خلیل الرحمن قمر سے پروفیسر رانا اعجاز تک


زیادہ دن نہیں گزرے کہ ہم اس بات پہ اپنے آپ سے شرمندہ تھے کہ ہم اس دور میں عمر تمام کرتے ہیں، جس میں خلیل الرحمٰن قمر اپنے منہ سے جھڑنے والے پھولوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یقین جانیے ابھی وہی زخم ہرا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر رانا اعجاز احمد کی خبر سامنے ہو گئی۔  موصوف استاد کے رتبے پہ فائز ہیں لیکن نہ جانے کیسے زمینی حقائق سے نظریں چرا کے کسی یوٹوپیا میں بسیرا کیے بیٹھے ہیں۔

دور کی کوڑی لاتے ہوئے فرماتے ہیں،

“نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عورت مرد کو ہراساں کرتی ہے، مرد یہ کام نہیں کرتا. میرے پاس سائنسی دلیل ہے کہ ایسا صرف عورت کر سکتی ہے، مرد نہیں”۔

ہم غور سے ان کی تصویر دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ دکھتے تو بھلے مانس اور صحیح الدماغ ہی ہیں، مگر نہ جانے کب کی تصویر ہے؟ خبر نہیں کہ کیا ابتلا آن پڑی کہ یوں بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔

ہمارے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس میں کچھ حکایتیں ہیں، کچھ شکایتیں اور کچھ نوحے۔  ارے صاحب، نہ ہوئے حسینوں کے خطوط اور تصویر بتاں کہ کچھ دلبستگی کا سامان ہی ہو جاتا۔  یہ کتاب تو ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہے کہ ہر صفحے سے لہو ٹپک رہا ہے۔

سنا ہے پروفیسر صاحب اپنے ارشاد کی روشنی میں اس موضوع پہ ریسرچ پہ مبنی ایک مقالہ لکھ رہے ہیں۔  آپ کو علم ہی ہو گا کہ ریسرچ تو گڑے مردے اکھاڑنے کا کام کرتی ہے اگر آنکھ پہ تعصب کی پٹی نہ بندھی ہو۔  سو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اس مقالے کی تیاری میں اس لہو بھرے دھبوں والی کتاب پہ ایک نظر ڈال لیں۔  عورت کو اسفل السافلین ثابت کرنے کی آتش فشاں خواہش اپنی جگہ مگر صاحب دیکھ لیجیے گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس عاشقی میں عزت استاد ہی ہاتھ سے چلی جائے۔

کتاب کے پہلے صفحے پہ “ساحل”کی رپورٹ ہے جو  2020 کے پہلے چھ ماہ کے اعداد وشمار پہ ترتیب دی گئی ہے۔ چودہ سو اناسی بچے، جس میں سات سو پچاسی لڑکیاں اور سات سو چار لڑکے شامل ہیں، جنسی طور پہ کچل کے رکھ دیے گئے ہیں ان جرائم میں انفرادی ریپ، گینگ ریپ، اغوا اور قتل شامل ہیں۔  اہم بات یہ ہے کہ ان چودہ سو نواسی پھولوں اور کلیوں کو مسل دینے والے تمام کے تمام مرد ہیں، 1489 مرد!

افسردگی کا عالم ہے لیکن کتاب متقاضی ہے کہ ہم صفحہ پلٹ کے آگے چلیں کہ ابھی بہت کچھ سہنا باقی ہے۔

اگلے صفحے پہ کچھ تصویریں ہیں۔  ان دس سے بارہ سالہ بچیوں کی جو حسرت و محرومیت کی تصویر بنی لال رنگ کا جوڑا پہنے اپنے ابا کی عمر کے دلہا کے ساتھ موجود ہیں۔  تتلی سی بچیوں کا معصومانہ بچپن اور سنگ دل مردوں کا ان بچیوں کو بیوی بنانے کا عمل دل کو خون کے آنسو رونے پہ مجبور کرتا ہے۔  وہ جو ابھی خود ماں کی گود کی گرمی سے نکلی نہیں، کچھ ہی مدت میں ماں بنا دی جائیں گی۔  کیا آپ نے کبھی کوئی ایسی کوئی تصویر دیکھی جس میں چالیس سالہ عورت دس سال کے بچے کے ساتھ ایسی حرکت کی مرتکب ہو؟

ہم صفحہ پلٹ دیتے ہیں اور پھر دیکھنے کی صلاحیت چھن جاتی ہے۔  صغری صدف کی چھت کے پنکھے سے جھولتی لاش نظر آجاتی ہے جس کے صحافی شوہر نے بیٹی کی پہلی سالگرہ کے دن اسے ماں کی موت کا تحفہ دیا ہے۔  کچھ آنسو کتاب کا صفحہ بھگو دیتے ہیں لیکن سوال تو باقی ہے، کتنی عورتیں اس بے دردی سے شوہر کو پنکھے سے لٹکاتی ہیں؟

اگلے صفحے پہ ایک وڈیو کلپ ہے جو جوانی کے جوش میں ایک سترہ سالہ یتیم لڑکی کو راولپنڈی کی ایک سڑک پہ بے آبرو کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔  وہ چیختی چلاتی ہے، منتیں کرتی ہے اور اپنی برہنگی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتی ہے لیکن ہوس و بربریت کا کھیل کھیلنے والے تین مرد کچھ سننے کے لئے تیار نہیں۔  نہ صرف اس بچی کے جسم و روح کو تار تار کر دیا جاتا ہے بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے یہ تماشا دنیا کو دکھانے کے لئے ریکارڈ کر کے دکھا بھی دیا جاتا ہے۔  دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کیا کبھی تین وحشی عورتیں، نوعمر لڑکے کے ساتھ سرعام بربریت کا یہ کھیل رچاتے ہوئے آپ نے دیکھیں؟

ہماری برداشت جواب دے رہی ہے سو کتاب ہمیں اگلے صفحے پہ لے جاتی ہے۔ ایک نوعمر لڑکی غم کی تصویر بنی بیٹھی ہے جس سے اس کے سگے تین بھائیوں نے ایک ہی چھت تلے پیدا ہونے کا خراج وصول کر لیا۔  یہ ازمنہ قدیم کی داستان نہیں، پنڈی کا محلہ گولڑہ شریف ہے اور اکیسویں صدی کا بیسواں برس۔

وہیں پنڈی کے محلہ رتہ امرال کی چودہ سالہ بچی پہ نظر کرم اس کے ہمسائیوں ماں جائیوں نے کی ہے. بچی کے گھر میں اکیلے ہونے سے ایک نہیں، تین تین ہمسائے اس معصوم کو بچی نہیں بلکہ اپنی غلاظتوں کا کوڑا دان سمجھتے رہے. اور اولاد کا تحفہ دے کر ہی دم لیا۔

پروفیسر صاحب، کیا روشنی ڈالیں گے آپ اس خبر پہ؟

کتاب کے صفحات بھیگ رہے ہیں ۔  اگلے صفحے پہ زندہ دفن ہونے والی ان کاری بچیوں کی تصویریں ہیں جن کی فریاد بھری صدائیں اب بھی فضا میں گونج رہی ہیں۔  ہر دن کہیں نہ کہیں مردوں کی بنائی ہوئی پنچایت ہے اور نتیجے میں کھدنے والی قبریں اور زندہ دفن ہونے والی لڑکیاں۔

بخدا اس سے زیادہ دیکھنے کی تاب نہیں لیکن پروفیسر صاحب کے دعوے کا کیا کریں؟

اور ہاں اگلے صفحے پہ ہی ان کے ہم مشرب گومل یونیورسٹی کے پروفیسر کی تصویر موجود ہے جن کی ہوس کا شکار نہ جانے کتنی معصوم طالبات ہوئیں؟ نہ جانے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر رانا اعجاز ان کے اخلاقی زوال کو کس پیمانے میں تولتے ہیں؟

ہمارے سامنے دھری اس کتاب میں مختلف ادوار کی داستانیں موجود ہیں۔  چلیے ماضی قریب میں چلے چلتے ہیں جس کے چشم دید گواہ ابھی زمانے میں موجود ہیں۔  وطن کی تخلیق میں اسلام کے نام پہ تقسیم تو زمین کی ہوئی لیکن نہ جانے دونوں طرف کے مردوں نے عورت پہ کیا ثابت کرنا چاہا؟

ہمیں خبر نہیں کہ رانا اعجاز کا خاندان اس دیوانگی کے کھیل سے متاثر ہوا کہ نہیں لیکن یہ تو ہوا کہ اس جنگ میں عورت وہ جنس ٹھہری جو اس بری طرح کچلی اور مسلی گئی جیسے کوئی شریر بچہ کھلنڈرے پن سے اڑتی تتلی کو اپنی انگلیوں میں مسل کے اس کے پر توڑ ڈالے اور اجلے دھنک رنگ اپنا حق سمجھ کے مٹا ڈالے۔

کیا پروفیسر صاحب تاریخ کے اس سیاہ باب کو جھٹلا سکتے ہیں؟

کتاب میں اس خطے کے واقعات کے علاوہ صدیوں سے رائج وہ رسوم بھی ہیں جو عورت سے عورت ہونے کا خراج لیتی ہیں۔  مردوں کی جانب سے عورت کے اعضاء مخصوصہ کے ختنوں کا فیصلہ انسانیت کے منہ پہ ایک زناٹے دار طمانچہ تو ہے ہی، خدا کی تخلیق پہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا خدا نہیں جانتا تھا کہ عورت کو کونسے اعضا ملنے چاہیں اور کونسے نہیں ؟

عورت کے پاؤں توڑ موڑ کے لوہے کے جوتوں میں قید کر دینے کی کہانی ہمسایہ ملک کی ہے جس میں صدیوں تک عورت کو خوبصورت بنانے کے لئے پاؤں کو کنول بنانے کی کوشش کی جاتی رہی۔  عورت کا درد ، تکلیف اور معذوری کی وقعت مرد کی آنکھ کی لذت سے کہیں کم ٹھہری کہ ملکیت میں یہی اصول ہوا کرتا ہے صاحب!

ننھی بچیوں کو قبر میں زندہ دفن کر دینے کی داستانیں بھلائی نہیں جا سکتیں۔  تب بھی مرد کی عزت کا بار گراں ایک عورت کے کندھوں پر تھا ، آج بھی جھوٹی مردانگی کو ٹھیس عورت کے وجود سے ہی پہنچتی ہے۔

رانا اعجاز احمد سے کچھ سوال ہیں جو شاید ان کے ریسرچ کے مقالے میں انہیں سائنسی توجیہ تراشنے میں مدد دے سکیں،

کیا کبھی کسی ادھیڑ عمر عورت نے کسی نوخیز لڑکے سے بیاہ رچایا ؟

کیا کبھی کسی کی گناہگار آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ عورتوں کا گینگ ایک چھوٹے بچے کو ریپ کر رہا ہو؟

کیا برصغیر میں مرد، بیوی کے مرنے کے بعد ستی کی رسم کا شکار ہوا؟

کیا کبھی ایسے بالا خانے دیکھے جہاں مردوں کو بٹھایا گیا ہو اور عورت وہاں کی سیڑھیاں چڑھ کے مرد کی بےبسی کی قیمت ادا کرے؟

کیا کبھی کسی مرد کو ونی یا سوارہ کی رسم کا شکار کیا گیا؟

کیا کسی ماں نے اپنے بیٹے کی عزت لوٹی ؟

کیا کبھی بہنوں نے اپنے بھائی کے لئے اپنی ہی چھت تنگ کر دی؟

کیا کبھی کسی مرد کو اس کی بیوی نے زندہ آگ میں جلایا؟

کیا کبھی کسی مرد کے چہرے پہ تیزاب پھینکا گیا؟

کیا کبھی عورتوں کے مجمعے نے ایک مرد کو ننگا کر کے پورے گاؤں میں پھرایا؟

یہ محض سوال نہیں، یہ تو ان زخموں سے اٹھتا دھواں ہے جن کا کھرنڈ رانا اعجاز نامی پروفیسر نے اپنی جہالت کے ناخنوں سے کھرچ کے اتار دیا ہے۔  ہمیں ان تمام طالبات سے ہمدردی ہے جو موصوف کی شاگردی میں ہیں اور ہم ان تمام طلبا سے خوف کھاتے ہیں جو اعلی حضرت کے بلند پایہ خیالات و نظریات کی روشنی میں زندگی کی راہیں تلاشنے میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).