نوشابہ کی ڈائری قسط 16-کراچی پر ایم کیوایم حقیقی کا راج قائم ہو چکا ہے


17 دسمبر 1992۔

کیسی ہو ڈائری! آج تمھیں کتنے عرصے بعد چھوا ہے۔ میں اتنی بدل گئی ہوں کہ تمھارے صفحات کو میری انگلیوں کا لمس اجنبی لگ رہا ہوگا، کیوں نہ لگے، اس لمس میں کسی اور کی خوشبو جو بس چکی ہے۔ کتنا بدلاؤ آ گیا، ذیشان جو غیر تھا اب اس سے زیادہ اپنا کوئی نہیں، گھر میکا ہو گیا، ذیشان کے والدین امی ابو ہو گئے، اس کے سارے رشتے میرے رشتے بن گئے۔ ملیر سے لیاقت آباد آئی ہوں، لیکن لگتا ہے ایک نئی دنیا میں آ گئی ہوں۔ سوچا تھا بی اے کا نتیجہ آنے کے بعد شادی ہوگی، لیکن ذیشان کی فارماسیوٹیکل کمپنی میں ملازمت ہوتے ہی ان کے گھر والوں نے اتنا اصرار کیا کہ امی ابو کو ماننا ہی پڑی۔

بدلاؤ میری زندگی ہی میں نہیں آیا پورا شہر ہی بدل گیا ہے۔ کل جو دیواریں الطاف حسین کے صدقے واری جاتی تھیں اب ان پر ”الطاف بھگوڑا، لندن دوڑا“ جیسے نعرے لکھے ہیں۔ جگہ جگہ لگی الطاف حسین کی قد آدم تصویروں پر سیاہی پھیر دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے راہ نما اور گلی گلی بستے کارکن ایسے غائب ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ ہر طرف سناٹا ہے، خوف ناک سناٹا۔ مجھے یاد ہے، میں ذیشان کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھی اڑی جا رہی تھی۔

ذیشان نے کہا تھا، ”چلو تمھیں تمھارے امی ابو سے ملا لاؤں“ ہم سڑک پر پہنچے تو دور سے آتے فوجی ٹرک تیزی سے ہمارے پاس سے گزرے اور آگے چوک پر جاکر رک گئے۔ ان سے کود کود کر بہت سے لوگ اترے، شلوار قمیص میں ملبوس، ہاتھوں میں کلاشنکوفیں، چہرے پر فاتحانہ مسرت۔ وہ نعرے لگاتے آگے بڑھے۔ ان کے اترتے ہی ٹرک جس تیزی سے آئے تھے اس سے بھی تیزرفتاری کے ساتھ جا چکے تھے۔ گھبراہٹ میں موٹر سائیکل بند ہو گئی تھی، میں ذیشان کا ہاتھ تھامے ایک دکان کے سائبان کے نیچے بہت سے سہمے ہوئے لوگوں کے ساتھ کھڑی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

لگ رہا تھا جیسے سنیما کے پردے پر کوئی ایکشن فلم چل رہی ہے۔ ٹرک سے اترنے والے لوگ سڑک کے پار بنے ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس پر لگا تالا توڑ رہے تھے۔ ان میں سے کچھ دیوار پر بنی الطاف حسین کی تصویر پر اپنے پان بھرے منہ سے پیک تھوک رہے تھے، پہلے ایک آگے بڑھ کر تھوکتا اور قہقہہ لگاتا، ساتھ اس کے دیگر ساتھی بھی ہنستے اور آفاق احمد اور عامر خان کے حق میں نعرے لگاتے، پھر دوسرا بڑھ کر تصویر پر پچکاری مارتا، پھر تیسرا۔

اتنے میں ایک بچہ چھوٹی سی بالٹی اور برش لیے تیز تیز چلتا ان کے پاس آیا۔ پیک تھوک کر پلٹتے لڑکے نے اس سے بالٹی لی اور برش ڈال کر تصویر پر کالک پھیرنا شروع کردی۔ آج پہلی بار سیکٹر آفس پر تالا لگا دیکھا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹ کر نیچے آ گرا۔ اسلحہ بردار شور مچاتے سیکٹر آفس کے اندر داخل ہو گئے۔ ہماری گلی کے کونے پر بنے یونٹ آف پر بھی تالا پڑا تھا، جسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی، اس جگہ ہر وقت لوگوں کا مجمع لگا رہتا تھا لیکن آج الو بول رہے تھے۔

