تمہارے نام کچھ دل کی باتیں


میرے پیارے

بے یقینی کے موسم میں تم مجھے آ ملے ہو۔ اس کورونا کی عالمی وبا نے زندگی کے متعلق نظریہ بدل ڈالا ہے ایک طرف غیر یقینی صورتحال ہے تو دوسری طرف اسی بے یقینی نے زندگی کی قدروں کو اجاگر کر دیا ہے۔ بوریت، بے کیف طبعیت، یکسانیت جیسے کیفیات گویا الفاظ بن گئی ہیں۔ پہلی لہر کے دوران جب ایک دم پتہ چلا کہ کیسی عفریت آن پڑی ہے کہ سب کچھ یک دم بدل گیا ہے۔ نہ تو وہ کام کی روٹین ہے، نہ ویسا سونا جاگنا، نہ کوئی وقت کی پابندی نہ کسی سے ملنا جلنا ایک دم آنکھیں کھل گئی کہ یہ کیا ہوا؟ زندگی تو اسی رنگ و بو کا نام ہے۔ اسی چہل پہل کو زندگی کہا گیا ہے۔ محبتیں، نفرتیں، غصہ پیار، اختلاف اور اتفاقات اس کا حسن ہیں۔ ایک کیفیت جو خوف کی ہے ہر کیفیت کو اپنی دبیز تہہ میں ڈھانپ لے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔

لہر ماند پڑی لاک ڈاؤن ختم ہوا مجھے یقین ہو گیا کہ کل کس نے دیکھی۔ بس آج جی لو۔ پلاننگ کر کے کیا کرنا ہے ابھی کے لمحے سے خوشی کشید کر لو۔ اس خوف کو پال کے کیا حاصل کہ جو آج ساتھ ہے کل نہیں ہوگا آج کے ساتھ کی قدر کر لو۔ دل کھول کے محبت کر لو۔ جو حاصل ہے ان نعمتوں کی قدر کر لو۔ جانتے ہو نظریہ بدل گیا۔ وہ خوف کہ کل کیا ہوگا اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ زندگی ہلکی پھلکی ہو گئی ہے۔ لب مسکرانے لگے ہیں۔ تم جانتے ہو نا پیارے کب سوچا تھا کہ تم سے ملاقات ہو گی۔ کس نے خیال کیا تھا کہ یہ ساتھ اتنا حسین لگے گا۔ میں بہت ہنستی ہوں اتنا کہ سنجیدہ بات بھی مذاق لگے۔ لیکن اب کی بار ہنسی بدل گئی ہے اس میں کھنک ہے خوشی کی، پازٹیوٹی کی۔ سمجھ آ گیا ہے کہ پازیٹیو وائبز کس قدر طاقت ور اثر رکھتی ہیں۔

کچھ عادتیں کبھی نہیں بدلتیں۔ حساسیت ایسی ہی عادت ہے۔ میں اوور سینسٹیو تو نہیں رہی لیکن اب بھی ہلکی سی پریشانی میری سیٹی گم کرنے کو کافی ہوتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو جان پاتے ہیں کہ میرا سر بگڑ گیا ہے، ردھم درست نہیں ہے تم ان میں سے ایک ہو۔ جسے پتہ چلاتا ہے اور پھر یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ گڑبڑ کا پوائنٹ کیا ہے۔

میرے پیارے

میں نے ہمیشہ چاہا کہ خوشی کی بات شیئر کی جائے ہنسا جائے اور مسائل کو کہا جائے کہ جاؤ کیا بگاڑ لو گے۔ لیکن تم پوچھتے ہو تو میں ازل کی جھلی شروع سے آخر تک کہانی سنانے بیٹھ جاتی ہوں۔ کبھی مسکراتے ہوئے کبھی آنسو چھپاتے لیکن کہتی ضرور ہوں۔ تم سے چھپا کے کروں گی بھی کیا۔ انسان ایسا ہی ہے اسے کوئی چاہیے جو اسے سنے اور اس کی سنے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اسے خوشی بتانے کو بھلے کوئی بھی مل جائے دکھ سنانے کو وہی چاہیے ہوتا ہے جس سے محبت ہو۔

ہم محبوب کے کندھے پہ آنسو بہانا چاہتے ہیں اسی کے لمس میں ہر دکھ کی دوا ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے بدن کی گرمی سے اپنی ٹھنڈی پڑتی سانسوں کو زندگی سے سینچتے ہیں۔ محبوب ہمارا سورس آف انرجی ہوتا ہے۔ جینے کی وجہ، حوصلہ، راستہ اور ساتھی۔ وہ نہ ہو تو سب بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس کا عکس آنکھوں کو طاقت سے بھر دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں محبت انسان کو خوبصورت کر دیتی ہے جھوٹ نہیں کہتے دراصل محبت انسان کو نکھار دیتی ہے۔

