جب میرے والد کی میت نذر آتش کی گئی


(بعد از مرگ نذر اتش کئے جانے کے بارے میں وصیت پر ن۔ م۔ راشد کی بیٹی، یاسمین حسن کے تاثرات)

9 اکتوبر 1975، مانٹریال (کینڈا) کی ایک خاموش صبح تھی۔ میں اور میرے شوہر فاروق باورچی خانے کی میز پہ بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اور قریب ہی کھیلتے اپنے بچے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب میری انگریز سوتیلی ماں شیلا تھیں (جن سے میرے والد نے امی کی وفات کے بعد شادی کی تھی) جو مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ گزشتہ رات تمہارے والد کا دل کے دورے سے انتقال ہوگیا۔ یہ سن کر میں پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ اور میرے شوہر مجھے دلاسے دینے کے بعد ٹریول ایجنسی جانے کے لیے تیار ہونے لگے تاکہ وہ میرے لندن جانے کے لیے ٹکٹ کا انتظام کر سکیں۔ میرا بیٹا جس نے مجھے کبھی روتے نہیں دیکھا تھا، پوچھ رہا تھا۔ ’’مم! آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں؟‘‘۔ میں نے اسے بتایا کہ نانا جان کا انتقال ہو گیا ہے اور اس وجہ سے میں بہت دکھی ہوں اور پھر میں نے اسے گلے لگا لیا۔ ایک سال قبل جب ہم اپنے بھائی کے گھر برسلز گئے تھے تو اس دوران ابا اور میرے بیٹے کے درمیان بہت قریبی رشتہ پیدا ہوگیا تھا۔

 میں نے لاہور فون کرکے اپنے چاچا کو خبر دی۔ اور ان سے کہا کہ پاکستان میں تمام رشتہ داروں اور اخبارات کو اطلاع دے دیں۔ اس کے بعد میں نے شیلا کو جنازے کی تفصیلات کے متعلق معلوم کرنے کے لیے فون کیا کہ میت کو پاکستان بھجوانے کے کیا انتظامات کیے ہیں؟ تو انہوں نے اذیت ناک اور روح فرسا انکشاف کیا کہ میرے والد کی وصیت کے مطابق ان کی میت کو نذر آتش کیا جائے گا۔ اور سارے انتظامات ان کی وصیت کے مطابق ہی ہوں گے۔ یہ سن کر میں زار وقطار رونے لگی اور بے یقینی اورغصہ کی شدت سے کانپنے لگی۔

فاروق میرے لئے جہاز کا ٹکٹ لے کے گھر لوٹے۔ یہ معاملہ سن کر انہوں نے کہا شیلا کو اس کام سے روکنا ہو گا۔ میرے چاچا نے بھی فون کر کے یہی بات کہی۔ وہ اس وقت اپنے گھر میں ابا کے لیے قرآن خوانی کا انتظام کروا رہے تھے۔ جو کہ منسوخ کرنا پڑا۔ میں نے لندن جانے سے انکار کر دیا کیونکہ میں اپنے پیارے ابا کا جسم مشین میں جلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ شیلا نے بغیر کسی خاندان کے فرد کے اور بڑوں کی شمولیت کے ہی جنازے سے متعلق تفصیلات طے کر لی تھیں۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ سب میرے لیے شدید اذیت کا باعث تھا اور میں وہاں جا کر تناؤ کی فضا میں کوئی بد مزگی نہیں پھیلانا چاہتی تھی۔

 میرے ابا کے دوستوں نے شیلا سے پہلے ہی اس کی درخواست کی تھی مگر انہوں نے اسے قابل غور نہ سمجھا۔ میرا ستائیس سالہ بھائی میت میں شرکت کے لئے نکلا مگر جان بوجھ کر راستے سے بھٹک گیا۔ وہ وقت پہ نہیں پہنچنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ شیلا اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گی۔ ادھر میں اپنے باپ کی موت کے صدمہ سے گزر رہی تھی مگر اس سے بڑا دکھ اس بات کا تھا کہ کس طریقے سے ابا ہم سے لیے گئے۔ مجھ میں ایک خالی پن عود کر آیا۔ میں ان کے پاس ہونے کی خواہش کے باوجود نہ جا سکی۔ میرے والد نے ہمیشہ اپنی زندگی کے تمام فیصلوں سے اپنی اولاد کو باخبر رکھا۔ تو انہوں نے اپنے سب سے آخری اہم فیصلے سے ہمیں آگاہ کیوں نہ کیا؟

 کئی برس بعد جب میں نے شیلا سے پوچھا کہ کیا ان کی وصیت تحریری شکل میں ہے تو ان کا جواب تھا۔’’نہیں مگر تمھارے والد پسند کرتے اور چاہتے تھے‘‘۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابا کے انتقال سے کچھ دن قبل جب شیلا کے والد کا انتقال ہوا تھا تو اس کو دلاسہ دینے کی غرض سے انہوں نے کہا تھا کہ کیا ہی صاف ستھرا طریقہ ہے جانے کا۔ ہوسکتا ہے کہ ابا میت کو جلانے والے طریقہ کو پسند کرتے ہوں مگر انہوں نے اپنے لیے نہ چاہا ہو گا۔ بے شک وہ ایک جدید شاعرتھے مگر وہ عملی مسلمان نہ ہونے کے باوجود نظریاتی طور پہ مسلمان تھے اور ان بہت سے لوگوں سے بہتر انسان تھے جنہوں نے مسلمان ہونے کا دعوی تو کیا لیکن اچھے انسان بھی نہ بن پائے۔ میں نے انہیں رات گئے تک قرآن اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کرتے دیکھا ہے۔

ہو سکتا ہے لوگ اس بات پہ حیران ہوں کہ میں یہ نکتہ اب کیوں اٹھا رہی ہوں تو اس کا جواب اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ شاید یہی مناسب وقت ہے، اس بات کو لوگوں کو پہنچانے کا۔ شیلا کے فیصلے کی قیمت والد کو ادبی دنیا میں چکانی پڑی جہاں ان کی بہت شہرت تھی۔ کم ازکم بیس سال تک ان کی ادبی حیثیت کو نہ مانا گیا اور وہ ادب کے ناقدین کی سرد مہری کا شکار رہے۔

تحریر :یاسمین حسن

ترجمہ: گوہر تاج

(بائیں طرف سے) راشد صاحب اپنی اہلیہ شیلا اور احباب کے ہمراہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).