”یہ رشید کالا ہے۔ ۔ ۔ اور وہ جس کے ہاتھ میں ٹی ٹی ہے اقبال ٹیڑھا ہے“ ذیشان نے ہاتھ کو جنبش دیے بغیر آنکھوں سے سفید براق کپڑے پہنے ایک سیاہ رنگتے کے شخص کی طرف اشارہ کیا، اور میرے کان میں سرگوشی کی۔ ”تو یہ ہے رشید کالا“ وہ بائیں ہاتھ میں کلاشنکوف تھامے دائیں ہاتھ سے اپنے ساتھ آنے والوں کو جانے کیا ہدایات دے رہا تھا۔ تب تک اقبال ٹیڑھا ٹی ٹی قمیص کے نیچے پیٹ سے لگا چکا تھا اور اپنے اطراف سے بے نیاز، دیوار سے ٹک کر بڑے اطمینان سے سگریٹ سلگا رہا تھا، جیسے کوئی جرنیل جنگ جیتنے کے بعد سکون کے کچھ لمحے بتانا چاہے۔

ان دونوں ناموں کی اس علاقے میں بڑی ہیبت تھی۔ ”اختر قصائی کو رشید کالا ہائی روف میں ڈال کر لے گیا تھا، تب سے اس کا کچھ پتا نہیں“ ، ”میرے دوست منیر کو اقبال ٹیڑھے نے اس چوک پر سب کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا تھا“ ۔ ۔ ۔ ذیشان اور سسرال کے مردوں سے میں نے ان دونوں کے کتنے ہی قصے سنے تھے۔ یہ ”رشید کالے“ اور ”اقبال ٹیڑھے“ ہر محلے کے کردار ہیں، ان سے جڑی سفاکی اور دہشت کی کہانیاں اتنا ہی ڈر ڈر کے سنائی جاتی ہیں جتنی یہ ڈراؤنی ہیں، ادھر ادھر دیکھ کر، دھیمی آواز میں۔

پھر پتا چلا کے سارے شہر میں یہی کچھ ہوا ہے۔ اندرون سندھ ڈاکوؤں کے خلاف شروع کیا جانے والا آپریشن کلین اپ ایم کیو ایم کو دبوچ چکا ہے۔ کراچی پر ایم کیو ایم ’حقیقی‘ کا راج قائم ہوچکا ہے، جس کی قیادت آفاق احمد، عامر خان، بدر اقبال، منصور چاچا اور جانے کون کون کر رہا ہے۔ سنا ہے ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق کی منصوبہ بندی تھی کہ آپریشن کی صورت میں پوری تنظیم زیرزمین چلی جائے گی اور کسی مقابل فریق سے تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ اگر تصادم ہو جاتا تو اس دن شہر میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں دکھائی دیتیں۔

الطاف حسین کے اچانک لندن جانے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ہلاکتوں کی خبریں تسلسل سے آ رہی تھیں۔ سنا ہے یہ وہ لوگ تھے جو ایم کیو ایم ’حقیقی‘ کے ساتھ مل گئے تھے یا ان پر شک تھا کہ منحرف ہو چکے ہیں۔ شہاب بھائی کو بھی گولی ماری گئی، ان کے ساتھ بیٹھے ایم کیو ایم کے دو کارکن موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، شہاب بھائی شدید زخمی ہوئے مگر اللہ کا شکر ہے بچ گئے۔ وہ کتنے خوف ناک لمحے تھے، سوچتی ہوں تو لرز جاتی ہوں۔

اطلاع ملتے ہی ہم سب جناح سول اسپتال پہنچے تھے، جہاں شہاب بھائی کا خون میں لت پت جسم دیکھ کر میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ ہوش آیا تو ذیشان نے بتایا شہاب بھائی کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا ہے۔ بڑی خالہ ایمرجینسی وارڈ کے باہر بینچ پر اپنے ہاتھوں پر دوپٹہ ڈالے سر جھکائے مسلسل دعا مانگ رہی تھیں، آنسو رخساروں سے بہتے ان کی جھولی میں گر رہے تھے۔ شاہانہ باجی ان کے کندھے سے سر ٹکائے سورتیں پڑھ رہی تھیں، ان کے نہایت تیزی جنبش کرتے ہونٹ بار بار ہچکیوں کو ضبط کرتے ہوئے بھنچ جاتے۔

بڑے خالو ایک کونے میں دل تھامے سر سینے پر ڈالے بیٹھے تھے، وقفے وقفے سے وہ چہرہ ہاتھوں میں ڈھانپ لیتے اور ان کا جسم لرزنے لگتا۔ امی، ابو، بھائی جان اور خاندان کے کئی لوگ خالہ اور خالو کے گرد جمع تھے۔ جب ڈاکٹر نے آ کر بتایا کہ گولیاں نکال لی گئی ہیں اور شہاب بھائی کو ہوش آ گیا ہے، تو ہم سب کے سینوں میں اٹکی سانسوں کو راستہ ملا۔ شہاب بھائی کی حالت سنبھلتے ہی شاہانہ باجی کے شوہر انھیں علاج کے لیے لاہور لے گئے تھے۔

”علاج لاہور میں کیوں؟“ میرے پوچھنے پر شاہانہ باجی نے بتایا تھا یہاں شہاب کی جان کو خطرہ ہے۔ پھر ایک دن پتا چلا وہ بھابھی اور بچوں سمیت اپنے سالے کے پاس امریکا چلے گئے ہیں۔ ”میں نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ دل کی بات کر جاتا ہے۔ آفاق احمد اور عامر خان کو تنظیم سے نکالے جانے اور ان پر الزامات لگنے کے بعد شہاب نے کہیں کہہ دیا تھا آفاق بھائی اور عامر بھائی ایسے نہیں ہو سکتے۔ یہ مجھے اس نے ٹھیک ہونے کے بعد بتایا، جب میں اسے ائرپورٹ پر خداحافظ کہنے گیا تھا۔ کسی سے کچھ کہنا مت۔“ بھائی جان نے مجھے رازداری سے شہاب بھائی پر قاتلانہ حملے کی وجہ بتائی تھی۔ انھی دنوں ذیشان نے بتایا تھا کہ اپنے ایم کیو ایم کے دوستوں کے سامنے اس کے منہ سے ”آفاق بھائی“ نکل گیا تھا، تو ایک دوست نے فوراً ٹوکا تھا ”صرف آفاق کہو، بھائی مت لگانا۔“

ایم کیو ایم کے بارے میں اب ہر روز ایک نیا انکشاف سامنے آتا ہے۔

سچ میں اتنا جھوٹ ملا دیا گیا ہے کہ سامنے کے حقائق بھی دھندلے ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ٹارچر سیلوں سے کون واقف نہیں، لیکن جب صحافیوں کو ایک ٹارچر سیل لے جایا گیا تو وہاں بالکل نئی رسی دیکھ کر صحافیوں نے سوال اٹھا دیا۔ شہر میں ایم کیو ایم کے چار عقوبت خانوں کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا، لیکن آپریشن کرنے والوں نے ایسے 52 عقوبت خانے ڈھونڈ نکالنے کا دعویٰ کر ڈالا، جن میں سے کچھ عام سے گھروں کی چھتوں پر بھی ’دریافت‘ کر لیے گئے۔

الطاف حسین پر ملک توڑنے کی سازش سے خواتین کی عزت پامال کرنے تک ہر الزام لگایا جا رہا ہے۔ ’جناح پور‘ کا نقشہ برآمد کیا گیا، اور الزام لگایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کو الگ ریاست بنانا چاہتی تھی۔ یہ نقشہ ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر سے آپریشن شروع ہونے کے ایک ماہ بعد برآمد کیا گیا ہے۔ حیرت ہے ایم کیو ایم والوں پر کہ انھوں نے اپنے خلاف ثبوت کے طور پر یہ نقشہ چھوڑ دیا اور تعجب ہے وردی والوں پر کہ ایم کیو ایم کے دفتر کے کونے کونے کی تلاشی لینے کے باوجود آپریشن شروع ہونے کے مہینے بھر بعد نقشہ برآمد کرسکے۔

سنا ہے آپریشن کا سبب ایک فوجی میجر کلیم کا اغوا اور اس پر تشدد بنا ہے، جو لانڈھی میں اپنی جیپ پر گشت کر رہا تھا کہ اسے ایم کیو ایم کے حاجی جلال اور دیگر نے اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے گھٹنے پر گولی ماری۔ اس معاملے میں سلیم شہزاد کا نام سرفہرست ہے۔ اخبار میں تھا کہ میجر کلیم جب اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے گیا تو ایس ایچ او نے صاف کہہ دیا ”سلیم شہزاد کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔“ سلیم شہزاد کو ایم کیو ایم میں کتنی طاقت ور حیثیت حاصل تھی اور شہر میں الطاف حسین کی چھتری تلے کس طرح اس کا حکم چلتا تھا، اس بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔

الطاف حسین کی تصویروں پر ملی کالک اور پڑے جوتوں کے ہار دیکھ کر تو لگتا ہے یہ کہانی ختم ہوئی۔ وہ لندن میں بیٹھے تقریریں کر رہے ہیں اور یہاں پورا شہر ان کے مخالفین کے قبضے میں ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عام مہاجر سارے الزامات سننے کے باوجود نہ ایم کیو ایم سے متنفر ہوئے ہیں نہ الطاف حسین سے، بلکہ جو لوگ الطاف حسین کی مخالفت میں بولتے تھے اب وہ بھی ان کے ہم درد ہوتے جا رہے ہیں۔ ذیشان کے تایا ابو کتنے خلاف تھے ایم کیو ایم کے۔

جب اخبارات میں آیا کہ الطاف حسین کی شبیہ پتوں اور پتھروں پر نمودار ہوئی ہے اور ایم کیو ایم والوں نے اپنے ”پیر صاحب“ کی ان شبیہوں کو کرامت بنا کر چرچا کرنا شروع کیا تو اکثر لوگوں کو اس پر ذرا بھی شبہ نہیں تھا، اچھے خاصے معقول لوگ بھی اس تماشے کو سچ باور کرانے کے لیے الٹے سیدھے دلائل دیتے تھے۔ اس ”کرشمے“ پر میرا اور ذیشان کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا۔ جس پتھر پر شبیہ نمودار ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا وہ ایک مسجد کے صحن میں لگے ٹائل پر ابھری تھی، جسے اکھاڑ کر نائن زیرو پر ”زیارت“ کے لیے رکھ دیا گیا تھا۔

کروٹن کے وہ پتے جن پر الطاف حسین کی ”چھاپ“ تھی، کسی کے گھر سے ”دریافت“ ہوئے تھے۔ ذیشان نے بتایا کہ ایک پتے پر شبیہ کا آنا ان کے صحافی دوست فرحت شیر خان کی کارستانی ہے۔ فرحت شیر خان نوائے وقت میں ہیں۔ ایک دن فرحت نے دفتر کی مسجد میں رکھے گملے میں لگے کروٹن کے پودے کے ایک پتے پر دھبا دیکھ کر ازراہ مذاق اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا ”یہ الطاف حسین کی شبیہ ہے“ دفتر کے عملے میں شامل ایم کیو ایم کے ایک ہم درد نے یہ اطلاع اپنے مرکز کو پہنچا دی۔

کوئی آدھے گھنٹے بعد کچھ لوگ دندناتے ہوئے نوائے وقت کے دفتر میں گھسے اور وہ گملا اٹھا کر لے گئے۔ اور جب الطاف حسین عمرے پر گئے تھے تو یہ خبریں جاری کی گئیں کہ عمرے کی ادائیگی کے دوران ان سے کچھ بزرگ ملنے آئے اور ہاتھ ملاتے ہی غائب ہو گئے۔ ذیشان کہنے لگے، ”وہ بزرگ ٹیکسی والے ہوں گے، آ کر کہا ہوگا کرایہ تو دے دو بھائی صاحب۔“ یہ سب سن کر تایا ابو بولے، ”بس کچھ دنوں میں اس پر الہام نازل ہونے والے ہیں۔ گاندھی جی عدم تشدد کا نعرہ لگا کر مہاتما بنے تھے، یہ کلاشنکوف لہرا کر مہاتما بنے گا، مہاجر مہاتما۔“ لیکن آپریشن کے بعد تایا ابو کی سوچ بہت بدل گئی ہے۔ ایک دن کہہ رہے تھے، ”جنھوں نے حیدرآباد اور اورنگی میں سیکڑوں لوگوں کا خون بہایا انھیں کوئی نہیں پوچھتا، سب بے چارے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔“

اب ہر علاقے میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر ’حقیقی‘ والوں کا قبضہ ہے۔ ایم کیو ایم کا ترجمان رسالہ ”پاکیشیا“ انھیں بڑی نفرت اور تضحیک کے ساتھ ”قی قی“ اور ”خارجی“ لکھتا ہے۔ اس رسالے میں بعض دفع کتنی گھٹیا زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ایک شمارے میں مولانا احترام الحق تھانوی کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کا نام کوئی توتلا لے تو کیا نتیجہ ہوگا، ’تکبیر‘ کے ایڈیٹر صلاح الدین کے بارے میں بھی اسی طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔

ایسی زیادہ تر تحریریں عامر لیاقت حسین کی ہوتی ہیں۔ مولانا احترام الحق کی بھد اس لیے اڑائی گئی کہ جب عظیم احمد طارق کئی ماہ کی روپوشی ختم کر کے نمودار ہوئے، تو مولانا احترام الحق تھانوی نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔ عظیم احمد طارق کو سب پسند کرتے ہیں۔ منظر عام پر آنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ایم کیو ایم اور پارٹی کے کارکنوں کو بچانے کے لیے نکلے ہیں۔ الطاف حسین کو ان کا یہ اقدام پسند نہیں آیا، انھوں نے تنظیم کی ساری ذمے داری عظیم طارق کے حوالے کر کے قیادت سے دست برداری کا اعلان کیا لیکن ان کے بیانات کا سلسلہ جاری رہا۔

ایم کیو ایم کی ’رابطہ کمیٹی‘ کے سربراہ اشتیاق اظہر، عظیم طارق پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ اب تو صاف لگتا ہے کہ الطاف حسین اور عظیم طارق کے راستے الگ ہو چکے ہیں اور عظیم طارق کی قیادت میں ایم کیو ایم کا تیسرا گروپ بن گیا ہے۔ کراچی کے سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستار، زریں مجید، طارق جاوید عظیم طارق کے ساتھ ہیں۔ عظیم طارق کے سامنے آنے کے بعد مہاجروں کا حوصلہ بڑھا ہے، ورنہ تو لگ رہا تھا ہم اچانک یتیم ہو گئے۔

ایم کیو ایم سے مہاجروں کا عجیب سا تعلق ہے۔ اس سے ڈرتے بھی ہیں اور دوسروں سے ڈر کر اس کے سائے میں پناہ بھی ڈھونڈتے ہیں۔ نوشاد چچا کہتے ہیں، ”ایم کیو ایم بننا نہیں چاہیے تھی، اب بن گئی ہے تو اسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔“ نوشاد چچا کی شخصیت کتنی خوب صورت ہے۔ ذیشان نے جب ان کا تعارف کراتے ہوئے بتایا تھا، ”یہ ہیں میرے نوشاد چچا۔ ہمارے کسی جھگڑے کا انھیں مت بتانا، صحافی ہیں خبر چھاپ دیں گے“ تو میری خوشی دیکھنے والی تھی۔

مجھے صحافی ہمیشہ سے بہت دل چسپ اور پراسرار لگتے ہیں، جن کی ہر جگہ رسائی ہوتی ہے، اور جو ہر راز سے واقف ہوتے ہیں۔ نوشاد چچا کے گھنے کھچڑی بال، آنکھوں پر جمی عینک کے پیچھے چمکتی آنکھیں اور چہرے سے جھلکتی ذہانت ہی بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ صحافی ہوں گے۔ ساتھ والے گھر ہی میں رہتے ہیں، لیکن گھر میں کم ہی رہتے ہیں۔ صبح چار بجے دفتر سے آتے ہیں، دو بجے تک سوتے ہیں، کھانا کھا کر پھر نکل جاتے ہیں۔ کہہ رہے تھے پہلے پریس کلب جاتا ہوں وہاں سے آفس۔

میں نے پوچھا آپ رپورٹنگ کرتے ہیں، کہنے لگے ”رپورٹنگ چھوڑے عرصہ ہو گیا، اب تو نائٹ ڈیسک پر ہوں۔“ ان کا کمرا، اف۔ ۔ ۔ کتابوں کا خزانہ ہے۔ میں نے کہا ”نوشاد چچا! میں آپ کی کتابیں پڑھ سکتی ہوں۔“ یہ سن کر ایسے خوش ہوئے جیسے میں نے کتابیں مانگی نہ ہوں پیش کی ہوں۔ بولے، ”سب مجھ سے کوئی کام کروانے کا کہتے ہیں، تم پہلی فرد ہو جس نے کتابیں مانگی ہیں، جب چاہو جو کتاب چاہو لے جاؤ اور پڑھ کر واپس وہیں رکھ دو۔“ اتنی بڑی آفر، میری تو عید ہو گئی۔

آخر میں وہ بھی لکھ دوں جو لکھتے ہوئے سرور کی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ پچھلے ہفتے لیڈی ڈاکٹر سے مل کر آئی ہوں تب سے مجھ پر مجھ ہی میں ایک حیرت کا جہاں کھل رہا ہے، نس نس میں خوشی لہریں مار رہی ہے۔ میں ایک وجود تخلیق کرنے جا رہی ہوں۔ اف خدایا یہ احساس، یہ حسین احساس۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہےنوشابہ کی ڈائری 17: عظیم طارق کے قتل پر ہر ایک دکھی ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).