بلوچستان: معروف سماجی کارکن اور صحافی شاہینہ شاہین فائرنگ کے واقعے میں ہلاک


شاہینہ

شاہینہ کو محراب گچکی نامی ایک شخص نے زخمی حالت میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچایا تھا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسیں

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے تربت میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ معروف سماجی کارکن، پینٹر، صحافی اور اینکر پرسن شاہینہ شاہین فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئی ہیں۔

ان کی ہلاکت کا واقعہ تربت شہر میں سنیچر کی شام کو پیش آیا۔

کیچ پولیس کے ایس ایس پی نجیب پندرانی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ شاہینہ کو محراب گچکی نامی ایک شخص نے زخمی حالت میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچایا تھا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسیں۔

انھوں نے بتایا کہ جس شخص نے شاہینہ شاہین کو ہسپتال پہنچایا وہ یہ کہہ کر ہسپتال سے چلے گئے کہ وہ ان کے گھر کی خواتین کو ہسپتال لائیں گے۔

پولیس کا کہنا ہے وہ شخص ہسپتال واپس نہیں آیا بلکہ روپوش ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیے

‘کام کی وجہ سے قتل ہونے والی پہلی خاتون صحافی’ کا مقدمہ کہاں گیا

افغانستان کی نامور صحافی مینا مانگل قتل

انھوں نے بتایا کہ پولیس اہلکار ہسپتال پہنچے اور جس گاڑی میں شاہینہ کو ہسپتال پہنچایا گیا تھا اس کو تحویل میں لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بعد میں پولیس ٹی این ٹی کالونی میں ایک کوارٹر پر پہنچی جہاں شاہینہ کو ہسپتال لانے والے شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ وہاں آتا جاتا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ یہ کوارٹر اکبر گچکی نامی ایک شخص کے نام پر ہے لیکن جب پولیس کی ٹیم وہاں پہنچی تو کوارٹر میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کوارٹر کے اندر خون بھی پڑا تھا اور وہاں سے گولیوں کے خول بھی ملے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاتون کو اسی کوارٹر میں مارا گیا۔‘

ایس ایس پی نے بتایا کہ شاہینہ کہ والدہ اور ماموں سے رابطہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مقتولہ کی والدہ کوئٹہ سے آ رہی ہیں اور ان کے پہنچنے کے بعد قتل کے واقعے کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔‘

شاہینہ شاہین کون تھیں ؟

شاہینہ شاہین کا تعلق بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت شہر سے تھا۔

انھوں نے ابتدائی تعلیم تربت میں حاصل کی اور اس کے بعد فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخلہ لیا۔

انھوں نے فائن آرٹس میں 2018 میں نہ صرف بی ایس کی ڈگری حاصل کی بلکہ اپنی ذہانت کے باعث گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔

انھوں نے سنہ 2019 میں بلوچی زبان میں بھی ایم اے کی ڈگری فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔

وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ تھی اور ایک بلوچی میگزین دزگہار(سہیلی ) کی مدیر بھی تھیں۔

شاہینہ

2018 میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں جب فائن آرٹس کے فائنل ایئر کے طلبا و طالبات کی پینٹنگز کی نمائش کی گئی تو اس میں شاہینہ کی پینٹنگز نہ صرف شامل تھیں بلکہ ہر لحاظ سے نمایاں بھی تھیں۔

کوئٹہ میں یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ پی ٹی وی بولان کے بلوچی زبان میں مارننگ شو کی میزبانی بھی کرتی تھی۔

شاہینہ بلوچ کا کوئی بھائی نہیں تھا بلکہ وہ پانچ بہنیں تھیں۔

سنہ 2018 میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں جب فائن آرٹس کے فائنل ایئر کے طلبا و طالبات کی پینٹنگز کی نمائش کی گئی تو اس میں شاہینہ کی پینٹنگز نہ صرف شامل تھیں بلکہ ہر لحاظ سے نمایاں بھی تھیں۔

یونیورسٹی میں اس نمائشں کے دوران انھوں نے اپنی والدہ اور چاربہنوں کی بھی پینٹنگز بنائی تھی۔

انھوں نے پینٹنگز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں لیکن یہ خواتین ان کی طاقت ہیں اور وہ انہی کی مدد سے اس مقام تک پہنچی ہیں۔

ان کے ایک کلاس فیلو نجیب بلوچ نے ان کی قتل کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک انتہائی باصلاحیت اور متحرک خاتون تھی۔

انھوں نے بتایا کہ شاہینہ شاہین خود اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچی تھی۔ انھوں نے نہ صرف اپنے بیچ میں گولڈ میڈل حاصل کیا بلکہ بلوچی زبان میں بھی پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے ٹاپ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کلاس کی ذہین ترین طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے حقوق اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی برابری کی علمبردار تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp