بایزید انصاری اور روشنیہ فرقہ


سولہویں صدی کے اوائل میں جب لوتھر اور زوینگلی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں پروٹسٹنٹ تحریک کا آغاز کر رہے تھے۔ پنجاب میں گرونانک ایک نیا مذہب شروع کر رہے تھے اور بندگی میاں مہدوی تحریک کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے تقریباً اسی دوران میں سن پندرہ سو پچیس عیسوی میں جالندھر میں ایک ولادت ہوئی جو آگے چل کر بایزید انصاری کے نام سے جانے جاتے ہیں جنہوں نے روشنیہ فرقے کی بنیاد رکھی۔

بایزید انصاری وزیرستان کے اورمڑی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے خاندان کے کچھ لوگ جالندھر میں آباد تھے جہاں بایزید انصاری پیدا ہوئے۔ وزیرستان واپس جاکر انہوں نے بڑا مذہبی مقام حاصل کیا۔ بڑی ریاضتوں اور عبادتوں کے بعد اپنے خیالات کو پیش کیا تو مخالفت ہوئی جس پر وہ وادی تیراہ چلے گئے وہاں کئی قبیلیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی مگر مخالفوں نے کابل کے بادشاہ مرزا محمد حکیم کے پاس شکایت کی جس پر انہیں گرفتار کرکے کابل بھیج دیا گیا۔

جہاں کابل کے حکم ران اور قاضی ان کے باتوں سے مطمئن ہوئے جہاں سے پیر روشن پشاور آگئے اور اپنی کتاب ”صراط التوحید“ شہنشاہ اکبر کے پاس بھیجی۔ مگر پھر پیر روشن کے مریدوں اور مغلوں میں لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ پیر روشن نے بھی بڑے طویل سفر کیے اور اسماعیلیوں کے علاوہ ہندو یوگیوں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔

بایزید انصاری یعنی پیرروشن کی تعلیمات میں بھگتی، اسماعیلی، مہدوی اور صوفی روایات کا مغلوبہ پایا جاتا ہے۔ بابا گروہ نانک کی طرح پیر روشن بھی مختلف مذہبی نظریات سے فیض اٹھانے کی کوشش میں تھے۔ وہ ابن عربی کے وحدت الوجود سے بھی متاثر تھے جس پر راسخ العقیدہ مسلمان خاصی تنقید کرتے ہیں۔

سید محمد جون پوری کی طرح پیر روشن کو بھی احساس تھا کہ وہ ایک عظیم منصوبے کی تکمیل پر مامور ہیں۔ پیر روشن ذکر خفی یا خاموش ذکر کے قائل تھے۔ جب کہ جون پوری دیدار خدا کی تلاش میں تھے۔ پیر روشن قرب خدا کے داعی تھے۔ چالیس برس کی عمر میں پیر روشن نے بھی دعویٰ کیا کہ انہیں غیبی آوازیں آتی ہیں جو کہتی ہیں کہ مذہب کے ظاہری رسم و رواج چھوڑ دو۔

یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ اور بھگتی تحریک اور مہدویوں کی طرح پیر روشن بھی روایات کے خلاف ہیں۔

روشنیہ فرقے کے بارے میں کارآمد تعارف ہمیں ”دبستان المذاہب“ نامی فارسی کتاب میں ملتا ہے جو سترہویں صدی میں ایک ایرانی نژاد کشمیری عالم محسن فانی نے لکھی تھی۔ محسن فانی شہزاد دارہ شکوہ کے زیر سایہ بھی رہے۔

ڈاکٹر ظہور الدین احمد اپنی کتاب ”پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ“ مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور میں لکھتے ہیں کہ محسن فانی ملا محمد کافی کے شاگرد تھے۔ انہوں نے علم و فضل میں کمال پیدا کیا اور شاہ جہاں نے بھی ان کی قدرومنذلت کی اور سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔

ڈاکٹر ظہور الدین احمد نے محسن فانی کا تفصیلی ذکر دس صفحات میں کیا ہے اور ان کی شاعری اور حالات لکھے ہیں مگر فانی کی تصانیف میں جن پانچ کتابوں کا ذکر ہے ان میں ایک دیوان اور پانچ مثنویاں شامل ہیں مگر ”دبستان المذاہب“ کا ذکر نہیں ہے البتہ ڈاکٹر ظہور مختلف حوالوں سے یہ ضرور لکھتے ہیں کہ محسن فانی وسیع المشرب اور صلح کل کے مذہب پر یقین رکھتے تھے اور انہیں دارہ شکوہ کے قتل کا بہت افسوس تھا۔

محسن فانی کی کتاب ”دبستان المذہب“ کا انگریزی ترجمہ جو راقم کے پاس موجود ہے اسے ”اورینٹل لٹریچر“ کے نام سے پہلے بار امریکا میں 1901 میں شائع کیا گیا تھا اور پھر 1973 میں پاکستان میں۔

پیر روشن کی تعلیم میں شریعت کے مطلوبہ رسوم و رواج پر زور نہیں اور نہ ہی نماز روزے کی تلقین ہے اور وہ بھی مسلمہ مذہبی ضابطوں کے خلاف تھے اور مذہبی افسر شاہی کو منافق قرار دیتے تھے۔ پیر روشن بھی زیادہ تر مراقبے، غورو فکر اور ذکر میں مشغول رہتے تھے اور اسمائے مبارک کی تکرار کرتے تھے۔ جیسا کہ کچھ مہدوی اور بھگتی لوگ کیا کرتے تھے۔

پیر روشن نے اپنی کتاب ”حال نامہ“ میں روحانی ارتقا کی جو منازل بتائی ہیں ان میں اول شریعت پھر حقیقت اور معفرت، پھر قربت اور وصالت اور آخر میں سکونت شامل ہیں۔ ”حال نامہ“ کے علاوہ ان کے دست یاب کتابوں میں ”خیر البیان“ ”مقصود المومنین“ اور ”صراط التوحید“ شامل ہیں۔

پیر روشن کی تعلیمات کی ایک اور خاص بات مردو زن کی برابری کا تصور تھا جس پر مخالفین نے بہت شورمچایا اور خاص طور پر ایک معروف شخصیت ”اخوند درویزہ“ نے پیر روشن کی شدید مخالفت کی۔

ڈاکٹر ظہور الدین احمد اپنی کتاب ”پاکستا میں فارسی ادب کی تاریخ“ کے صفحہ 565 پر لکھتے ہیں۔

” پیر روشن بایزید انصاری اور ان کے بیٹے جلالہ کے ساتھ مغل فوج کی ٹکرہوتی رہی۔ جلالہ نے 1585 ءمیں پشاور کے قلعے کا محاصر ہ کیا اور سید حامد بخاری کو قتل کر دیا۔ 1586 میں مغل فوج جلالہ کو زیر کرنے میں مصروف رہی۔ جلال چترال کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہوا اور لڑتا ہوا مارا گیا۔ اس کی وفات کے بعد بھی روشنیہ تحریک جاری رہی۔ امداد انصاری اور عبدالقادر نے 1613 میں پشاور پر حملہ کیا جس میں قلیج خان مارا گیا۔ 1630 میں انہوں نے دوسرا حملہ کیا جس میں سپہ سالار مظفر خان کو شکست ہوئی۔ شاہ جہاں کے عہد میں بایزید کا آخری نامور خلیفہ عبدالقادر، مغل دربار سے وابستہ ہوگیا تو یہ سیاسی تحریک ختم ہوگئی۔“

ڈاکٹر ظہور نے یہ تفصیلات بحوالہ منتخب التاریخ مصنف عبدالقادر بدایونی اور بحوالہ اکبر نامہ مصنف ابوالفضل تحریر کی ہیں۔

جب کہ شیخ محمد اکرام ”رود کوثر“ کے صفحہ چھالیس پر لکھتے ہیں کہ

”ابتدا اس طرح ہوئی کہ پیر روشن کے مریدوں نے ایک قافلہ لوٹ لیا جو مال لے کر ہندوستان سے کابل جا رہا تھا۔“

جس کے بعد زور کا معرکہ ہوا جس میں مغل سپاہیوں کو شکست ہوئی مگر یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور مغلوں نے ان قبائلی جنہوں نے روشنیہ عقائد اختیار کرلیے تھے پر شدید حملے کیے اور اسی دوران 1572 میں پیر روشن یا بزید انصاری کی وفات ہوگئی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے جو لڑائیوں میں مارے گئے۔ آخری بیٹا جلال الدین تھا جسے مغل مورخین جلالہ کہتے ہیں۔

اخوند درویزہ نے اپنی تصنیف ”مخزن اسلام“ فرقہ روشنیہ اور اس کے بانی پیر روشن کو خوب لتاڑا ہے۔ اخوند درویزہ اپنے خیالات میں بہت سخت تھے اور ان کے لیے پیر روشن کا نسبتاً ڈھیلا ڈھالا مسلک قابل قبول نہ تھا اور اسی لیے اخوند درویزہ نے پیر روشن بایزید انصاری کو ”کافرمطلق“ اور ”منکر دین برحق“ اور پیر روشن کی بجائے ”پیرتاریک“ کا نام دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ اخوند درویزہ ہی تھے جنہوں نے مقامی یوسف زئی لشکروں اور مغل افواج کو پیر روشن اور ان کے مریدوں کے خاتمے پر اکسایا۔ پیر جلالہ بالآخر افغانستان چلا گیا جہاں بعض روایات کے مطابق ”جلال آباد“ کا شہر اس کے مریدوں نے آباد کیا تھا۔ 1600 کے آس پاس پیر جلالہ کی موت کے بعد روشنیہ فرقے کے کچھ لوگ وادی تیراہ، پکتیا، لوگر اور ننگر ہار وغیرہ میں آباد رہے جہاں بالآخر 1650 کے لگ بھگ شاہ جہاں کی افواج نے ان کا بالکل صفایا کر دیا۔

موجودہ زمانے میں برکی قبیلے کے کچھ لوگ روشنیہ فرقے سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں ان میں کچھ لوگوں کی زبان اب بھی ار مڑی ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں اور یہ زبان ناپید ہونے کا خطرے سے دوچار ہے۔

جس دوران میں یعنی سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں جب پیر روشن اپنی تعلیمات عام کر رہے تھے تقریباً اسی وقت شہنشاہ اکبر خود نئے مذہبی تجربات کر رہے تھے۔

اکبر کے والد ہمایوں سنی مسلمان تھے مگر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایران میں اپنی جلاوطنی کے دوران شیعہ اسلام قبول کر لیا تھا اوراب چالیس سالہ اکبر صلح کل پر مبنی ایک نئے تصور کی بنیاد رکھ رہے تھے اس وقت مغلیہ سلطنت افغانستان سے بنگال تک پھیلی ہوئی تھی۔

اکبر میں بہت تجسس تھا اوروہ علم کے متلاشی تھے۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو اپنے دربار میں بلایا اور مذاکرے کرائے۔ اکبر کا خیال تھا کہ مختلف مذاہب کی مشترکہ باتیں لے کر ایک ”آئین رہ نمونی“ دیا جائے جسے بعد میں کچھ لوگوں نے ”دین الٰہی“ کہنا شروع کر دیا۔

سولہویں صدی کے ہی برطانوی شاہ ہنری ہشتم کی طرح اکبر بھی مذہبی پیشواؤں کے خلاف ہوگئے اور مذہبی افسر شاہی کی مخالفت کی۔ اکبر نے غیر مسلموں پر عائد محصول جزیہ ختم کیا اور تبدیلی مذاہب کی عام اجازت دے دی۔

اکبر کو ملاؤں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جن میں شیخ احمد سرہندی جنہیں بعد میں مجدد الف ثانی بھی کہا گیا پیش پیش تھے۔ اکبر کی تمام مذاہب کی تہواروں میں شرکت نے بھی راسخ العقیدہ مولویوں کو ناراض کیا پھر اکبر نے دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں کے تراجم بھی کرائے اور انہیں پڑھوایا۔

بھگتی شاعروں اور سکھ مذہب کی جانب اکبر کے نرم رویے نے اکبر کو عوام میں مقبول کر دیا تھا مگر نئے مذہبی تصورات جڑیں نہ پکڑ سکے۔ جو قارئین اس بارے میں مزید معلومات پڑھنا چاہیں وہ مکھن لال چودھری کی کتاب ”دین الٰہی“ کامطالعہ کر سکتے تھے۔

آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پندرہویں اور سولہویں نے یورپ اور ہندوستانی برصغیر نے خاص سرگرم مذہبی تبدیلیاں دیکھیں ان کے راستے مختلف تھے شایداس لیے یورپ کی پروٹسٹنٹ تحریک کے اثرات زیادہ دیرپا ہوئے جس کے پیچھے مخصوص سماجی و معاشی حالات تھے۔

ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی اور اخوند درویزہ جیسے مذہبی رہ نماؤں نے مذہبی اصلاحات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں مگر ان کے لیے ہمیں ایک اور سلسلہ مضامین کی ضرورت ہوگی جس میں دیکھا جائے کہ سرہندی جسے لوگوں کی بنیاد پرستی نے کیا گل کھلائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).