پب جی: انڈیا میں موبائل ویڈیو گیم پر پابندی پاکستانی گیمرز کے لیے بھی موضوع بحث بن گئی


انڈیا اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی کے پس منظر میں انڈین حکومت نے مزید 118 چینی موبائل ایپس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

حالیہ پابندی سے متاثر ہونے والی ایپس میں موبائل ویڈیو گیم ’پب جی‘ اور میسجنگ ایپ ’وی چیٹ ورک‘ شامل ہیں۔ اس سے قبل انڈین حکومت نے قومی سلامتی کے خدشات کے باعث مشہور ایپ ’ٹک ٹاک‘ سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی لگائی تھی۔

سوشل میڈیا پر پب جی کے انڈین کھلاڑیوں نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ کئی لوگوں کے مطابق انڈین حکومت کا یہ فیصلہ صحیح ہے۔ پاکستان میں بھی پب جی سے متعلق یہ فیصلہ زیر بحث ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: ‘غیر اخلاقی، غیر مہذب‘ مواد کے باعث پانچ ڈیٹنگ ایپس پر پابندی

’پب جی‘ پر پابندی کا فیصلہ کالعدم، فوری بحال کرنے کا حکم

پاکستان میں گیمنگ: ٹوکن والی گیم سے ٹیکن تک کا سفر

آن لائن گیم پب جی میں موبائل پر مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ یا خلاف مقابلے کر پاتے ہیں۔ یہ گیم پاکستان اور انڈیا دونوں ہی کے نوجوانوں میں مقبول ہے اور اس طرح ان میں رابطے قائم کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

نامت نامی انڈین صارف نے جب پب جی پر عائد ہونے والی پابندی پر اظہار افسوس ظاہر کی تو ایک پاکستانی صارف نے انھیں جواب میں لکھا کہ ’میں پاکستان سے ہوں لیکن مجھے پھر بھی بُرا لگ رہا ہے۔ آپ لوگ اچھا کھیلتے تھے۔ انڈیا کے پلیئرز بہت اچھے ہیں۔‘

فیضی راجپوت نے لکھا کہ ’اب میں میوٹ (آواز بند کر کے) کر کے پب جی نہیں کھیل سکوں گا۔‘

انعم نے اعتراض اٹھایا کہ پاکستان اور انڈیا میں ایسے فیصلے کیوں کیے جا رہے ہیں۔ ’پہلے پاکستان اور اب انڈیا میں پب جی پر پابندی لگ چکی ہے۔‘

شاہزیب کہتے ہیں کہ ’ہمارے ملک میں پب جی پر عارضی طور پر پابندی لگی تھی لیکن شاید انڈیا میں مستقل لگ گئی ہے۔‘ انھوں نے اپنے انڈین دوستوں کو ٹیگ کرتے ہوئے اُن کے غم میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔

صبا کریم نے لکھا کہ ’انڈیا نے پب جی پر پابندی لگا دی اور پاکستان نے ٹنڈر پر۔ دونوں ملک اپنے شہریوں کی خوشیاں چھیننا چاہتے ہیں۔‘

دھوال نامی انڈین صارف نے طنزیہ لکھا کہ ’انڈیا میں پب جی بین ہو گئی لیکن پاکستان جا کر تو کھیل سکتے ہیں، بھائیو، بہنوں؟‘

لیکن انڈیا اور پاکستان کے بعض حلقوں میں اس پابندی کا خیر مقدم بھی کیا گیا۔

ابھیمنیو نامی صارف نے لکھا کہ ’یہ انڈیا کی جانب سے بہترین اقدام ہے۔ اس سے انڈیا کے مستقبل کے لیے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بچ جائیں گی۔‘

انڈیا نے چینی ایپس پر پابندی کیوں لگائی؟

انڈیا میں آئی ٹی کی وزارت نے کہا ہے کہ ان کی ’قابل اعتبار معلومات‘ کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایپس انڈیا کے مفادات کے خلاف کام کر رہی تھیں۔

118 میں سے کچھ ایپس ایسی بھی ہیں جو انڈیا میں کافی مقبول ہیں جیسے بیدو کی دو ایپس، کیم کارڈ بزنس کارڈ سکینر، ای کامرس ویب سائٹ علی بابا میں ادائیگیوں کے لیے استعمال ہونی والی علی پے، سینا نیوز اور آن لائن گیم مارول سپر وار۔

انڈین وزارت کا کہنا ہ کہ اسے ’مختلف ذرائع‘ سے ان ایپس سے متعلق کئی شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ یہ بغیر اجازت کے صارفین کا ذاتی ڈیٹا چوری کرتی ہیں اور اسے انڈیا سے باہر موجود سرورز میں منتقل کرتی ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا کے دفاع اور قومی سلامتی کو درپیش اس خطرے کے باعث ہنگامی بنیادی پر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

انڈیا واحد ملک نہیں ہے جسے ان چینی ایپس پر تشویش ہے۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ انھوں نے امریکی کمپنیوں کو وی چیٹ کے ساتھ کسی کاروبار سے گریز کرنے کا حکم دیا تھا۔

پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے پب جی پر لگائی گئی پابندی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

انڈیا اور چین کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی

انڈیا چین

گذشتہ پیر کو انڈیا اور چین کی سرحد پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان لداخ سیکٹر میں کشیدگی ہوئی تھی جس کے بعد چین نے انڈیا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ان علاقوں سے اپنے فوجیوں کو فورآ واپس بلائے جہاں انھوں نے ’دراندازی‘ کی ہے۔

انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا نے پینگونگ سو جھیل کے جنوبی کنارے پر انڈین زمین پر قبضہ کرنے کی چینی کوشش کو پسپا کر دیا ہے۔

انڈیا اور چین کے فوجی اہلکار ایل اے سی پر کشیدگی کم کرنے کے لیے گذشتہ جون سے فوجی اور سفارتی سطح پر نو راؤنڈز کے مذاکرات کر چکے ہیں لیکن بظاہر کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو ‎سکی ہے۔

انڈیا کا مطالبہ یہ ہے کہ چین ٹکراؤ سے پہلی والی پوزیشن پر واپس چلا جائے۔ لیکن چین اب پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اس نے اب کئی نئے علاقوں پر دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp