کاسترو کو کوئی نہیں مار سکا، محبوبہ بھی نہیں


عدالت لگی ہوئی ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی کی تقریباً پوری قیادت کرسیوں پر براجمان ہے۔ ججزحیدر آباد سازش کیس کا متنازعہ مقدمہ سن رہے ہیں۔ جن پر غدار وطن کا الزام ہے ان میں بلوچ سیاستدان نواب خیر بخش مری بھی شامل ہیں۔
ججز، حکومتی کارندے اور ان کے ساتھی سبھی حیران ہیں کہ کم گو نواب خیر بخش مری نے بھی بلاخر عدالت کو اس قابل سمجھا کہ اپنے صفائی میں کوئی بات کرے۔
مگر نواب مری نہ قانون کی مو شگافیوں میں الجھے اور نہ ہی کوئی طویل سیاسی تقریر کی۔
انہوں نے جج سے جو چند باتیں کیں ان میں یہ جملہ بھی شامل تھا ”تاریخ مجھے بے گناہ ثابت کرے گی“

حقیقت میں یہ الفاظ ہزاروں میل دور کیوبا میں بیٹھے خیر بخش مری کے انقلابی ساتھی فیدل کاسترو نے اس وقت ادا کیے تھے جب وہ اکتوبر انیس سو ترپن میں مونکاڈا فوجی اڈے پر ہونے والے حملے میں ایک ملزم کے طور پر عدالت میں اپنی صفائی پیش کررہے تھے۔
“تاریخ مجھے بے گناہ ثابت کرے گی ” ان کے تقریباً چار گھنٹے کی طویل تقریر کا یہ آخری جملہ تھا۔

غداری کی بات چل نکلی تو شیخ مجیب الرحمن یاد آئے۔
1973 میں غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس کے موقع پر جب فیدل کاسترو کی ان سے ملاقات ہوئی تو فیدل نے کہا ” میں نے ہمالیہ نہیں دیکھا ہے البتہ میں نے شیخ مجیب کو دیکھا ہے، ان کی شخصیت اور دلیری ہمالیہ کے مانند ہیں۔ لہذا میں ہمالیہ کو دیکھ چکا ہوں“

ہفتے کی صبح جب فون کی سکرین پر فیدل کاسترو کے وفات کی بریکنگ نیوز نمودار ہوئی تو ذہن کے پردے پر یہ واقعات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلو اور مراحل فلم کی طرح چلنے لگے۔

ستائیس سالہ نوجوان جب 1953 میں باتستا آمریت کے خلاف اٹھتے ہیں تو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا کہ ایک دن وہ ایک تاریخ رقم کریں گے۔
انہوں نے فقط 82 ساتھیوں کی مدد سے ایک ایسی گوریلا جنگ لڑی کہ تقریباً ساٹھ سال بعد بھی دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ”حریت پسند“ گوریلے اس تحریک سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔
کسی نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ نوجوان ایک دن دنیا کی دو سپر پاورز سوویت یونین اور امریکا کو جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کردیں گے۔
اور یہ بھی کہ باتستا آمریت سے نجات پانے کے بعد یہ نوجوان خود ایک ایسے ڈکٹیٹر بن جائیں گے کہ صرف ضعیف العمری ہی انہیں اقتدار کی کرسی سے علیحدہ کرسکے گی۔

وہ لگ بھگ 47 سال تک کیوبا کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ امریکہ کے بغل میں رہتے ہوئے یہ کیمونسٹ سربراہ نوے سال کی طویل زندگی پا سکے گا۔ ؟
جہاں سوویت یونین جیسی پاور ٹک نہ سکی وہاں فیدل نے امریکہ سے فقط 90 میل کے فاصلے پر کیوبا کی کیمونسٹ رژیم کو بچائے رکھا۔
یہ سوال خود فیدل نے اٹھایا پھر خود ہی جواب میں کہا کہ ” میں نے امریکا کے ساتھ ہمیشہ آئیڈیاز کی جنگ لڑی ہے۔ اور آئیڈیا اسلحے سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ “

کیوبا پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہوگئی تھی کہ ان کے دشمنوں نے سوچا کہ اگر کیوبا کو مارنا ہے تو فیدل کو مارنا ہوگا۔

اسی لئے ان پر 638 مرتبہ قاتلانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ پھر بھی موت گولی، زہر اور دھماکہ خیز مواد کی روپ میں نہیں آئی۔
عمر بھی طویل پائی اور موت بھی طبعی۔
اسائنس دانوں نے لیباریٹری میں ان کے قتل کے لئے جدید زہریلی دوائیاں بنائیں، مخالف سیاستدانوں نے سینکڑوں خفیہ ملاقاتیں کیں، منصوبے بنائے، مافیا سے مدد لی گئی، قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے ان کے مارنے کے پیسے لئے حتی کہ محبت کو قتل کے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا پھر بھی فیدل زندہ رہا۔
انہیں خود بھی یقین تھا کہ انہیں کوئی بھی مار نہیں سکتا۔

ان کی محبوبہ ماریتا لورنز جب زہریلی کیپسول سے انہیں مارنے میں ناکام ہوئی تو فیدل کاسترو نے اپنی پستول نکال کر انہیں تھما دی اور خود بیڈ پر دراز ہو کر انہیں گولی چلانے کا کہا۔

ماریتا نے ایک منٹ تک پستول تھان لی۔ ٹریگر پر پڑی انگلی ساکت ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے،
کہا ” میں تمہیں نہیں مار سکتی ”
فیدل اٹھے اور ہنس کر کہا ” نہیں تم مجھے نہیں مار سکتی۔ دراصل مجھے کوئی بھی نہیں مار سکتا“
بظاہر یہ ایک فلمی سین ہے، پر حقیقت میں ایسا ہی ہوا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا حقیقی زندگی میں بھی ایسا ممکن ہے؟
شاید نہیں کیونکہ نہ ماریتا لیلی تھی اور نہ ہی فیدل مجنون۔
مجھے اس سوال کا جواب تبھی ملا جب کچھ عرصے پہلے انڈین کیمونسٹ رہنما سیتارام یچوری کی زندگی پر بی بی سی ہندی کی ایک خصوصی رپورٹ سنی۔
سیتا رام اور فیدل کاسترو کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوچکا تھا۔
ایک دفعہ فیدل نے سیتا رام کو اپنی پستول کے بارے میں ایک راز کی بات بتائی تھی۔
فیدل نے کہا تھا کہ میری پستول ہمیشہ خالی رہتی ہے اور وجہ یہ ہے کہ مجھے کسی بھی بے گناہ کی جان بہت عزیز ہے۔ اس خوف سے پستول میں گولی نہیں رکھتا کہ کہیں غصے میں آکر کسی بے گناہ کی جان نہ لوں۔ شاید فیدل کاسترو نے یہی خالی پستول اپنی محبوبہ کو تھما کے دی تھی۔

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں

Nov 26, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments