خدا کو خدا حافظ کہنے کے بعد


زیبا شہزاد کا ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کے نام خط

آداب ڈاکٹر صاحب!

آپ کے کالم پڑھ کر جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے وہیں جب آپ خود کو دہریہ لکھتے ہیں تو اس بارے جاننے کی آرزو ہوتی ہے کہ آپ دہریہ کیسے بنے؟ وہ کیا وجوہات تھیں جس نے آپ کو مذہب سے دور کیا۔ آپ اپنے کالمز میں بڑے فخریہ انداز خود کو دہریہ بتاتے ہیں وہی فخر جو کسی بھی مذہب سے منسلک افراد کو اپنے مذہبی ہونے پہ ہوتا ہے۔ آپ جب خود کو دہریہ لکھتے ہیں تو آپ کے لہجے سے کسی طرح کا ڈر یا خوف نظر نہیں آتا کہ آپ کے قاری یا آپ کے مریض اس بات کو کس طرح لیں گے۔

کسی بھی مذہب کو ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور کوئی بھی دوسرا انسان اس پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ دہریہ لوگوں کو بھی اس معاملے خدا کے ذات کو تسلیم کرنے سے انکار میں اتنی ہی آزادی ہے جتنی کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو، کوئی مسلم ہونا چاہتا ہے کوئی سکھ، کوئی عیسائی اور کوئی ہندو یا پھر کسی اور مذہب پر چلنا چاہتا ہے اس پہ جبر نہیں۔ کسی بھی مذہب کو ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور کوئی بھی دوسرا انسان اس سے یہ حق نہیں چھین سکتا کہ یہ اس کا خالص ذاتی معاملہ ہے۔

ہر مذہب اپنے ماننے والوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک ضابطہ حیات دیتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی گزاریں، لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے وہ زندگی گزارنے کے لیے، اپنی فیملی بنانے کے لیے کسی ریاست کے قانون کے مطابق چلتے ہیں، یا پھر ان کا اپنا ہی قانون ہے۔ ایک کٹر مذہبی اور دہریہ کو اگر محبت ہوتی ہے تو ساتھ رہنے کے لیے وہ کیا راستہ اپنائیں گے؟

آپ اپنی کتاب میں بدھا کو اپنا استاد کہتے ہیں۔ لیکن اکیلے جنگلوں میں زندگی گزارنے کے بعد بدھا جب واپس آتے ہیں تو وہ بھی زندگی گزارنے کے آداب بتاتے ہیں دوسرے لفظوں میں ایک قانون تو بناتے ہیں کہ زندگی ایسے گزارنی چاہیے۔ مطلب کوئی نہ کوئی قانون تو ہوتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ قانون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سمجھتے ہیں کہ قانون فالو کرنا چاہیے تو وہ قانون تو ہر مذہب دیتا ہے۔ کہ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جو انسانوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کی بات کرے۔ جرم کی پیٹھ پر تھپکی دے اور اچھائی سے نفرت کرے۔

ہر مذہب میں کسی نہ کسی صورت خدا کا تصور پایا جاتا ہے۔ وہ اسے ایشور کہیں بھگوان، یا خدا۔ لیکن خدا کا ایک تصور سب کے ہاں موجود ہے کہ کوئی ہے جو اس دنیا کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ اور بعد از موت انھیں اس ایشور بھگوان یا خدا کے سامنے جواب دے کر اچھی یا بری جگہ (جنت یا دوزخ ) میں بھیجا جائے گا ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والے کو یقین ہوتا ہے کہ اچھے کاموں کی وجہ سے جنت ملے گی۔ دہریہ لوگ جب خدا کے منکر ہوتے ہیں تو وہ جنت دوزخ کے تصور سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں تو پھر آپ بھلائی یا برائی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

ظاہر ہے آپ ہر کسی کا تو نہیں بتا سکتے لیکن اپنے بارے بتائیے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس نے آپ کو دوزخ جنت کے جھنجھٹ سے آزاد کر دیا۔ کیا مذہبی شدت پسندی، مذہب کی بندشوں نے آپ کو مذہب سے دور کیا یا کچھ اور وجوہات تھیں جس کی بنا پہ آپ نے لا دینی اختیار کی۔ اور جب آپ اس سب سے آزاد ہوئے تو آپ کے خاندان کی طرف سے کیا ردعمل آیا، آپ کے فیصلے پر آپ کے والد اور والدہ کے کیا تاثرات تھے، اپ کے کالموں کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی والدہ ایک روایتی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ نے مشکلات کو فیس تو کیا ہوگا۔ اور ایک آخری سوال کہ آپ دہریہ لوگ اپنی زندگی تو جیسے سہی گزار لیتے ہیں لیکن موت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ موت جو ہر ذی روح کو آنی ہی ہے تو دہریہ لوگ اپنی آخری رسومات کے متعلق کیا کہتے ہیں کہ وہ کس شکل میں ادا کی جائیں۔

طالب جستجو
زیبا شہزاد

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

زیبا شہزاد صاحبہ!

آپ بخوبی جانتی ہیں کہ میں آپ کے، ہم سب، کے نیم مزاحیہ اور نیم طنزیہ کالم بڑی سنجیدگی سے پڑھتا ہوں اور محظوظ ہوتا ہوں۔ آپ کا خط اپنائیت اور خلوص کی خوشبو سے بھرا ہوا ہے اسی لیے اس نے مجھے اس کا جواب لکھنے کی تحریک دی۔ آپ نے مختصر سے خط میں کئی گمبھیر سوال پوچھے ہیں تفصیلی جواب کے لیے مجھے کتابچہ لکھنا پڑے گا۔ مختصر جواب حاضر ہیں۔

خدا کا تصور

مجھے بچپن کا وہ دور یاد ہے جب میں اپنے موروثی مذہب پر اعتقاد اور ایک ایسے خدا پر ایمان رکھتا تھا جو ساتویں آسمان پر لاکھوں سالوں سے رہ رہا تھا۔ میرے ذہن میں خدا کا تصور ایک بزرگ باریش مرد کا تصور تھا جو ایک تخت پر براجمان تھا اور اس کے چاروں طرف بیسیوں فرشتے تھے جو اس کے احکامات کے دن رات منتظر رہتے تھے۔ وہ خدا تمام انسانوں کی دعائیں سنتا تھا اور ان کے مسائل کو حل کرتا تھا۔ میرا ایمان تھا کہ وہ خدا اس کائنات کا خالق تھا اور اس جہان کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہ ہلتا تھا۔

لیکن جوں جوں میرا سائنس، نفسیات، فلسفے اور تاریخ کا علم بڑھا اور میں نے زندگی اور کائنات کے مسائل کے بارے میں غور و خوض کرنا شروع کیا تو میرے خیالات اور نظریات میں تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں۔ مجھے دھیرے دھیرے اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ ہم سب انسان دو دنیاؤں میں رہتے ہیں۔

ایک دنیا حقیقت کی مادی دنیا ہے جو خارجی دنیا ہے اور ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔

دوسری دنیا داخلی اور خیالی دنیا ہے جو ہمارے تصورات کی بنائی ہوئی ہے۔ یہ دنیا تجریدی، علامتی اور استعاراتی ہے۔ ایسی دنیا خوابوں اور آدرشوں کے ساتھ ساتھ نظموں اور کہاوتوں کو جنم دیتی ہے۔ جب ہم عالمی لوک ورثہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مختلف تہذیبوں کی نفسیات سمجھ آتی ہے اور ان کی ثقافت کے بارے میں بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

جب ہم مختلف ثقافتوں کی اساطیری کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف معاشروں میں خدا کا تصور جدا جدا ہے۔ کئی تہذیبوں میں خدا ایک دیوتا کی طرح مردانہ فوقیت کا حامل تھا اور کئی تہذیبوں میں وہ دیوی کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ کہیں خدا کسی باپ کی طرح سخت گیر اور جابر تھا اور کہیں کسی ماں کی طرح شفیق اور مہربان۔ کسی تہذیب میں خدا ایک غیر مرئی حقیقت تھا جبکہ کسی اور تہذیب میں وہ انسانوں کے بنائے ہوئے بتوں کی شکل میں ایستادہ تھا۔ کسی کلچر میں وہ۔ ۔ ۔ ہمہ از اوست کے فلسفے کے مطابق۔ ۔ ۔ کائنات سے علیحدہ ایک خالق تھا اور کسی کلچر میں وہ۔ ۔ ۔ ہمہ اوست کے فلسفے کے مطابق۔ ۔ ۔ کائنات کا حصہ تھا۔

مذاہب عالم اور دیومالائی کہانیوں کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہر قوم اور ملک کا خدا اس قوم کے لوگوں کی نفسیات کا آئینہ دار تھا۔ وہ حقیقت سے زیادہ ایک استعارہ تھا۔

میں نے خدا کے تصور کے بارے میں مشرق و مغرب کے بہت سے فلسفیوں اور دانشوروں کے نظریات کا مطالعہ کیا۔ وقت اور جگہ کی قلت کی وجہ سے میں یہاں صرف تین دانشوروں کے خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مذہبی دانشور کیرن آرمسٹرانگ
روحانی دانشور کرشنا مورتی
سائنسی دانشور سٹیون ہاکنگ

مذہبی دانشور کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب، خدا کی تاریخ، ”ہسٹری آف گاڈ“ میں انسانوں کے خدا پر ایمان اور اس ایمان میں مخفی تضادات کے بارے میں سیر حاصل بحث کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے ہولوکاسٹ کے المیے کے بعد خدا کے تصور کو شدید جھٹکے لگے۔ وہ لکھتی ہیں

”ایک دن ہٹلر کے ظالم گسٹاپو نے ایک بچے کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا۔ یہ اتنا ہولناک منظر تھا کہ کئی سپاہی خود اس بچے کو ہزاروں انسانوں کے سامنے اس طرح پھانسی دینے پر مضطرب ہوئے۔ نوبل انعام یافتہ یہودی دانشور ایلی ویزل اس حادثے کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ جس بچے کو پھانسی دی گئی اس کا چہرہ ایک غمزدہ فرشتے کی طرح معصوم تھا جو ان جانگسل حالات کی وجہ سے زردی مائل ہو چکا تھا۔ وہ خاموشی سے آہستہ آہستہ قدموں سے پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھتا رہا۔ ایک قیدی نے۔ ۔ ۔ جسے بزور اس بچے کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ۔ ۔ سوال کیا کہ ’اس وقت خدا کہاں ہے؟‘ ویزل نے اپنے دل کے نہاں خانے میں ایک ڈوبتی آواز سنی جو کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ خدا یہیں ہے۔ اسے یہاں پھانسی کے تختے پر چڑھایا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ہولوکاسٹ کے بعد بہت سے یہودی اس خدا کے منکر ہو گئے جو ویزل کے کہنے کے مطابق عقوبت خانے میں سب کے سامنے پھانسی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔“

کیرن آرمسٹرانگ لکھتی ہیں ”اگر خدا قادر مطلق ہوتا تو یقیناً معصوم بچے کے قتل کو روک سکتا۔ اگر وہ ظلم کو روکنے سے عاری ہے تو وہ ایک کمزور خدا ہے اور اگر وہ روک سکنے کے باوجود نہیں روکتا اور خاموش ہے تو پھر وہ جابر خدا ہے۔“

مشرق کے روحانی دانشور کرشنا مورتی اپنی کتاب ”دی لاسٹ فریڈم“ میں لکھتے ہیں کہ خدا پر ایمان لوگوں کو ظلم و تشدد سے باز رکھنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ خدا پر ایمان ایک اچھی اور نیک زندگی گزارنے کی تحریک دیتا ہے تو پھر آپ اس سے انکار کیوں کرتے ہیں تو وہ فرمانے لگے، آئیے ہم اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کریں اور عقلی دلائل کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کریں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ خدا پر ایمان لانے سے انہیں قلبی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ زندگی میں معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم معروضی طریقے سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ بہت سے خدا کو ماننے والوں کی زندگی میں اس ایمان کی اہمیت رتی برابر بھی نہیں ہے۔

لوگ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور استحصال کرتے ہیں۔
ایک آسمانی خدا پر یقین رکھتے ہیں اور زمین پر قتل و غارت کرتے ہیں۔
جن لوگوں نے ہیروشیما پر بم گرائے ان کا دعویٰ تھا خدا ان کا حامی و ناصر تھا۔
وہ ہوا باز جو انگلستان سے جرمنی کو تباہ کرنے اڑے تھے کہتے تھے خدا ان کا کوپائلٹ ہے۔

11 ستمبر 2001 سے پہلے اور بعد میں جن دو رہنماؤں نے ساری دنیا میں تباہی و بربادی پھیلائی ان میں ایک مغرب کا جارج بش تھا دوسرا مشرق کا اسامہ بن لادن۔ دونوں نہ صرف خدا پر ایمان رکھتے تھے بلکہ دونوں کا دعویٰ تھا کہ خدا ان ہی کے ساتھ ہے۔

سائنسی دانشور سٹیون ہاکنگ اپنی مشہور کتاب ”دی گرینڈ ڈیزائن“ میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ ہم ایک کائنات (یونی ورس) میں نہیں بہت سی کائناتوں (ملٹی ورس) میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کائناتیں پیدا ہوتی ہیں، پلتی بڑھتی ہیں، پھیلتی ہیں، اپنی انتہا تک پہنچنے کے بعد سکڑنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر کسی بلیک ہول میں غائب ہو جاتی ہیں۔ پھر اس بلیک ہول کی کوکھ سے ایک نئی کائنات جنم لیتی ہے۔ کائناتوں کے پیدا ہونے مرنے دوبارہ پیدا ہونے کا یہ سلسلہ دراز ہے۔ یہ نجانے کب سے چل رہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا۔

عارف عبدالمتین کا شعر ہے
وقت اک بحر بے پایاں ہے کیسا ازل اور کیسا ابد
وقت کے ناقص پیمانے ہیں ماضی مستقبل اور حال

سٹیون ہاکنگ فرماتے ہیں کہ کائناتوں کی زندگی اور موت کو سمجھنے کے لیے قوانین فطرت کافی ہیں کسی خدا کے تصور اور عقیدے کی چنداں ضرورت نہیں۔

نیکی کا تصور اور اخلاقیات

میں نے اپنی زندگی میں جس قدر نیکی اور بدی کے بارے میں غور کیا ہے مجھے اسی قدر اندازہ ہوا ہے کہ بعض نیکیاں اعلیٰ درجے کی ہوتی ہیں اور بعض ادنیٰ درجے کی۔ میری نگاہ میں سب سے ادنیٰ درجے کی نیکیاں وہ ہیں جو خوف کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے نیکی نہ کی تو انہیں اس دنیا یا آخرت میں اس کی سزا دی جائے گی اور وہ جہنم کی آگ میں جلیں گے۔

درمیانے درجے کی نیکیاں وہ ہیں جو کسی لالچ کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ چاہے وہ کسی دوسرے انسان کو خوش کرنے کے لیے ہوں یا جنت میں جانے میں کی خواہش کی وجہ سے۔

میری نگاہ میں سب سے اعلیٰ درجے کی نیکی وہ ہے جس میں انسان وہ کام کرتا ہے جسے کرتے ہوئے اسے مسرت محسوس ہوتی ہے۔ جیسے ایک فنکار کو فن تخلیق کرتے ہوئے یا ایک ماں کو اپنے بچے سے محبت کرتے ہوئے۔

سیکولر حکومتوں نے گناہ کے تصور کو جرم کے تصور سے بدلا ہے۔

میری نگاہ میں اخلاقیات کا تصور انسان کے ضمیر سے ہے۔ انفرادی طور پر لادین لوگ مذہب کی بجائے اپنی عقل، اپنے شعور اور اپنے ضمیر سے رہنمائی لیتے ہیں اور اجتماعی طور پر ایسے قوانین بناتے ہیں جن میں مذہب انسان کا ذاتی فعل بن جاتا ہے اور قوانین انسان دوستی کے اصولوں پر بنائے جاتے ہیں جن میں تمام شہریوں کو، جن میں بچے عورتیں اور اقلیتیں شامل ہوتی ہیں، برابر کے حقوق اور مراعات دیے جاتے ہیں۔ ایسے ممالک کی مثالیں ناروے ڈنمارک سویڈن اور کینیڈا ہیں۔

محبت

جب ایک خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے ایک دوسرے کو چاہتے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ محبت مذہب سے کہیں بہتر اور فطری رہنما ہے۔ خلیل جبران فرماتے ہیں

Do not ever think you can guide love if love finds you worthy she will guide you

مذہبی لوگ دو انسانوں کے درمیان جنسی عمل کو نیکی بدی، جنت دوزخ اور گناہ و ثواب سے جوڑتے ہیں جبکہ انسان دوست دو محبوبوں کے درمیان جنس کو محبت دوستی اور خلوص کا فطری اظہار سمجھتے ہیں۔

والدین

میری روایتی اور مذہبی والدہ میری غیر روایتی اور غیر مذہبی طرز زندگی سے دلبرداشتہ رہتی تھیں لیکن میرے اور میرے والد کے درمیان ایک محبت اور احترام کا رشتہ تھا۔ وہ مذہبی تھے میں سیکولر۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ لوگ میرے فلسفہ حیات کا احترام کریں تو مجھے بھی ان کے فلسفے کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا۔

آخری رسومات

یہ ہر دہریہ اور انسان دوست کا ذاتی فیصلہ ہے کہ وہ مذہبی رسومات کے بغیر اپنی لاش کو دفنانے یا جلانے کی وصیت کرے۔ اب کینیڈا میں انسان دوست سوگ منانے کی بجائے مرنے والے کی ”سیلی بریشن آف لائف“ کی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔

اردو کی معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی نے اپنی لاش کے جلانے کی وصیت کی اور یہ بھی بتایا کہ اس کی وجہ مذہب سے زیادہ جمالیات تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی نگاہ میں لاش کو جلانا زیادہ شاعرانہ عمل ہے۔ وہ اس غیر شاعرانہ تصور کو سوچ کر کانپ اٹھتی تھیں کہ ان کی لاش کو قبر میں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کیڑے مکوڑے طویل عرصے تک کھاتے رہیں گے۔

جہاں تک جنت کے تصور کا تعلق ہے مرزا غالب فرماتے ہیں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

زیبا شہزاد صاحبہ!

چالیس برس کے نظریاتی اور نفسیاتی سفر کا ماحصل یہ ہے کہ بہت سے مذہب اور خدا پر یقین رکھنے والوں کی طرح میں بھی جب مذہب اور خدا کو مانتا تھا تو احساس گناہ کا شکار ہوتا تھا اور ناخوش رہتا تھا لیکن جب سے خدا کو خدا حافظ کہہ کر انسان دوستی کو گلے لگایا ہے میں تخلیقی ریاضت اور انسانوں کی خدمت کو اپنی سیکولر عبادت سمجھتا ہوں اور ایک پرسکون زندگی گزارتا ہوں۔

اب میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی انسانی آنکھیں۔

مختصر جواب کی معذرت۔ آپ کے خط کو پڑھنے کے بعد میں ان سوالات کے تفصیلی جوابات لکھنے کے لیے ایک کتابچہ لکھنے کا سوچ رہا ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

آخر میں اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ تاریخ کے سینکڑوں خداؤں کی تردید کر کے صرف ایک خدا کو کیوں مانتی ہیں اور ساری دنیا میں مذہبی خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچے ساری عمر اسی مذہب پر کیوں اعتقاد رکھتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے؟ اور ہر مذہب اور مسلک کے پیروکار یہ دعویٰ کیوں کرتے ہیں کہ ان کا مذہب باقی مذاہب اور مسالک سے بہتر ہے؟

آپ کے کالموں کا مداح
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail