نئے نظام کی تشکیل وقت کے ضرورت


ایک انگریزی محاورہ ہے کہ کائنات میں۔ تبدیلی ہی ایک ایسی شے ہے جو ناقابل تبدیل ہے۔ یہ کائنات مسلسل حرکت پذیر ہے ایک ایک زرہ ہمہ وقت تبدیل ہو رہا ہے یہاں جامد کوئی شے نہیں ہے انسانوں، خاندانوں سے لے کر حکومتوں اور نظاموں تک ہر چیز ہر وقت تبدیل ہو رہی ہے۔ تبدیلی کی رفتار کبھی تیز ہے اور کبھی سست لیکن یہ رکتی کبھی نہیں ہے۔

ایک وقت تھا کہ انسانوں کا آنا اور جانا بہت اہمیت رکھتا تھا۔ لوگ پیغمبروں کا انتظار کرتے اور رحمدل اور نیک حکمرانوں کا جو آ کر ان کی قسمتوں کو بدلیں اور بقول شاعر،
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

انسان تو اپنی عمر تک ہی زندہ رہتا ہے مگر ان کے خاندان برسوں حاکم رہتے ہیں اس سے معاشرے میں طبقات وجود میں آتے ہیں۔ یہ اپنے بارے میں اس طرح کی باتیں پھیلاتے جیسے یہ خدا کے اوتار ہوں اور اپنے بارے میں ظل الہی اور اللہ کے پسندیدہ اور چنے ہوئے بندے ظاہر کرتے اور بہت سے تو اپنے آپ کو خود کو دیوتاؤں کی اولاد ظاہر کرتے تاکہ لوگ ان کو اپنا مقدر سمجھتے ہوئے ان کے اطاعت گزار رہیں اور کسی قسم کی بغاوت نہ کریں۔

اسی طرح نظاموں کا دورانیہ برسوں نہیں مگر صدیوں پر اور کئی دفعہ ہزاروں سالوں پر محیط ہوتا ہے اس لیے اس کے بارے میں بھی یہ تصورات جنم لے لیتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت ہیں اور یہ ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے لیکن معروضی حالات، زمینی حقائق اور ہمہ وقت ارتقائی عمل ہر شے اور تصور کو یکسر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ کسی بھی علاقے کی مجموعی معیشت نظام تخلیق کرتی ہے جو اس کے مطابق ایک سماج تخلیق کرتی ہے اور وہ سماج اس سے میل رکھتا ہوا نہ صرف سیاسی، سماجی اور عدالتی طریق کار تخلیق کرتا ہے بلکہ مجموعی سوچ سے لے کر روزمرہ کی زبان، محاورے، ادب اور آداب بھی وجود میں لاتا ہے۔

مختصراً خانہ بدوشی دور کے معاشی نظام کا سماج ہر لحاظ سے زرعی دور معیشت سے مختلف تھا جس نے لوگوں کو زراعت کے رموز سے آشنا کیا، معاشرے کو طبقات میں تقسیم کیا اور ملکیت کا تصور وجود میں آیا جس کے ساتھ حاکمیت اور حکومت کا تصور بھی آیا اور یہ سماج کی تبدیلی اس کے نظام معیشت سے جڑی ہوئی تھی۔ اسی طرح جب زرعی معاشرہ اپنے عروج پر جا کر مجموعی طور پر جمود کا شکار ہوا تو وہ عام لوگوں کے لیے عذاب بن گیا صرف مراعات یافتہ خوشحال طبقہ آسودہ حال تھا جبکہ عام آدمی کے لیے معاشرے میں اپنے جوہر دکھانے کے مواقع ختم ہو گئے۔

اس موقع پر وقت نے کروٹ لی لوگوں نے اس نظام سے بغاوت کر کے نیا سرمایہ داری انقلاب برپا کیا جس نے سوچ کو پروان چڑھایا اور موجودہ سرمایہ داری جمہوری معاشرہ تخلیق کیا جس میں جاگیر داری کے بجائے فیکٹریاں، کارخانے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں وجود میں آئیں۔ لوگ بڑے خاندانوں کے بجائے چھوٹے کنبوں میں آباد ہوئے۔ حکومت اب شاہی خاندانوں کے بجائے سیاسی پارٹیوں میں آئی جو بظاہر لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے۔ بہت وسیع پیمانے پر سائنسی ایجادات نے عام آدمی کی زندگی کا معیار اس کے سابقہ نظام سے بہت بلند کر دیا۔ (اس کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے آپ کارل مارکس کی تھیوری آف ہسٹوریک مٹیریل ازم یا اردو میں نظریہ تاریخی مادیت کا مطالعہ ضرور کریں ) ۔

اب تھوڑا سا ذکر کارل مارکس کا بھی جو جرمنی سے تعلق رکھنے والے فلسفی اور ماہر معیشت دان تھے ساتھ ہی ارتقا کے طالب علم کے طور پر انہوں نے انسان کی کروڑوں سال کے معاشی اور سماجی ارتقا کے ہر پہلو کا بغور مطالعہ کیا اور ان حرکیات کو تلاش کیا جس کی بنا پر معاشرہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور اس کی سائنسی بنیادیں تلاش کیں جس کی بنا پر کوئی بھی شخص معاشرے کی تبدیلی کو پرکھ سکتا ہے۔ مارکس نے ارتقا کے ہونے والے عمل میں آنے والے دو آنے والے نظاموں کی کڑیاں تلاش کیں جس کو انہوں نے سوشلزم اور کمیونزم کا نام دیا جس کو ہم زیر بحث لاتے ہیں۔

اول یہ کہ جیسی ہماری عمومی اور مجموعی معیشت ہوتی ہے و ہی ہمارا سماج مرتب کرتی ہے جس کا مشاہدہ ہم دیہی اور شہری زندگی کے علاوہ صنعتی اور زرعی ممالک کے تقابل سے کر سکتے ہیں اور یہ سماج وہاں کے محنت کش اور کام کرنے والے عام لوگ تشکیل دیتے ہیں لیکن جب وسائل پر ایک قلیل آبادی کا کنٹرول ہو جائے اور اکثریتی آبادی اپنی اس سطح تک پہنچ جائے کہ جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر ہو جائے اور سماج میں اپنا حصہ ڈالنے سے محروم ہو جائے تو پھر لوگ ایک شعوری کوشش کر کے وسائل کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

اگر ان کی سیاسی قیادت باشعور نہ ہو یا وہ محض لوگوں کا جمگھٹا ہو جن کے پاس موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا کوئی مناسب حل نہ ہو تو وہ صرف موجودہ لبنان ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں کئی دفعہ قیادت عوام کو پختہ شعور نہیں دیتی اور ان کو نعروں اور لیڈران کے طلسم میں مبتلا رکھتی ہے اور بہت بلند بانگ دعوؤں کے باوجود موجودہ مسائل کو اصلاحات کے ذریعہ حل کرنے کی طرف جاتی ہے جس کا مشاہدہ ہم آج کی تقریباً تمام دنیا میں کر سکتے ہیں اور بالخصوص پاکستان میں کر سکتے ہیں جہاں اسلامی سوشلزم کے نفاذ سے لے کر مجلس شوریٰ سے وردی کے طلسم سے ہوتی ہوئی چہرے کو نہیں نظام کو بدلو اور پھر تمام کو اسی طرح رکھتے ہوئے محض چند آرائشی اصلاحات پر بات ختم ہو جاتی ہے۔

تیسری صورت میں اگر محنت کش طبقے کی انقلابی پارٹی وجود رکھتی ہو اور اس میں مختلف باشعور کیڈرز موجود ہوں تو وہ موجودہ نظام کو مفلوج کرتے ہوئے اس کا مکمل خاتمہ کر دیتی ہے اور تمام فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر کام کرنے والی جگہوں پر وہاں کام کرنے والے ان اداروں کو اپنے جمہوری کنٹرول میں لے لیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ ریاستی ڈھانچہ توڑتے ہوئے بہت ہی چھوٹے سطح پر لوگوں کی اپنی منتخب خود مختار انجمنیں جو مختلف امور کی انجام دہی کے لیے منتخب ہوتی ہیں دراصل اپنے اپنے علاقے کے ریاستی امور کی جوابدہ ہوتی ہیں اب پارلیمنٹ نہیں بلکہ یہ منتخب خودمختار انجمنیں ہی بالادست قیادت ہوتی ہیں جس میں کسی بھی منتخب رکن کو اس کے حلقہ کے لوگ ناقص کارکردگی پر کبھی بھی واپس بلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی نہ صرف ریاستی غنڈہ گردی کا خاتمہ ممکن ہو تا ہے بلکہ قومی اور علاقائی جبر کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ (اس کا تفصیل سے مطالعہ آپ مارکس کی کتاب جرمن آئیڈیالوجی اور لینن کی کتاب سٹیٹ اینڈ ریوولوشن جس کا اردو ترجمہ ریاست اور انقلاب جو باآسانی دستیاب ہے میں کر سکتے ہیں ) ۔ اشیا منافع کمانے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی لیے پیدا کی جاتیں ہیں تاکہ تمام اشیا بغیر کسی طبقاتی تقسیم کے ہر کسی کو میسر آ سکیں۔

بہت سرمایہ اس موجودہ نظام میں کاروبار کو شروع کرنے اور پھر تجربات اور بالآخر اس کی ناکامی پر تباہ ہو جاتا ہے۔ منافع کی ہوس کے خاتمہ کے بعد کھلی منڈی کا تصور بھی اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے اور یہ تمام سرمایہ منصوبہ بند معیشت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو کچل کر محض دولت کمانے والے والے ذریعہ معاش نہیں اپنانے ہوتے بلکہ اس کے برعکس صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔

ایک جملہ جو جمہوریت کے حق میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ”جمہوریت کی خامیوں کا حل مزید جمہوریت میں ہے۔“ یہ آخر مزید جمہوریت کیا ہوتی ہے جب کہ اس موجودہ سرمایہ داری جمہوریت میں تو محض ووٹنگ ہی جمہوریت کہلاتی ہے تو عرض ہے کہ بیوروکریسی کا اور بالادست ریاستی ڈھانچے کی جگہ کلی خودمختار جمہوری انجمنیں ہی مزید جمہوریت ہوتی ہیں جو بیوروکریسی کا خاتمہ کر کے عوام کو طاقت بخشتی ہیں۔

ایک اور واقعہ میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ قبل از مسیح کے کسی چینی فلسفی سے کسی نے پوچھا کہ بدترین حکومت کون سی ہوتی ہے تو فلسفی نے جواب دیا کہ وہ جس میں لوگ اپنی حکومت کا مذاق اور تمسخر اڑا رہے ہوں تو اس شخص نے پوچھا کہ اس سے بہتر کون سی ہوتی ہے تو فلسفی نے جواب دیا کہ جس میں عوام اپنی حکومت سے خوف زدہ ہوں اور سزاؤں سے لرزاں ہوں اس شخص نے اس سے بہتر حکومت کا پوچھا تو جواب آیا کہ جس میں عوام اپنی حکومت اور اپنے حاکموں سے محبت کریں لیکن یاد رہے کہ یہ سب سے اچھی حکومت نہیں ہوتی جب کہ سب سے اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جس میں پتا نہ چلے کہ حاکم کون ہے اور رعایا کون ہے۔ جب کہ مندرجہ بالا نظام میں جس کو مارکس نے سوشلزم کا نام دیا ہے اس میں اس تخصیص کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

اس وقت شاید کچھ لوگوں کو یہ تمام باتیں کسی دیوانے کی بڑ یا ایک سہانے خواب سے زیادہ کچھ نہ لگتی ہوں لیکن اس طرح کی زندگی دنیا میں آج بھی ایک خاص مگر نہایت ہی چھوٹے طبقے کو کافی حد تک میسر ہے لیکن جب معاشرے سے مکمل طور پر طبقات کا خاتمہ ممکن ہوگا تو پھر یہ زندگی سب کو میسر ہوگی۔ طبقات کا خاتمہ کوئی انہونی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس کی برائیوں کو سمجھنے کے لیے کسی کا فلسفی کا ہونا لازمی ہے بس زمینی حقائق سے وابستہ سوچ ہی کافی ہے۔ کارل مارکس سے تقریباً پچاس سال پہلے ہندوستان میں ایک شاعر تھے میر تقی میر ان کا ایک شعر ہے،

امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے

لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ امیر کی دولت صرف غریب کے استحصال میں ہے اور یہ کسی خاص سوچ کے فلسفی کی نہیں بلکہ عام مشاہدہ کی بات ہے جو کہ دلی کا غریب شاعر بھی کر سکتا ہے اور اس کا خاتمہ ہی عام انسان کو سکھ دے سکتا ہے۔

اب کچھ گفتگو اس نظام کے قابل عمل ہونے پر بھی کر لیتے ہیں۔ اس طرح کا سب سے پہلا تجربہ پیرس کمیون میں ہوا تھا جب 71 18 میں وہاں کے محنت کشوں نے تقریباً اسی طرز پر پیرس کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جس کو مارکس نے اس وقت سپورٹ تو کیا تھا لیکن یہ بھی کہا تھا کہ اس کے کامیاب ہونے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ یہ وقت سے بہت پہلے ہو گیا ہے اور پھر چند ماہ بعد ہی پیرس کے چاروں اطراف سے شدید پر تشدد ریاستی کارروائی نے اس کو ناکام بنا دیا۔

لیکن اگر آج ہم دیکھیں تو تقریباً تمام دنیا میں ہمیں ریاستیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں اور قانون کی بالادستی کا نام لیتے ہوئے عوام کے لیے عذاب بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ میں پے در پے پولیس کے ہاتھوں قتل ہوں یا جنوبی افریقہ میں معذور کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہو جس پر عوام سڑکوں پر ہوں، ہانگ کانگ ہو یا بیلاروس یا خود روس ہو۔ فرانس میں اب تو باقاعدہ سالانہ پرتشدد ہنگامے ہوتے ہیں اور افریقہ، لاطینی امریکہ کے ممالک ہوں یا مشرق وسطی کے ماضی قریب کے خوشحال ممالک ہوں جیسے عراق، شام، لیبیا اور لبنان۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2