کیا لکھاری کی تحریروں کا کوئی اثر بھی ہوتا ہے؟


کچھ دوستوں نے یہ سوال کیا کہ تم کیوں لکھتے ہو؟ اس سوال کا جواب تو ایک مضمون میں دے دیا تھا مگر جو سوال ہمیشہ میری سوچ میں سر اٹھاتا ہے کہ کیا ان تحریروں کا کوئی اثر بھی ہوتا ہے مثبت یا منفی، اوائل سے پہلے میرا انداز تحریر مشکل پسندی سے عبارت ہوتا تھا اور اس انداز کے لئے میری دلیل یہ تھی کہ اول تو میں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھتا ہوں دوئم یہ کہ مشکل سے سمجھے جانے والی تحریر کی دو وجوہ ہوتی ہیں پہلی یہ کہ لکھنے والے کو کچھ زیادہ علم نہیں ہے اور وہ لچھے دار تحریر میں اپنی کم علمی کو چھپانا چاہتا ہے دوسری یہ کہ معلومات زیادہ ہیں اور بہت کچھ کو کم لفظوں میں بیان کرنے کے لیے زبان ثقیل ہو جاتی ہے۔

تحریر کو سہل کرنے کے لیے عزیزی وجاہت مسعود کی ایک ہی دلیل کافی بلکہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکے کی مانند تھی جس نے میری مشکل پسندی کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی اور میں لکھنے کی زمین پہ آ رہا تھا۔ دلیل یہ تھی کہ ہم تحریریں عام لوگوں کے لیے چھاپتے ہیں، اب یہ تو اخبارات کے دفاتر کو ہی علم ہوگا کہ ادارتی صفحات کو کتنے قاری سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن مجھے ایک بات وجاہت کے کہتے ہی جو سمجھ آئی تھی وہ یہ تھی کہ اخبار تو ”ڈسپوزیبل آئٹم“ ہوتا ہے جس کی تحریر پر اگر کوئی دوبارہ نظر ڈالے، وہ شاید کوئی محقق ہو لیکن عام قاری نہیں ہو سکتا۔

شمعون سلیم میری طرز تحریر میں تبدیلی پر تھوڑا سا اس لیے بھنایا تھا کہ وہ ایک عرصے سے یہی بات کہتا چلا آیا تھا جو میں مان کر نہیں دیتا تھا۔ ایک وقت میں تو احمد سلیم نے میری اردو کو ”جناتی اردو“ قرار دے دیا تھا۔ تحریر میں تبدیلی کی ایک وجہ ایک عشرے سے زیادہ ریڈیو کے ساتھ وابستگی رہی جہاں روسی زبان میں لکھی تحریروں کو کم تعلیم یافتہ سامعین کو مدنظر رکھ کر اردو کے قالب میں ڈھالنا ہوتا تھا تاہم وہاں بھی مشاہیر بشمول فیودر دستاییوسکی اور انتون چیخووسکی کی تحریروں کو اردو لباس پہنانے کا کام مجھے ہی سونپا جاتا رہا اور مجھے کسی حد تک فخر ہے کہ میں نے ان کی تحریروں کو اردو سامعین کو سمجھ آ جانے کے لیے آسان کیا۔ یہ اور بات ہے کہ جب انہیں ریڈیو ڈرامے کے طور پر پیش کیا گیا تو کشمیر سنگھ جیسے خالص امرتسری، کوشک جیسے بنگالی اور روسی خواتین کی لہجے دار اردو کی ادائیگی نے اس قدر دلچسپ نہیں رہنے دیا جو وہ شین قاف سے درست اردو بولنے والوں سے ہو سکتے تھے۔

آج دنیا انٹرنیٹ اور فاسٹ کمیونیکیشن کی دنیا ہے جہاں علم کم اور معلومات زیادہ درکار ہیں۔ پھر ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اور اسی طرح پریس نے بھی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ”تازہ ترین“ کا گھمچال پیدا کیا ہوا ہے۔ ایک اور چیز جسے کم ازکم پاکستان میں غلط طور پر ”ریسرچ جرنلزم“ کہا جاتا ہے وہ در حقیقت ”ڈیٹیکٹیو جرنلزم“ ہے جس میں سنسنی خیزی کا عنصر زیادہ اور اگاہی کا کم ہوتا ہے۔ ریسرچ جرنلزم تو وہ ہوتا ہے جس میں کوئی ایسی چیز جو کسی وقت عیاں تھی لیکن دب گئی، دبا دی گئی یا کھو گئی کو ڈھونڈھ ڈھانڈ کر آشکار کیا جاتا ہے جبکہ جرم جیسے کہ قتل، غبن، بد عنوانی وغیرہ کو طشت از بام کرنا تو سراغرسانی ہے جس میں صحافی حضرات ذرائع استعمال کرتے ہیں جنہیں وہ ہونقانہ سے ناموں مثلاً فرشتے، چڑیا وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔

میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ ایسی ماورائی اور پرندگانہ مخلوقات یک طرفہ کام نہیں کرتیں، اس لئے ان کی دی گئی معلومات خاص مقاصد کے لیے ہوتی ہیں۔ میرا زیادہ زور اس پر ہوتا ہے کہ جتنی معلومات دستیاب ہیں ان میں بین السطور ممکنہ حقائق کو تلاش کیا جائے کیونکہ پاکستان کا میڈیا بے محابا آزاد ہونے کے ساتھ بھی پابند ہے ورنہ وہاں فرشتوں اور چڑیوں کے استعارے نہ برتے جاتے۔ دنیا میں شاید انتہائی غیر جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہو تو ہوتا ہو ورنہ متمدن معاشروں میں تو اس مخفی پن کا رواج نہیں ہے۔ ذرائع کو ذرائع ہی کہا جاتا ہے یا پھر شعبے یا تخصیص کا تذکرہ کر دیا جاتا ہے جیسے سیاسی، سفارتی، عسکری وغیرہ۔ میری کوشش یہی رہی ہے کہ استعاروں اور تلمیحات کے استعمال سے انتہائی حد تک گریز کیا جائے۔

جو معاشرہ جتنا سیاست زدہ ( پولیٹیسائزڈ) ہوگا اس معاشرے کی سیاست اتنی ہی پیچیدہ، غبی، غیر شفاف اور کثیف ہوگی جبکہ اس کے برعکس جس معاشرے کے لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہین اور اپنے پیشے اور مہارت سے دیانتدار ہوتے ہیں وہاں لوگوں کی کثیر تعداد کا سیاست سے بس اتنا ہی واسطہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹیوں کے امیدواروں کے لیے رائے دہی کر آئیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ پارٹیاں اپنے منشور کی پابند ہوتی ہیں اور ان کے مقاصد ان کے گزشتہ اعمال و افعال کی روشنی میں واضح ہوتے ہیں۔

اس لیے جن کا کام انہیں کو ساجھے کے مصداق لوگ دوسروں کی بارات کے آگے بلا وجہ نہیں ناچتے۔ جن ملکوں میں آوے ای آوے کا غوغا ہوتا ہے وہاں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے اور پارٹیوں کا نام بھی انہیں شخصیات کے دم قدم سے ہوتا ہے مثلاً بھٹو کی پیپلز پارٹی، نواز شریف کی مسلم لیگ، عمران خان کی تحریک انصاف لیکن دوسرے ملکوں میں انتخابات کے لیے نام آنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ کون کس پارٹی سے ہے مگر پارٹیوں کے نام سب جانتے ہیں۔

جن ملکوں میں سیاست افراد یا خاندانوں اور خانوادوں کے نام پر کی جاتی ہے وہاں سیاستدانوں کا مقصد شہرت اور مالی مفادات کا حصول تو ہو سکتا ہے لیکن لوگوں کی فلاح و بہبود کا اس سے کوئی ربط نہیں ہوتا۔ سنگاپور اور ملائیشیا کی مثالیں دے کر عینیت پسندی (آئیڈیلزم) کا اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کسی بھی حوالے سے نہ تو ویسا ملک ہے اور نہ ہی آج دنیا کی معاشی اور سیاسی صورت احوال ان ادوار کی سی ہے، جن ادوار میں مذکورہ ملکوں میں ترقی کا عمل شروع ہوا تھا چنانچہ اس قسم کے تذکرے لوگوں کو للچانے اور امید دلانے کے لیے ہوا کرتے ہیں، حقیقت کا ان سے دور پار کا واسطہ نہیں ہوا کرتا۔

گزشتہ دنوں ہم پاپولزم کی بات بھی کر چکے ہیں جو آرزومند اور بے وسیلہ ملکوں میں اپنا رنگ دکھا جاتا ہے اور کسی شخصیت کو صاحب اقتدار بننے میں مدد دے جاتا ہے لیکن اس ابھار یا لہر کا عوام کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا، ہاں البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک پوری نسل کے مستقبل کی سوچوں کو تتر بتر کر جاتا ہے۔

بائیں بازو کے ایک دانشور اعجاز نے بڑی خوبصورت بات کی کہ بجائے کسی شخصیت یا پارٹی کے حامی یا مخالف ہونے کے حقیقی تبدیلی کے خواہشمند لوگوں کو چاہیے کہ ایک اپنی پارٹی بنانے کی سعی کریں چاہے اس کے بننے تک انتظار کرنا پڑے لیکن اس اثنا میں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سمجھنے اور کہنے کی عادت کو عام کرتے رہنا چاہیے۔

یہاں ایک مسئلہ ہے کہ جب آپ حقیقی تبدیلی کے خواہاں لوگوں کو بائیں بازو کا گردانتے ہیں تو چونکہ یہ اصطلاح ایک تو اپنے معانی کھو بیٹھی ہے، دوسرے اس طرف کے سیاسی میدان کا تلپٹ ہونا اس بارے میں کوئی اچھا تاثر چھوڑ کر نہیں گیا اور تیسرے پاکستان جیسے ملکوں میں امریکہ، جماعت اسلامی اور دوسرے رجعت پسند حلقوں کا پروپیگنڈا بائیں بازو کے خلاف پہلے مہیب تر تھا اور اب بھی کچھ کم نہیں۔ اس لیے لوگ بدکتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گلی محلے کی سطح پر چھوٹے چھوٹے ڈسکشن گروپ بنا کر درست انداز فکر اور تجزیہ کرنے کی بہتر شکل کو پروان چڑھانا چاہیے اور یہی ایک عوام دوست پارٹی بنانے کی بنیاد بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).