ناصر خالد: بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی


ناصر خالد کی والدہ ابھی 30 سال سے بھی کم عمر تھیں کہ ایک دن اچانک گھر کا کام کرتے ہوئے شوہر کی شہادت کی خبر آئی۔ شوہر پر دیوار گری، اور بیوہ پر آسمان۔ چار چھوٹے چھوٹے بچے گود میں لیے بے بسی کی تصویر بنی رہ گئی۔

لیفٹینینٹ شہید ناصر خالد کی والدہ ہمیشہ کے لیے بچوں کی ہو کر رہ گئی۔ سب بہاریں خزاؤں میں بدل گئیں۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ ایم اے اردو کر کے پڑھانے لگی۔ محترمہ کے ساتھ ملاقات سکول میں ہی ہوئی۔ ہم نہم و دہم کو انگریزی پڑھاتے، اور آپ اردو سکھاتیں۔ اس قدر تکلیف دہ زندگی گزارنے کے باوجود، مجال ہے کبھی چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی ہو۔

ہمیشہ مسکراتیں، خوش رہتیں، خوش رکھتیں۔ کوئی برا بھلا کہہ بھی دیتا تو پلٹ کر جواب نہ دیتیں۔ معاشی حالات ابتر تھے، مگر عجیب خاتون تھیں، ہمیشہ چہرے پر اطمینان۔ جب بھی بچوں میں سے کسی کو کوئی کامیابی ملتی، پورے سکول میں خوشی سے سناتی پھرتیں، کبھی کچھ کھلاتیں، کبھی کچھ۔ بار بار بتاتیں ناصر فوجی بن رہا ہے۔ ناصر بہت یاد کرتا ہے۔ چھٹی پہ آیا تھا، بہت خوش تھا ماں سے مل کر۔ میرے بچے ہی میری کمائی ہیں۔ انہیں کے سہارے میں زندہ ہوں۔ یہی میری مسکراہٹ ہیں۔

جس دن ناصر کا آسٹریلیا میں ٹریننگ کے لیے ویزا لگا، سکول میں جشن کا سا سماں تھا۔ تنگ دست ہونے کے باوجود سب کو کھانا کھلایا، خوشی بانٹی، رنگ بکھیرے۔ اور ہمیں لگا کہ اللہ نے ان کی مشکلات کے بدلے یہ خوشیاں دے کر بیلنس کر دیا ہے۔ سارے غم بھول گئی تھیں۔ بہت خوش تھیں۔ اور ان کی خوشی ہر طرف دیدنی تھی۔

آج جب خبر ملی کہ شمالی وزیرستان میں کسی دھماکے کے باعث ناصر شہید ہو گیا ہے، زمین کانپ گئی۔ بیلنس پھر سے آؤٹ ہو گیا۔ دل یوں پھٹا کہ کلیجہ منہ کو آ گیا۔ کئی گھنٹے بیت جانے کے بعد بھی سوال تھم نہیں رہے۔ لفظ بھیگتے جا رہے ہیں، اور کاغذ جلتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ماں بیٹے کی تصویر گھوم رہی ہے۔ ناصر چلا گیا ہے۔ کس منہ سے اس کی ماں کو دلاسا دیں؟ فون کر کے کیا کہیں؟ شہادت پر مبارک باد کا رواج بتانے والے یہ بھی بتا دیں کہ وہ حوصلہ کہاں سے آتا ہے کہ جب ایک ماں کو اس کے بیٹے کے چلے جانے کی مبارک دی جاتی ہے؟

پاکستان مسائل کا گڑھ بنتا جاتا ہے۔ بچے دوسرے ملکوں کو بھاگ رہے ہیں۔ بڑے بچوں کو مستقبل سے ڈرا رہے ہیں۔ میڈیا فلموں اور ڈراموں کے ذریعے تباہی لا رہا ہے۔ اور اس بھڑکتی ہوئی آگ میں یہ معصوم یتیم جانیں دے رہے ہیں۔ ہم فوج کی کرپشن اور سول معاملات میں مداخلت کا رونا رونے والے ان ماؤں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیوں نہیں جاتے؟ اور جائیں بھی تو کس منہ کے ساتھ؟ کہاں سے ملتا ہے ایسا مرہم جو ایسی ماؤں کے دلوں کو جلا بخشے؟

ہم حق و باطل کی لڑائی میں حق کا ساتھ دینے کا دعویٰ کرنے والے قلم کار، آخر کب تک اپنی مرضی کے حق کا ساتھ دیتے رہیں گے؟ کب ہمارے قلم ان شہدا کے حق میں اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کے لیے آواز بلند کریں گے؟ یہی آج کا سوال ہے۔ اور یہ آج کی الجھن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).