تم جانتے ہو؟ کہ تم نے مجھے کھل کے کہنا سکھایا ہے۔ بات کو گھما کے کرنا ایک ہنر سہی لیکن یار یہ کیا کہ کسی ایک کے سامنے بھی سیدھی بات نہ کہی جا سکے۔ جس کے سامنے سوچنا نہ پڑے کہ کیا سوچے گا، بس کہہ دو بغیر سوچے بغیر ڈرے دل کی سیدھی زبان پہ۔ تم کہتے ہو زندگی دل کی دھڑکن کی مانند ہے اس میں اتار چڑھاؤ ہیں اگر یہ نہ رہیں تو لکیر سیدھی ہو جاتی ہے۔ مطلب دھڑکن رک گئی۔ زندگی ختم۔ کتنا سچ کہتے ہو۔ لیکن جانتے ہو ہر اتار چڑھاؤ صرف ایک جذبے سے آسان ہوتا ہے وہ جذبہ محبت ہے۔ ساتھ کا احساس ہے جو بتاتا ہے کہ کسی خوشی میں آپے سے باہر ہونا ہے نہ کسی غم میں بالکل نڈھال کہ کوئی آپ کے سات ہے جس ہاتھ کو تھام کے آگے بڑھنا ہے وہی ایک ڈھال ہے۔

بڑی بڑی باتیں لمبے چوڑے فلسفے اب مجھے اپیل نہیں کرتے زندگی کو الجھانے کا فائدہ۔ اسی کے بہاؤ میں بہتے جاؤ۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ کہاں اتار چڑھاؤ آتے ہیں بس بات اتنی سی ہے ایک محبت بھرا لمس ساتھ ہو جو بتائے کہ تم اکیلے نہیں کوئی ہے جو ساتھ چلتا ہے جس کا سہارا ہر مشکل۔ کو آسان کیے جاتا ہے۔

میرے محبوب!

یہ سمجھو کہ یہ کسی میٹا مارفوسسز کا عمل ہے ابھی ہلکی پھلکی تبدیلی ہے یہ جانے بغیر کہ میں کس رنگ میں تکمیل پاؤں گی میں جاننا نہیں چاہتی پہلی بار مجھے اس بات کی تمنا نہیں کہ میں جذبات اور احساسات کا آپریشن کروں انہیں سمجھوں اور پھر دریافت کے بعد آگے بڑھ جاؤں۔ مجھے پوری طرح سے پتہ چل گیا ہے کہ کوئی چیز انسانوں کو باہم جوڑتی ہے تو وہ احساسات اور جذبات ہیں۔ محبت افریقہ کے جنگل میں رہنے والے کسی باشندے کی ہو یا کسی ترقی یافتہ ملک میں رہنے والے کی ایک سی ہوتی ہے۔

احساسات ہمیں جوڑتے ہیں، یکجان کرتے ہیں۔ ہماری سوچ، نظریات، سکول آف تھاٹس مختلف ہو سکتے ہیں رائے مشرق اور مغرب جتنے اختلاف کی حامل ہو سکتی ہے لیکن جذبات و احساسات میں دوئی نہیں ہو سکتی۔ شاید تم ہنسو یا شاید تمہیں لگے کہ میری بات درست ہے لیکن مجھے تمہیں یہ سب کہنا ہے۔ میں جو آج تک یہ سمجھتی آئی کہ روایت اور جدید طرز فکر نے محبت و نفرت کو بدل ڈالا ہے میرا خیال یکسر بدل چکا ہے۔ احساسات و جذبات زماں و مکان کی پابندی سے ماورا ہیں۔

ہمیشہ سے ہیں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ کوئی دریافت نہیں ہے ایک احساس ہے جس نے میرے من کو ہلکا کر دیا ہے۔ کیا کہتے ہو مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ تم نے ایک در مجھ پہ وا کر دیا۔ یا پھر اس احساس کو زندہ رکھنا چاہیے جو مجھ میں بیدار ہوا ہمیشہ کی شکر گزاری کے ساتھ۔ تمہارے انداز کو لاشعوری طور پہ اپنا کے، تمہاری سوچ کی روشنی کو جذب کر کے اور تمہارے الفاظ کی سچائی کی چاشنی کو سمجھ کے۔ مجھے لگتا ہے زیادہ ضروری ہے کہ تمہاری خصوصیات میری ذات کا حصہ بنیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں۔ میری سانس کے ساتھ چلیں اور سانس کے ساتھ ختم ہوں کیونکہ وہ لوگ جن سے ہم محبت کرتے ہیں وہ ہم میں بستے ہیں، ہنسی، بات کے انداز، سوچ، احساس، ادا اور انداز کی صورت ان کا ساتھ تب تک رہتا ہے جب تک ہم زندہ ہیں۔ میرے ساتھ رہو میری ذات کا حصہ بن کر ۔

محبت کے ساتھ
ثنا بتول درانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).