سیاست کا جال اور کراچی


”جب بارش ہوتا ہے تو پانی آتا ہے اورجب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے“ ابھی لوگ بلاول بھٹو کے اس دلچسپ انکشاف کے مزے ہی لوٹ رہے تھے کہ سیلابی پانی آ گیا۔ عروس البلاد کراچی دنیا کا آٹھواں بڑا شہر، 30 سالوں کی منجھی ہوئی سیاسی قیادت کے سامنے پانی پانی ہو گیا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ آج خواص بھی عوام بن گئے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے والی حکومت کو نکاسی آب اور بجلی کی فراہمی کا خیال ہی نہیں آیا اور ان پانچوں بنیادی ضرورتوں سے محروم عوام آج سڑکوں پر ہیں۔ کتوں کے کاٹے سے، پانی کے ڈسے عوام کو سنبھالنے میں ناکام حکمرانوں کو خیال آیاتو یہ کہ اگر 10 ارب ڈالر مل جائیں تو بات بن جائے۔ کراچی کی قسمت سنور جائے۔۔۔ واہ رے قسمت۔ حق لینے کے لیے بھی کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔

شاہراہ فیصل سے کلفٹن، اورنگی ٹاؤن، ناردرن بائی پاس، ملیر، نیو ناظم آباد، ڈیفنس اور بے شمار کالونیز، گوٹھ کوئی ایک علاقہ جو سندھ حکومت کی عملداری میں ہو اوربحال ہو؟ کراچی میں اربن فلڈنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ 2000 سے اب تک ایسا 6 بار ہو چکا ہے۔ 2006، 2011، 2012، 2013، 2019 اور اب 2020 میں۔ کراچی میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کی بڑی تعداد کچی آبادیوں میں رہتی ہے اور سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق کراچی میں 5,639 کچی آبادیاں ہیں جو زیادہ تر نکاسی آب کے بڑے نالوں پر واقع ہیں۔ اربن فلڈنگ سے جہاں یہ آبادیاں متاثر ہوتی ہیں وہاں باقی شہر کے ڈوبنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بارش اللہ کی رحمت ہے لیکن کراچی میں انسانوں نے اپنی اپنی سیاست کا جو جال بچھایا اس سے آج یہی رحمت جگہ جگہ تجاوزات، کوڑے سے اٹے ندی نالوں اور سیاسی رشوت خوری کی وجہ سے پورے شہر کے لیے زحمت بن گئی۔ ملیر ندی، گجر نالہ، محمود آباد نالہ، نہر خیام سب بھرے پڑے ہیں۔ بارش کے پانی اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر کراچی میں پچھلے تین چار سالوں میں جو سیاست ہوئی اس سے کون واقف نہیں۔ نالوں میں ڈالے گئے ریت کے تھیلے اور بوریاں کون بھولا ہوگا؟

کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ بیڈ گورننس ہے۔ دنیا کا آٹھواں بڑا شہر جو ملک کی معیشت میں 60 فیصد ریونیو دے اور اسے بدلے میں 10 فیصد فیڈرل فنڈ ملے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد فنڈز کی تقسیم اور کمی کا ڈھول تو سندھ حکومت ہمیشہ پیٹتی رہی لیکن اسی گراؤنڈ پر وفاق بھی ذمہ داری کا بوجھ سندھ حکومت پر ہی ڈالتی رہی۔ سپریم کورٹ بار بار دونوں حکومتوں کو حالات بہتر کرنے کی وارننگ دیتی رہی لیکن سخت ریمارکس کے باوجود کراچی سیاست کی نذر ہوتا رہا۔

یہاں لوکل باڈیز سے صوبائی اسمبلی تک تمام تر نظام میٹروپولیٹن شہر کو اہلیت سے چلانے کے بجائے سیاسی وابستگی، مافیا پرستی، اور پسند نا پسند پر چلتا ہے۔ کوئی شہر کی اونر شپ لینے کے لیے تیار نہیں تاکہ پھیلتے ہوئے شہر میں پانی، ٹریفک، ٹرانسپورٹ، سیوریج، آلودگی اور پاور سپلائی کے مسائل حل کرے۔ وسائل کا رونا رونے اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے زیادہ کوئی کام نہیں ہو پاتا۔ کراچی کے شہری حکومتوں میں ایم کیو ایم کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا۔ لیکن میئر کراچی وسیم اختر اپنے آخری خطاب تک وسائل کی کمی کارونا ہی روتے رہے۔ 1988۔ 2013 تک ایم کیو ایم کی سندھ اور قومی اسمبلی میں بھی مضبوط پوزیشن تھی تاہم کراچی کے بڑے مسائل کے دیر پا حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔

پیپلز پارٹی سندھ میں لمبے عرصے سے حکومت کر رہی ہے۔ لیکن کراچی کے مسائل کا حل اس کے بس کی بات نہیں رہی۔ حالیہ دو سال میں کئی اعلانات کے باوجود شہر سے کوڑا اٹھانے کا کام مکمل نہیں ہو سکا، بدعنوانی کے الزامات اور حکومتی ارکان کے غیر سنجیدہ رویے نے پارٹی کے امیج کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

2018 میں بننے والی تحریک انصاف کی حکومت ملک بھر کی طرح کراچی کے حالات بدلنے کے دعوے بھی کرتی رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مارچ 2019 میں کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی کی صدارت کرتے ہو ئے کراچی میں ٹرانسپورٹ، پانی اور سیوریج کے 18 منصوبوں کے لیے 162 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا۔ پھر بار بار کراچی کے سیوریج اورکوڑا کرکٹ کے مسائل کے حل کے لیے معاونت کی یقین دہانی کراتے رہے۔ حال ہی میں تین جماعتی کمیٹی کا اعلان کیا گیا جو کام کا آغاز بھی نہ کر پائی تھی کہ بارشوں نے آن لیا۔ این ڈی ایم اے نے ابھی صفائی کا کام شروع ہی کیا تھا کہ سیلاب آ گیا۔

حالیہ سیلابی صورتحال کے بعد وزیراعظم کے جمعہ کو کراچی کے دورہ شیڈول ہے جس میں دوبارہ ایک بڑے ٹرانسفارمیشن پیکج کا اعلان متوقع ہے جو کراچی کے مسائل کے مستقل حل کی بنیاد پر ہو گا۔ حکومتیں حالات کے دباؤ میں آ کر اعلانات تو کر دیتی ہیں لیکن ان اعلانات اور منصوبوں کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ تلخ ترین صورتحال کے بعد وفاق صوبے میں کامیابی سے اپنے منصوبہ پر عمل درآمد کروا سکتا ہے۔

کیونکہ تحریک انصاف ن لیگ کے ساتھ ہمیشہ پیپلز پارٹی کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور وفاقی وزراء نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ رقم صوبائی حکومت کے حوالے نہیں کی جائے گی۔ اگر سیاسی جماعتیں کراچی کا کام قومی ذمہ داری سمجھ کر کریں گی تو یہ معاشی حب پر امن، پر آسائش اور خوشحال شہر بن سکتا ہے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal