بابری مسجد، رام مندر تنازع: ایودھیا میں تعمیر ہونے والی ’نئی بابری مسجد‘ کیسی ہو گی، اس کے آرکیٹیکٹ کون ہیں؟


بابری مسجد

انڈیا کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا

انڈیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سُنی وقف بورڈ کو دی جانے والی متبادل زمین پر مسجد کی تعمیر میں نئی پیشرفت سامنے آئی ہے۔

دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فن تعمیرات کے ڈین پروفیسر ایس ایم اختر کو نئی مسجد کے نقشے اور تعمیرات سے متعلق ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

نومبر 2019 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا۔

اتر پردیش حکومت نے عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت ایودھیا سے تقریباً 25 کلومیٹر دور دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی سُنی وقف بورڈ کو دی ہے۔

پروفیسر اختر نے بتایا کہ اُن کا کام صرف مسجد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زمین پر ایک کمپلیکس کی تعمیر بھی ہو گی جس میں عوام کے لیے ایسی سہولیات ہوں گی جو ’خدمت خلق کے لیے اہم ہوں گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

مسجد کے لیے مجوزہ زمین پر مسلمانوں کو اعتراض کیوں؟

ایودھیا، جہاں رامائن اور اذان کی صدائیں بیک وقت بلند ہوتی ہیں

ایودھیا اور استنبول، دو عبادت گاہوں کی ’سیکولر‘ کہانی

ایودھیا: مندر کی تیاری عروج پر، مسجد سست روی کا شکار

اس کمپلیکس کو ’انڈو اسلامک کلچرل کمپلیکس‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں ہسپتال، انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر اور لائبریری جیسی سہولیات شامل ہوں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کمپلیکس کا بنیادی مقصد خدمتِ خلق ہے جو کہ کسی بھی مذہب کی بنیادی تعلیم ہے، خاص طور پر اسلام کی۔ خدمت خلق کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پر علاج اور تعلیم، انھیں اس کمپلیکس میں شامل کیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ قدیم دور میں بھی مساجد میں ایسی سہولیات ہوا کرتی تھیں جن سے عام لوگ فیض یاب ہوتے تھے۔‘

پروفیسر اختر نے بتایا کہ پانچ ایکڑ میں سے مسجد کی تعمیر پندرہ ہزار مربع فٹ پر ہو گی۔ تاہم انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس وقت یہ نہیں بتا سکتے کہ مسجد میں ایک ساتھ کتنے لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکیں گے۔

کیا نئی مسجد بابری مسجد جیسی ہو گی؟

سنہ 2019 میں سپریم کورٹ کی جانب سے متنازع زمین مندر کو دیے جانے کے حکم کے بعد سے مسلمانوں کو متبادل زمین پر نئی مسجد کی تعمیر کا انتظار ہے۔ ایسے میں نئی مسجد سے عوام کی کس قسم کی توقعات وابستہ ہو سکتی ہیں؟

اس سوال پر پروفیسر اختر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نئی مسجد کی ماضی سے مشابہت کی توقع رکھتا ہے تو اس کی وجہ جذباتی لگاؤ نہیں بلکہ اسلامی فن تعمیر کے بارے میں ’غلط فہمی‘ ہے۔

نئی مسجد کے ڈیزائن کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’ہر دور کا اپنا مختلف فن تعمیر‘ رہا ہے۔

پروفیسر اختر کا خیال ہے کہ جس طرح آپ ماضی کو کبھی اپنا حال نہیں بنا سکتے ہیں، اسی طرح فن تعمیرات میں پرانی چیزوں کو دہرایا نہیں جاتا ہے۔

’فن تعمیر کا استعمال آج کے سماج اور مستقبل کے سماج کے لیے ہونا چاہیے۔ ایک ماہر کا کام موجودہ دور کی سہولیات کو بہترین انداز سے استعمال کرنا اور موجودہ دور کے چیلینجیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمارت کی تعمیر کرنا ہوتا ہے۔‘

بابری مسجد انہدام سے قبل

سنہ 1992 میں انہدام سے قبل بابری مسجد

انھوں نے کہا ‘اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جو طرز تعمیر قرون وسطیٰ میں تھا وہی اسلامک آرکیٹیکچر ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ وہ ایک دور تھا جو گزر گیا ہے لیکن اسلام تھوڑی گزرا ہے، وہ تو آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ آپ انڈیا کے علاوہ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بھی نئی مساجد دیکھیں، ان میں نئے دور کے آرکیٹیکچر کا استعمال ہوا ہے۔ آرکیٹکچر کسی ایک دور سے بندھنے کا نام نہیں ہے۔’

پروفیسر اختر کے بقول ماضی میں اگر ضرورت ’گھوڑے کھڑے کرنے کی جگہ کی رہی ہو گی تو آج ضرورت کار پارکنگ کی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر دور میں آرکیٹکچر ضروریات کے تحت ہوتا ہے۔‘

ماضی کے بجائے حال اور مستقبل کو ترجیح

پروفیسر اختر اسلامک آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والے چھ اجلاسوں میں حصہ لے چکے ہیں اور ان میں سے تین کا انعقاد انھوں نے خود کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان اجلاسوں میں متعدد بار اس موضوع پر بات بھی ہو چکی ہے اور بڑے بڑے فن تعمیر کے ماہر اس میں اپنا کام پیش کر چکے ہیں۔

ان کے مطابق اس میں جنوبی انڈیا کی ایک ایسی مسجد بھی پیش کی گئی جسے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے چیلنج کے پیش نظر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ’وہ مسجد ایک بھی یونٹ بجلی باہر سے نہیں لیتی ہے۔ ایسے ہی چیلینجز کو ہمیں دھیان میں رکھنا ہے ناکہ ماضی کی یاد کو۔‘

پروفیسر اختر نے کہا کہ ’نئی مسجد کے کمپلیکس کے ڈیزائن میں کن باتوں پر زور ہو گا یہ ابھی کہنا جلد بازی ہو گی، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس میں ماضی کی یاد نہیں بلکہ صرف جھلک ہو سکتی ہے۔ اس مسجد میں حال اور مستقبل کی ضروریات کو اہمیت دی جائے گی۔‘

مسجد کی تعمیر میں کتنا وقت لگے گا؟

انڈو اسلامک کلچرل سینٹر کو مکمل طور پر تیار ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ یہ پراجیکٹ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔

پروفیسر اختر کہتے ہیں کہ ’طے شدہ مدت سرکاری منصوبوں میں ہوتی ہے جہاں ہر چیز مختص کر دی جاتی ہے، بجٹ سے لے کر سہولیات تک۔ مسجد کے کمپلیکس کے پراجیکٹ میں تو ابھی تمام مراحل باقی ہیں، جیسے جیسے پیسہ آئے گا پراجیکٹ آگے بڑھے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ پہلا مرحلہ کمپلیکس کے ’کانسیپٹ‘ کا ہو گا جب یہ تیار ہو جائے گا تو پھر ڈیزائن اور تب جا کر تعمیر کا مرحلہ آئے گا۔ ابھی تو اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے میں لگنے والا وقت، فنڈز کی فراہمی پر منحصر ہے۔‘

سنی وقف بورڈ نے اس کمپلیکس کے لیے ایک انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن تشکیل دی ہے جس کے زیر نگرانی کمپلیکس تیار ہو گا۔

اس دوران فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے فاوٴنڈیشن کی جانب سے دو علیحدہ بینک اکاؤنٹ کھولے جائیں گے۔ ان میں سے ایک اکاؤنٹ میں مسجد کے لیے اور دوسرے میں بقیہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے عطیہ جمع کیا جائے گا۔

پروفیسر ایس ایم اختر کون ہیں؟

پروفیسر ایس ایم اختر گذشتہ بارہ برسوں سے دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فن تعمیر کے ڈِین یعنی سربراہ ہیں۔

اس وقت وہ مسلسل پانچویں بار شعبے کے ڈِین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ شعبے کے سربراہ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ جامعہ یونیورسٹی میں اس شعبے کے بانی بھی ہیں۔

انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شعبہ فن تعمیرات میں ماسٹرز ڈگری کے چھ نئے کورسز متعارف کروائے ہیں۔ وہ متعدد بین الاقوامی اجلاسوں کے کنوینر بھی رہ چکے ہیں۔

پروفیسر اختر کا تعلق ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ سے ہے۔

انھوں نے لکھنؤ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی کے پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر کالج سے فن تعمیر میں گریجوایشن اور پھر انسٹیٹیوٹ آف ٹاؤن پلینرز سے پوسٹ گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔

اس کے علاوہ وہ ’ڈی لِٹ‘ یعنی ڈاکٹریٹ آف لٹریچر کی ڈگری حاصل کرنے والے انڈیا میں پہلے آرکیٹیکٹ اور ’پلانر‘ ہیں۔

پروفیسر اختر نے بتایا کہ جب فاوٴنڈیشن نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کی انڈو اسلامک کلچرل کمپلیکس سے کیا توقعات ہیں تو انھیں محسوس ہوا کہ فاؤنڈیشن ایک ایسے ہی کمپلیکس کا تصور کر رہی ہے جیسا پروفیسر اختر خود کرتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اس منصوبے پر کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دباوٴ نہیں ہے۔ اور وہ ایسی جگہ کام ہی نہیں کرتے ہیں جہاں ان پر کسی قسم کا دباوٴ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp