تخلیق کے معجزے


صبح سے بے چینی طاری تھی، آج تہیہ کیے بیٹھا تھا کہ کچھ لکھا جائے گا مگر دل کسی ایک موضوع پر ٹھہر نہ پا رہا تھا۔ اضطراری کیفیت میں قلم اور ڈائری ہاتھ میں لی اور اس کشمکش کو ہی کاغذ پر منتقل کرنے لگا۔ یہ اندیشہ ہونے لگا کہ شاید ذہن بنجر ہو گیا ہے اور یہ سوکھی زمین تخلیق کی کھیتی کے قابل نہ رہی تھی یہ کیفیت انسان کو ذہنی پژمردگی کا شکار بنا سکتی ہے۔

میں نے معقولیت پر مبنی سوچ کے استعمال کی شعوری کوشش کی اور بزرگ تخلیق کاروں کے بارے سوچا کہ ایک لکھاری، شاعر، مصور یا سنگ تراش کچھ لکھنے یا بنانے سے پہلے کن مراحل سے گزرتا ہو گا۔ کسی بھی فن پارے کی تخلیق سے پہلے کہ جب ابھی اس کا خیال ان کے ذہن میں وارد نہیں ہوا ہو گا، اور وہ اس کشمکش میں ہوں گے کہ ایسا کیا تخلیق کیا جائے یا لکھا جائے جو دلوں کو گرما دے، ان کی ذہنی کیفیات بھی خلجان کی سی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس تردد میں انہیں بھی یاسیت آن گھیرتی ہو۔

اگر اس فن پہ ان کے معاش کا بھی دار و مدار ہو تو پھر صورتحال اور بھی گمبھیر ہو جاتی ہو گی۔ لکھاری کی اس ذہنی صورتحال کو انگریزی میں ’رائٹرز بلاک‘ کہا جا سکتا ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے ہاتھوں کوئی ایسا شہ پارہ وجود میں آنے والا ہو جو انہیں شہرت کی رفعتوں پہ پہنچانے والا ہے یا معاشی استغنا بخشنے والا ہے۔ گومگو کی ان کیفیات میں اگر تخلیق کار یہ فیصلہ کر لے کہ یہ کام اب اس کے بس کا روگ نہیں اور اس کو ترک کر کے کچھ ’ڈھنگ‘ کا کام کرنا چاہیے، جیسا کہ ایسے مشورے دینے والے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، تو پھر شاہکار فلمیں، گانے، کتابیں، نقاشی اور مصوری کے فن پارے اور سائنسی ایجادات کیسے ظہور پذیر ہوں پائیں اور اگر تمام تر کوششیں شاہکار نہ بھی بن پائیں تو بھی یہ سب اقدامات کامرانی کی طرف لے جانے والے مراحل تو ہوتے ہیں۔

تخلیق ایک صبر آزما اور محنت طلب کام ہے۔ بظاہر دنیا میں آپ کو دو طرح کے تخلیق کار نظر آتے ہیں، ایک طرف تو لیونارڈو ڈاؤنچی ہیں جنہوں نے ’مونا لیزا‘ کو چار سال کے طویل عرصے میں تخلیق کیا، عبداللہ حسین نے وقت گزاری کے لیے لکھنا شروع کیا لیکن سخت محنت اور تحقیق کے بعد اپنا پہلا ناول ’اداس نسلیں‘ پانچ سالوں میں تخلیق کیا جبکہ مشتاق احمد یوسفی نے ’آب گم‘ بارہ سال کے طویل عرصے میں لکھی۔ مشہور سائنسدان ٹامس ایڈیسن اپنی متواتر کوششوں کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ ’میں ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے دس ہزار ایسے طریقوں کا کھوج لگا لیا ہے جو کہ کارگر نہیں‘ ۔

دوسری طرف کچھ لوگ جیسے کہ مستنصر حسین تارڑ صاحب ہیں جنہوں نے قلاشی کے زمانے میں اپنے پبلشر دوست سرور سکھیرا سے یورپ کے سفر کے لیے پیسے ادھار مانگے تو انہوں نے شرط رکھ دی کہ جو ان کے سفر نامے ’نکلے تری تلاش میں‘ کا باب ’اپاہج پاسکل‘ ہے وہ انہیں بہت پسند ہے اگر تارڑ صاحب اس کا ایک ناول بنا دیں تو وہ انہیں پیسے دے دیں گے۔ تارڑ صاحب نے اس باب میں مزید افسانوی عنصر کا اضافہ کر کے دس دن میں ناول ’پیار کا پہلا شہر‘ لکھ دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی آئندہ کی زندگی میں ان کے آدھے اخراجات صرف اس ایک ناول کی رائلٹی سے ہی پورے ہو جائیں گے جس کو انہوں نے کسی کی فرمائش پر وقتی ضرورت پوری کرنے کے تحت تخلیق کیا تھا، اب تک اس کے ساٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مشہور کیمیا دان آگسٹ کیکولے نے بینزین کی ساخت خواب میں دریافت کی۔

ارشمیدس نے باتھ ٹب میں لیٹے لیٹے قوت اچھال دریافت کی اور ”یوریکا یوریکا“ (میں نے پا لیا) چلاتا ہوا ننگ دھڑنگ ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ منٹو کے بارے میں نقاد کہتے ہیں کہ ان سے متعدد شہرہ آفاق افسانے دختر انگور کی ایک بوتل اور جگر کی آگ ٹھنڈی کرنے کے عوض لکھوا لیے جاتے تھے۔ اشفاق احمد کے معرکتہ الآرا افسانے ’گڈریا‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کے اسے انہوں نے انتہائی عجلت میں لاہور جی پی او کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کر لکھا تھا کیونکہ انہیں اسے آخری تاریخ گزرنے سے پہلے چھپنے کے لیے بھجوانا تھا (دروغ بر گردن راوی) آج اس افسانے کے بغیر اردو قصہ گوئی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔

لیکن ایسی اچانک اور فی البدیہہ تخلیقات اور دریافت کے پیچھے بھی برسوں کی ریاضت ہوتی ہے اور مایوس ہوئے بغیر کوشش جاری رکھنا ہوتی ہے۔ آپ کو ادراک نہیں ہو سکتا کہ کب اور کون سا قدم آپ کی زندگی کا ایک سنگ میل ثابت ہو۔

کائنات کا سب سے بڑا تخلیق کار خدا ہے جس نے کن کہا اور جس چیز کو بننے کا حکم دیا وہ وجود میں آ گئی، اس نے یہ کائنات چھ دن میں تخلیق کی اور انسان جو اس کی سب سے بہترین اور افضل ترین تخلیق ہے، اس کا وجود لاکھوں سال کے عوامل کا نتیجہ ہے، اگر وہ چاہتا تو سب آن کی آن میں وجود میں آ جاتا لیکن شاید مقصد یہ سبق دینا تھا کہ ہر تخلیق وقت اور مراحل کی متقاضی ہے۔ خدا کی تمام تخلیقات میں انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے خود انواع و اقسام کی تخلیقات کا اختیار دے دیا گیا ہے اور اس کائنات کو اس کے حوالے کر کے تسخیر کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انسان کے سامنے ایک کھلا میدان ہے کہ وہ اپنے علم اور وجدان کے گھوڑے دوڑائے اور لامتناہی تخلیقات اور ایجادات کرے۔ ایک فرد کی حیثیت اس سارے بندوبست میں محض ذرہ برابر کل پرزے کی سی ہے جس نے محدود زندگی میں کائنات کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے جانا ہے، انسان کا کام کوشش جاری رکھنا ہے۔

میری رائے میں تخلیق مسلسل محنت اور مستقل مزاجی کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اس کو اپنے آپ میں ہی کھوجنا پڑتا ہے۔ اس کا تعلق نہ صرف شعوری سعی سے ہے بلکہ لاشعوری طور پر بھی انسان اس میں محو عمل رہتا ہے اور انہی مسلسل کوششوں کے امتزاج سے فنون لطیفہ وجود میں آتے ہیں۔ نزول یا آمد کا جہاں تک تعلق ہے تو ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ خدا صرف نبیوں سے رابطہ کرتا ہے یا معمولی انسان کے دل میں بھی تصور اور خواب کے ذریعے خیال پیدا کرتا ہے؟

عام انسان جو تخلیق کے فن کا کھلاڑی ہے اس کے ذہن میں فقط ایک خیال پیدا ہوتا ہے جس کے لیے اسے غور و فکر میں مگن رہنا پڑتا ہے، اور پھر اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اور مادی شکل میں سجانے سنوارنے کی غرض سے مسلسل ریاضت اور محنت درکار ہوتی ہے۔ اس کو نراشا کے دور میں بھی آشا جگائے رکھنا پڑتی ہے۔ کیا معلوم اگلے ہی لمحے کسی کی تخلیق عقل کو دنگ کر دینے والا شہ پارہ قرار پائے اور اس کا شمار لیونارڈو ڈاونچی، شیکسپئر یا مرزا غالب جیسے تخلیق کاروں کی فہرست میں ہونے لگے۔ بس اسی سوچ میں گم میں نے یہ تحریر لکھ ڈالی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).