ڈاکٹر شیر شاہ سید کی کتاب: دل ریزہ ریزہ


ڈاکٹر شیر شاہ سید کا شمار ان نابغۂ روزگار دیدہ وروں میں ہوتا ہے، جنہیں ملیں تو لگتا ہے پڑھ رہے ہیں، پڑھیں تو لگتا ہے مل رہے ہیں۔

شاہ صاحب اس دور کے وہ انسان ہیں جو کسی بھی دور میں کہیں بھی پیدا ہو جاتے سب کو ایسا ہی گرویدہ کر لیتے۔ اچھا انہیں گرویدہ کرنے سے غرض بھی نہیں ہوتی، یہ تو خود گرویدہ رہتے ہیں سب کے، ہر ایک کے۔ بغیر کسی وجہ کے، چھوٹی چھوٹی باتیں اور درد، جن کے لوگ اپنے چہرے پر لگی آنکھوں کی طرح عادی ہوتے ہیں، یہ انہیں بھی پہاڑ ایسا محسوس کرتے ہیں۔

بعض ہستیوں کے لیے ہم کہتے ہیں نا کہ انہیں فلاں دور میں پیدا ہونا چاہیے تھا یا یہ فلاں صدی کی شخصیت ہیں، مگر شاہ صاحب کے لیے کہہ سکتی ہوں کہ یہ ہر زماں کے لیے ہی نہیں ہر مکاں کے لیے بھی فٹ ہیں۔ یہ شخص دل کا بیوپاری ہے، دل کے بدلے دل مانگتا ہے اس سے کم پر سودا اسے منظور نہیں۔ وہ بھی جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر۔

وہ دیکھتے نہیں پڑھتے ہیں اور ویسا ہی کاپی پیسٹ کر کے قاری کو پڑھاتے ہیں۔ ان کی تقریباً ساری ہی تحریریں پڑھی ہیں۔

وہ خاص ہیں بہت خاص مگر خاص لوگوں کی طرح خصوصیت سے کوئی اہتمام نہیں کرتے، نہ تو خاص لباس پہنتے ہیں، نہ خاص موبائل رکھتے ہیں، نہ خاص علمی باتیں کر کے لوگوں کو رعب میں لیتے ہیں، نہ اپنے خاص کام بتاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس صدی کے ان انسان دوست درد مندوں میں شامل ہیں جو زمین پر اتارے گئے ہیں۔

پوری دنیا گھومے، دنیا کی ہر چیز کو بچوں کی طرح دیکھا اور ہر چیز کے پیچھے انسان کی کوششوں کی کھوج کی۔ ان کی آنکھ اور دل سے انسان نہیں نکلتا۔ وہ انسان پڑھتے، انسان لکھتے، انسان دیکھتے، انسان سوچتے اور انسان کھوجتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں بات نہیں کرتے۔ کیا سوچتے ہیں، کیا پسند کرتے ہیں، کیا خواہش ہے، نہ اپنے خو اب بتاتے ہیں نہ اپنے ہاتھوں کی لکیریں پڑھتے ہیں۔ اپنی ذات سے بے پروا انسان بظاہر سمندر کی طرح پرسکون لیکن اندر سے اتنا ہی گہرے اور مضطرب۔ اضطراب ہی انہیں حیرت سرائے دہر میں گھمائے پھرتا ہے۔ ننھے بچے کی طرح وہ متحرک و متحیر رہتے ہیں ان کی آنکھ میں حیرت نے ڈیرہ جما رکھا ہے۔

ان کی تازہ کتاب ’دل ریزہ ریزہ‘ پڑھ کر احساس ہوا کہ شاہ صاحب نے کیسے ریزہ ریزہ دل کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے رسمی طور پر اپنے دیرینہ دوست آصف فرخی کے نام کیا ہے جو شمس الرحمان فاروقی کے جملے سے ماخوذ ہے۔

رسمی طور پر اس لیے کہ اس کتاب کے ابتدائی ستر صفحات آصف فرخی کے تذکروں اور تبصروں سے روشن ہیں۔

ابتدا میں لکھاری الفاظ چھوتا ہے، پھر الفاظ اسے چھوتے ہیں، جھنجھوڑتے ہیں، اس کی ہستی ریزہ ریزہ کرتے ہیں اور بعض اوقات اسے کھا جاتے ہیں۔ لکھاری کن حالات سے گزرتا ہے کیا سوچتا اور کیا محسوس کرتا ہے۔ پڑھنے والے کو اس سے غرض نہیں ہوتی وہ اپنے موڈ، مزاج اور بعض اوقات دوسروں کے خیالات کے زیر اثر وہ کسی لکھاری کے بارے میں اچھی، بری یا بہت بری رائے قائم کر لیتا ہے۔ لکھاری کی شخصیت کو دریافت بھی لکھاری ہی کرتا ہے۔

دل ریزہ ریزہ اس لحاظ سے اہم کتاب ہے کہ اس میں مشہور لکھاریوں کے بارے میں شائع شدہ تبصروں کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور ترجمہ اگر شیر شاہ سید صاحب نے کیا ہو تو پھر تو آپ سمجھتے ہیں کہ سادگی و پر کاری میں شاہ صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اردو میں اپنے مخصوص لب و لہجے میں ایسی سہل اور عام فہم زبان، کہ محسوس ہوتا ہے شاہ صاحب کے الفاظ کاغذ پر بہتے چلے جا رہے ہیں۔

امریکا کے مشہور رسالے نیو یارکر میں شائع ہونے والے مضامین جن میں چین کے معروف لکھاری وانگ مینگ، اسرائیلی لکھاری، ڈیوڈ گراس مین، جاسوسی ناول نگار جارج سمینوں کی زندگی کے مخفی گوشے، روسی شاعر جوزد براڈسکی، جرمنی کا عظیم ناول نگار تھیوڈور فاؤنٹین امریکہ کے مشہور اور اپنے عہد کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے لکھاری اسٹیگ لارسن کی پراسراریت کے بیان کے ساتھ تمام لکھاریوں کے شخصی خاکے، حالات زندگی، ادبی و سیاسی خدمات اور طرز تحریر، یورپ کے مشہور جدید ناول نگار، لاز الو کر از ناہر کائی کی عجیب و غریب کہانیوں پر دلچسپ تبصرہ، ”آج کے عربی ناول“ کے موضوع پر لکھے جانے والے تبصرے میں عرب لکھاریوں کے طرز تحریر اور مخصوص حالات زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

کتاب پڑھیے، ہمیشہ کی طرح آپ کو پسند آئے گی، ان کی پچھلی کتابوں کی طرح اس کتاب کی فروخت سے ہونے والی آمدنی بھی کوہی گوٹھ ویمن اسپتال لانڈھی کراچی میں غریب مریضوں کے علاج پر خرچ کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).