میں بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے اغوا پر کیوں نہیں بولا؟


نہیں، ایسا بھی نہیں کہ ہم نے پنجابی مزدوروں پر کبھی بولا ہی نہ ہو۔ ہم نے بولا، مگر مذمت نہیں کی۔ ہم نے مسلح اور غیر مسلح بلوچ تحریکوں کے ہمدردوں سے یہ توقع باندھی کہ وہ یہ بات کہہ کر اپنے بڑوں پر اخلاقی دباؤ ڈالیں گے۔

فاقہ کشوں پر زندگی کا دروازہ بند کر دینے سے بات میں وزن نہیں پڑتا، ہوا میں گرد اڑتی ہے۔ ایسی گرد، جو بے پر کی تو بہت اڑا دیتی ہے مگر بنیادی بات کو دھندلا دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ خود مذمت کے دو بول کیوں نہیں بولے؟

کوئی سات برس ہوتے ہیں۔ بلوچستان سے خواتین کا ایک قافلہ پیدل چلا اور اسلام آباد پہنچا۔ میرے دفتر سے دس منٹ دور پریس کلب کے دروازے پر انہوں نے خیمے بسائے۔ ان کے پاس کچھ بینر تھے، جن پر ان لوگوں کی تصویریں تھیں، جنہیں رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا اور لاہوت و لامکان پہنچا دیا گیا۔ ان لوگوں نے سوچا تھا کہ بلوچستان تو کوئی آتا نہیں ہے، ہم ہی اسلام آباد چلے جاتے ہیں۔ کیا پتا کہ لوگ اسی لیے نکل آئیں کہ شہر میں کچھ مہمان آئے ہیں۔

اجنبی شہر کے اجنبی راستوں پر بیٹھے ان مہمانوں پر دن میں دو بار میری نظر پڑتی تھی۔ ایک بار دفتر کو جاتے ہوئے، ایک بار دفتر سے واپس آتے ہوئے۔ اس بیچ بیسیوں بار خیال آیا کہ جاؤں، ان سے ملوں، ان کی سنوں۔ ان کے لیے لکھنے کی تاب نہیں تھی۔ ان کے لیے بولنے کا یارا نہیں تھا۔ ان کے لیے نکلنے کا تو خیر سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن کیا میں انہیں سن بھی نہیں سکتا؟ یہ سوچ کر مجھے حلق میں خشکی محسوس ہوئی اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرے داخل سے جواب آیا، سننا تو بہت بعد کی بات ہے پیارے! تم تو ان سے مل بھی نہیں سکتے۔ روز روز کی اذیت سے بچنے کے لیے میں نے اس راستے سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔

کوئی دو برس قبل کراچی میں چوری چپکے ایک جلسے میں میرا جانا ہوا۔ جلسے کی ابھی بسم اللہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ روایتی لباس میں ملبوس کچھ بلوچ خواتین اور بزرگ پنڈال میں پہنچ چکے تھے۔ ان کے پاس وہی تصویریں تھیں، جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہی سوال تھے جو ہم سننا نہیں چاہتے۔ میں نے کنی کترانے کی پوری کوشش کی مگر تابکہ؟ حالات کتنے ہی پتلے ہوں مگر اتنے گئے گزرے تو پھر بھی نہیں کہ کوئی سلام کرے ہم جواب نہ دیں۔

دو بہن بھائی ایک تصویر اٹھائے کھڑے تھے، مجھ پر نظر پڑی تو چلے آئے۔ ہاتھ ملایا تو مجھے اپنا دل کان کے پردے پر دھڑکتا سنائی دیا۔ آدھا چہرہ دوپٹے سے ڈھانپی ہوئی معصوم نگاہ لڑکی نے کہا، آپ فرنود بھائی ہیں نا؟ دل تو کیا کہ صاف انکار کردوں، مگر کیسے؟ میں نے اعتراف کیا تو ساتھ کھڑے شرمیلے سے بھائی نے کہا، آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ میں نے خود سے پوچھا، کیا تمہیں بھی ہوئی؟ چار ناچار میں نے لڑکی سے پوچھا، اس تصویر میں یہ جوان کون ہے؟ ایک نظر ساتھ کھڑے بھائی کو دیکھا اور آہستہ سے بولی، یہ میرا بھائی ہے سر! یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹ لرز گئے اور آنکھیں چھلک گئیں۔ اس نے سوری کہا، دوسری طرف منہ کیا اور دوپٹے سے آنسو پونچھنے لگی۔

نوجوان نے کہا، آپ آئیں آپ کو باقی دوستوں سے ملواتا ہوں۔ پنڈال کی پہلی صف میں عین اسٹیج کے سامنے پراسرار سی آنکھوں کا خاموش اجتماع ہو رہا تھا۔ ہر آنکھ میں انتظار تھا، اندیشے تھے، وسوسے تھے اور کچھ سوال تھے۔ یہاں بھی کچھ میرے شناسا نکل آئے۔

اخلاقی دباؤ جب حد سے گزر گیا تو چاہتے نہ چاہتے میں نے سیل فون نکالا اور لاپتا افراد کے پوسٹرز کی تصویریں لینے لگا۔ مجھے بستہ الف کا صحافی سمجھ کر ایک بزرگ نے کہا، شائع بھی کرو گے یا بس ویسے ہی تصویر لے رہے ہو۔ میں نے بھی خود کو کل وقتی اخبار نویس باور کرواتے ہوئے کہا، ہوں گی بزرگو ضرور شائع ہوں گی۔

سر شام میں جانے لگا تو کراچی یونیورسٹی کا ایک جوان بھاگتا ہوا آیا اور کہا، بھائی امید ہے آپ اس پر ضرور بات کریں گے، ہم آپ کی تحریر کا انتظار کریں گے۔ اس وعدے کو آج دو برس گزر گئے، مگر اب تک وہ تحریر آئی ہے اور نہ شب انتظار گزری ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے میں اپنے سیل فون سے ایک ایک کر کے قابل اعتراض مواد مٹا رہا تھا۔ بلوچوں کی ان تصویروں پر نظر پڑی تو دل بے طرح دھڑک اٹھا۔ کچھ دیر میں تصویروں کو دیکھتا رہا، سوچتا رہا اور خاموشی سے تصویریں مٹا دیں۔

کوئی ڈیڑھ برس پہلے جلیلہ حیدر کے ساتھ ہم کوئٹہ کی سڑکیں ناپ رہے تھے۔ زمانے سے منہ چھپا کے ہم پریس کلب کے دروازے پر لگے ماما قدیر کے خیمے میں پہنچ گئے۔ یہاں انہی بچوں کے سوال تھے، جو خود چلتے ہوئے کبھی اسلام آباد آ گئے تھے اور پھر کراچی کے جلسے میں مجھے ٹکرا گئے تھے۔ ماما قدیر سے میں نے پوچھا، کیا کر رہے ہیں؟ تسبیح کے دانے جلدی جلدی سے پھیرتے ہوئے بولے،

ذمہ داری پوری کر رہے ہیں
کیا صحافی پوچھنے آتے ہیں؟
نہیں آتے، خاموشی سے گزر جاتے ہیں
کیوں نہیں آتے
کیوں آویں یار، ان کا اپنا بال بچہ ہے کیا کریں سب کو اپنا جان عزیز ہے
آپ کو دکھ نہیں ہوتا؟
ہوتا ہے مگر ہم کیا کرے

یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر سوچ کر بولے، وہ پھیز احمد پھیز کا ایک شعر ہے نا کہ اک طرز تغاپل ہے ان کو مبارک ہو۔ ٹوٹا پھوٹا سا مصرع کہہ کر تصحیح کے لیے دائیں جانب ایک برقع پوش لڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔ حجاب کے پیچھے سے اس کی آواز آئی

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

میں نے ماما قدیر اور دیگر لوگوں کے ساتھ تصویر لی۔ نکلتے ہوئے جلیلہ نے کہا، یرا اس پر ذرا بات ضرور کر لینا۔ بیچارے یہاں بیٹھے رہتے ہیں کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ زبان سے میں نے وعدہ کیا اور دل میں میں نے عہد کیا کہ ضرور لکھوں گا۔ واپسی پر کوئٹہ ہوائی اڈے کی انتظار گاہ میں میں نے لیپ ٹاپ کھولا، ”اک عرض تمنا ہے“ کا عنوان باندھا اور کچھ سطریں سیدھی کیں۔ جہاز میں بیٹھا تو دوبارہ لیپ ٹاپ نکالا اور بات پوری کی۔ پورے ایک سال بعد میں نے اپنے لیپ ٹاپ سے جو قابل اعتراض مواد مٹایا اس میں ماما قدیر کی تصویریں بھی تھیں۔ جو تحریریں ہٹائیں اس میں ”اک عرض تمنا“ بھی تھی، جو پورے عزم اور ارادے کے باوجود عرض نہ ہو سکی۔

ابھی پچھلے ہی دنوں بلوچستان میں ”برمیش کیس“ سامنے آیا۔ بلوچوں نے آواز دی، ہم کان لپیٹ کے سو گئے۔ حسیبہ قمبرانی کی آواز اگر دریائے سندھ میں گھول دی جاتی تو نصف صدی تک ہم درد کا پانی پیتے۔ ایسی آواز بھی آئی تو تکیہ لے کر ہم ہاتھی کے کان میں سو گئے۔

ایسے میں پہاڑوں پہ بیٹھے بلوچوں نے کچھ پنجابی مزدور اغوا کر لیے۔ خبر آئی تو مجھے جیسے ہڑبڑائے ہوئے گھروں سے نکلے کہ کیا ہوا؟ نہار منہ قلم نکالا اور ظلم و ستم کی ایک داستان لکھنا شروع کر دی۔ الفاظ تھے کہ ایک دوسرے کی گردن پر سوار چلے آرہے تھے اور خیال تھا کہ سہولت سے قلم پر اترا جا رہا تھا۔ کہیں کوئی جھٹکا لگا نہ کوئی کھٹکا محسوس ہوا۔ کسی اندیشے نے ہاتھ روکا اور نہ کسی وسوسے نے پاؤں پکڑے۔ مذمت کے لیے الفاظ کو جامے زیر جامے پہنانے پڑے اور نہ لکھنے کے بعد الفاظ کا درجہ حرارت چیک کرنا پڑا۔ اچانک خیال آیا کہ ایسا کیوں ہے؟ جواب آیا، ایسا اس لیے ہے کہ طاقت اور آپ اس وقت ایک ہی صفحے کی ایک ہی سطر پر موجود ہیں۔

دل نے کہا، اگر ہیں تو ہوں مجھے تو اپنی بات کہنی چاہیے۔ یہ کہنا تھا کہ بہنوں کے وہ لٹے پٹے قافلے سامنے آ گئے، جو بلوچستان سے پیدل چل کر اسلام آباد آئے تھے۔ کراچی جلسے میں چھلکتا ہوا وہ آنسو یاد آ گیا، جسے منہ موڑ کے ایک بلوچ بہن نے اپنے گرد آلود دوپٹے میں جذب کر لیا تھا۔ وہ تصویریں یاد آ گئیں، جو تحریر نہ ہو سکیں اور وہ تحریر یاد آ گئی، جو تصویر نہ ہو سکی۔ وہ عرضیاں بھی سامنے آئیں، جو گزاری نہ جا سکیں۔

حسیبہ قمبرانی سامنے آ کر بولنے لگی، لکھو ضرور لکھو۔ جس سچ کی تائید طاقت کرے وہ سچ ضرور لکھو۔ بس یہ ذہن میں رکھو کہ یہاں تم مظلوم کا ساتھ نہیں دے رہے۔ دراصل اس سوال کا جواب دے رہے ہو جو آپ کی دانش کا امتحان لینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ سوال ہے، ”اب پنجابی مزدوروں پر بول کر دکھاؤ نا“

یہ سوال کیا جا رہا ہے؟ نہیں، دراصل یہ ایک بات کہی جا رہی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ ”بلوچوں کا ذکر تو بہت ہو گیا“ اب پنجابیوں پر بھی ذرا بول کر دکھاؤ نا۔ کیا واقعی تیری بزم ناز میں بلوچوں کا ذکر ہو چکا؟ کیا یہاں پنجابی مزدوروں کے اغوا کے غلط ہونے پر کہیں کوئی اختلاف موجود ہے؟ کیا ان کے لیے لکھتے وقت آپ کو کچھ سوچنا پڑ رہا ہے؟ کیا ان کے لیے آواز اٹھانے کے بعد آپ کے اہل خانہ آپ کے لیے فکرمند ہو رہے ہیں؟ کیا یہ خبر شائع کرنے میں صحافی کو کسی دقت کا سامنا ہے؟ کیا قاضی کو منہ ڈھانپ کر گزرنا پڑ رہا ہے؟ کیا اس ظلم کو ظلم منوانے کے لیے آپ کو دس برس پریس کلبوں کے باہر بیٹھنا پڑ رہا ہے؟ پیدل اسلام آباد جانا پڑ رہا ہے؟

تو دیکھیے پیارے، آپ پورے ترنگ سے مزدوروں کا حساب مانگیے، مگر کیا پھر اسی آہنگ سے آپ ہمارا حساب مانگ لیں گے؟ حساب چھوڑیے، ہمارے ساتھ ایک تصویر کھنچوا لیں گے؟ یہ بھی چھوڑیں، ہمارے ساتھ ویسے ہی کھڑے ہو جائیں گے؟ اچھا چلو ہم آپ سے اپنے بچوں کا نہیں پوچھتے۔ آپ کے شہر میں آپ کو روک کر صرف پبلک ٹوائلٹ کا راستہ اگر پوچھ لیں، تو بتا دیں گے؟ منہ سے بھی نہ بتائیں، اشاروں سے سمجھا دیں گے؟ اگر ہاں، تو بسم اللہ۔ اگر نہیں، تو رہنے دیجیے۔

میں رکا۔ میں نے سوچا۔ میں نے رہنے دیا!

نہیں جناب، میں نے اس لیے رہنے نہیں دیا کہ پنجابیوں کے لیے میرے دل میں کوئی قومی لسانی یا نسلی عصبیت موجود ہے۔ رہنے اس لیے دیا کہ پنجابی مزدوروں کا پوچھو تو بلوچوں کا پوچھنا پڑتا ہے۔ یہ تو گھما پھرا کے وہی مشکل ہو گئی، جس سے دامن چھڑاتے ہوئے پون صدی گزر گئی۔ کسی کی زندگی کا سوال اپنی جگہ بہت اہم ہوتا ہو گا، مگر سچ بات تو یہ ہے کہ اس سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے!
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).