خط ان مردوں کے نام جن کے لیے عورت بس گوشت کی دکان ہے



آداب عرض ہے!

ایسے تمام مردوں کو میرا آداب جو عورت کی عزت کرنا جانتے ہیں اور اسے جسم سے نکل کے اسے ایک مکمل انسان سمجھتے ہیں۔ اور ایسے تمام مردوں کو جو عورت کو سوائے گوشت کی دکان کے کچھ نہیں سمجھتے، میری طرف سے جواب ہے۔ اچھا گوشت کی دکان تو سمجھتے ہیں۔ مگر اس کے لیے بھی استعارے رکھے ہوئے ہیں۔ کم عمر ہے تو چکن۔ درمیانی عمر اور چھریرے بدن کی ہے تو چھوٹا گوشت۔ اگر زیادہ عمر اور جسامت میں بھاری ہے تو بڑا گوشت کہلائی جاتی ہے۔

آپ نے کبھی سنا کہ کسی عورت نے کبھی مردوں کے متعلق ایسے الفاظ کہے ہوں۔ کبھی کسی عورت نے مرد کو دیکھ کے فحش اشارے کیے ہوں۔ یا پھر بنا اجازت چھونے کی کوشش کی ہو۔ کبھی عورت نے کسی مرد کو گزرتے دیکھ کر اپنی ٹانگوں کے بیچ کھجانا شروع نہیں کیا۔ یہ خارش بس مردوں کو پڑی ہے۔ اور زئی بان (خارش کا ایک مرہم) سے بھی ٹھیک ہونے والی نہیں۔

چلیں مان لیا کہ آپ پدرسری معاشرے کے رہنے والے ہیں۔ لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ عورت کا جینا ہی حرام کر دیا جائے۔ میرے عزیزو آخر کیوں آپ لوگوں کے دماغوں میں عورت کے نام سے ہی تعصب آ جاتا ہے۔ آپ نے پیمانے طے کر رکھے ہیں۔ جو بھی ان پیمانوں پہ پورا نہ اترے۔ آپ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ عورت کو مرد کی طرح اس سماج میں اپنے آپ کو کسی بھی شعبے میں منوانے کی آسانی نہیں ہے۔ عورت کے لیے سمجھیں ہر کام اور اپنی مرضی سے جینا اگنی پرکشا دینا ہی ہے۔ لڑکا رات کو دیر سے گھر آئے تو عام طور پہ والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ لڑکے ہی باہر گھومتے پھرتے ہیں۔ اب لڑکی تھوڑی ہے کہ گھر میں گھسی بیٹھی رہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے لڑکی کے باہر گھومنے پھرنے کام کرنے کے لیے اس سماج کی تربیت کیوں نہیں کی۔ جیسے لڑکے بنا خوف راتوں کو گھر سے باہر رہ لیتے ہیں۔ لڑکیاں کیوں نہیں رہ سکتیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ ہر انڈی پینڈنٹ عورت سے آپ کو خوامخواہ کا بیر کیوں ہے۔ اس کے کمانے سے، گھر سے باہر نکلنے سے یا اپنی زندگی پہ اپنے اختیار سے آپ کیوں چڑتے ہیں۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ہر عورت بس وہی سوچے۔ جو آپ نے کہا۔ وہ کرے جو آپ کرنے کو کہیں۔ اس کی اپنی کوئی چوائس نہیں۔ زندگی کا کوئی فیصلہ عورت کو اپنی مرضی سے نہیں لینے دیا جاتا۔ پڑھائی، گھر رہنے کے طور طریقے، گھر سے باہر آنے جانے کے مواقع، شادی، بچے حتی کہ سیکس کرنے تک میں وہ خاوند کی رضا کی محتاج ہے۔ وہ تو اپنی مرضی سے خاوند کو سیکس کا بھی نہیں کہہ سکتی۔ کیونکہ نہ تو خاوند نہ ہی دوسرے رشتے دار عورت کو اتنی جرات دیتے ہیں۔ کہ وہ اپنی خواہش کا اظہار کر سکے۔ اگر بالفرض محال وہ کر بھی دے۔ تو خاوند کے ذہن میں فوراً شک آ جاتا ہے۔ کہ اس نے یہ بات کیا کی ہے۔

ایسا کون سا کام ہے۔ جس میں عورت کو اس کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اسے تو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ معاشرے میں جتنا استحصال عورت کا کیا جاتا ہے۔ کم ہی کسی صنف کا ہوتا ہو گا۔ اچھا پھر جو عورت تھوڑی سی بھی بولڈ ہے۔ اسے فوراً سے پہلے فاحشہ، بدچلن و آوارہ مشہور کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر اس کے قدموں میں دل لے لے کر پھرنے میں بھی فخر کرتے ہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ بولڈ، آزاد خود مختار عورت ہر مرد کی خواہش ضرور ہے۔ مگر ایسی عورت ان کے گھر کی نہ ہو۔ دوسرے کی بہن، بیٹی، ماں، بیوی اگر آزاد خیال ہے۔ تو واہ واہ۔ اپنے گھر کی عورت اگر اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کرے یا بات کرے تو ٹھاہ ٹھاہ۔ یہ ہے منافقت اور معاشرے کا گھٹیا چہرہ۔ ہم دوسرے کی بیوی کے ساتھ ڈنر کرنے میں خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی کرے تو سہی۔

انقلاب کے نعرے دوسرے کے گھروں سے اٹھیں تو بہت اچھا ہے۔ ہمارے گھر سے اٹھے تو ہم گاڑ دیں گے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے قول و فعل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مگر ایسے لوگ شاید دو فیصد بھی نہیں بنتے۔ پوری آبادی کا۔ میرے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے۔ اور میں کیا کیا سنتی ہوں۔ سنئیے۔

ایک فیمیل دوست نے کہا کہ میم کال پہ بات کرنی ہے۔ کال پہ بات کی تو اسے یہ سن کے حیرت کا جھٹکا لگا۔ کہ میں تو اپنی فیملی ساتھ رہتی ہوں۔ یعنی بچوں اور شوہر کے ساتھ۔ ان کو کسی نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ میرے شوہر نے بچے چھین کے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔ میں اکیلی رہتی ہوں۔ ایک اور لڑکی سے بات ہونا شروع ہوئی تو اس نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات کہی۔ کچھ لوگوں سے پتہ چلا کہ میں تو اکیلی ہوں اور ٹوٹی پھوٹی پڑی ہوں۔ یعنی کہ سبحان اللہ۔ اتنی میں ڈائجسٹ والی ہیروئن نہیں کہ تکیے میں منہ دے کر روتی پھروں۔ وہ بھی خیالی باتوں پہ۔

مجھے ملنے جلنے والے مجھے جانتے ہیں کہ میں کیسی ہوں۔ میں سکسٹیز کی کوئی فلمی ہیروئن نہیں کہ منہ میں دوپٹے کا کونا دبا کے آنکھیں جھپکا جھپکا کے شرماؤں۔ بھئی مجھے اپنے حقوق کا پتہ ہے۔ میں اپنی مثال اس لیے دیتی ہوں۔ کہ کسی دوسرے کے متعلق مجھے جو علم ہے۔ میں ان کی پرائیویسی کیوں ڈسٹرب کروں۔ میں اپنی مثال سامنے رکھ کے بات کرتی ہوں۔ تا کہ پڑھنے والے یہ مت سمجھیں کہ یہ کوئی ہوائی باتیں ہیں۔

معاشرے کو ذہنی طور پر بالغ ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر آنے والی نسلوں کو باشعور دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو آج سے اپنے ذہن کو وسیع کرنا شروع کریں۔ عورت اگر ٹیبوز پہ بات کرتی ہے۔ تو اسے بیڈ پہ پہنچا ہوا دیکھنے کی بجائے اس کے ساتھ بیٹھ کے ڈسکشن کرنے کی سوچیں۔ اگر آپ کم عقل پیدا ہو گئے ہیں تو کم عقل ہی مر جانا کوئی ضروری نہیں ہے۔ معاشرے کے باشعور اور مفید انسان کے طور پہ اپنا کردار ادا کیجئیے۔

جئیں اور جینے دیں۔
نوشی بٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).