام باتیں ان کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں کہ فیلڈ میں کس طرح کام چلانا ہے۔ فیصلے ان کے اپنے ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آپ کے سامنے دوسری ٹیموں کی مثالیں بھی موجود ہیں مثلاً اگر ہم ای این مورگن کو دیکھیں تو انگلینڈ کے کھلاڑی ان کے گرد بھی موجود ہوتے ہیں اور مشورے کر رہے ہوتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مورگن خود فیصلے نہیں کرتے؟۔

بابراعظم نے کپتانی پر تنقید کرنے والوں کو اس سے قبل بھی یہی جواب دیا تھا کہ مصباح الحق باہر سے بیٹھ کر انھیں کنٹرول نہیں کرتے۔

بابراعظم کو سرفراز احمد کی جگہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کا کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم آٹھ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیل چکی ہے جن میں سے تین جیتے تین ہارے اور دو نامکمل رہے ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں انھیں دو صفر کی شکست ہوئی تھی جس کے بعد بنگلہ دیش کو ہوم سیریز میں دو صفر سے شکست دی اور اب انگلینڈ کے خِلاف سیریز ایک ایک سے برابر رہی۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کے اختتام پر دونوں ٹیموں نے عالمی رینکنگ میں اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ انگلینڈ کا نمبر دوسرا ہے جبکہ پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp