پینسٹھ کی جنگ، دوسرا رخ


سکولی نصاب کے مطابق بھارت نے چھ ستمبر کو رات کی تاریکی میں چھپ کر پاکستان پر حملہ کیا۔ مگر کیوں کیا؟ بھارت پر اچانک کوئی دماغی دورہ پڑا یا حملے کی کوئی خاص وجہ تھی ؟ بچوں کو اس بابت کچھ نہیں بتایا جاتا۔ اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ اسے کامیاب جنگ کیوں کہا جاتا ہے؟امریکی لائبریری آف کانگریس کے ریکارڈ کے مطابق 17 روزہ جنگ میں بھارت کے 3000 اور پاکستان کے 3800 فوجی ہلاک ہوئے۔

پاکستان اور بھارت میں جو چار بڑی جنگیں ہوئیں ان میں سے تین لگ بھگ فوٹو کاپی حکمتِ عملی کے تحت لڑی گئیں۔

1974 اور 48 کی جنگِ کشمیر میں بھی قبائلی لشکر اور سادہ لباس میں جوانوں کو کشمیر آزاد کرانے کے لیےریاست میں غیر اعلانیہ طور پر داخل کیا گیا۔ غالباً یہ واحد موقع تھا جب پاکستان اگر منصوبہ بند برق رفتاری سے کام لیتا تو اپنے مقاصد حاصل کر سکتا تھا مگر پوری گیم چند سیاستدانوں اور افسروں نے اپنے ہاتھ میں رکھی اور جب حالات قابو سے باہر ہونے لگے تب ریاستِ پاکستان اس جنگ میں باضابطہ عسکری فریق بننے پر مجبور ہوئی۔ تب تک بھارت محاذ پر اپنی فوجی حیثیت مستحکم کر چکا تھا۔

پینسٹھ میں بھی اڑتالیس کی ناکام حکمتِ عملی کو آزمایا گیا۔

28 جولائی کو آپریشن جبرالٹر کے تحت لگ بھگ چار ہزار افراد سویلین حلیے میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل کیے گئے ۔مفروضہ یہ تھا کہ انہیں دیکھتے ہی کشمیری عوام بھارتی قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

جب شورش پھیل جائے گی تو پاکستانی فوج آپریشن گرینڈ سلام کے تحت جموں کی ورکنگ باؤنڈری پار کر کے اکھنور کے قصبے پر قبضہ کر کے بھارت اور جموں کے مابین زمینی راستے کو کاٹ کر ریاست میں موجود پانچ ڈویژن بھارتی فوج کو مفلوج کر دے گی اور یوں پاکستان ایک طاقتور فریق کے طور پر مسئلہ کشمیر اپنی مرضی سے حل کروانے کی حیثیت میں ہوگا۔

یہ حکمتِ عملی صدر ایوب خان اور کمانڈر انچیف جنرل موسی کو جس کشمیر سیل نے پیش کی اس میں وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، سیکریٹری خارجہ عزیز احمد، میجر جنرل گل حسن، میجر جنرل اختر حسین ملک اور اعلی انٹیلی جینس اہلکار شامل تھے۔

حکمتِ عملی مرتب کرنے والوں کو اپنی کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ انہوں نے ناکامی کی صورت میں پلان بی کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اسی لیے فضائیہ اور بحریہ کی اعلیٰ قیادت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حتی کہ لاہور گیریژن کے کمانڈر میجر جنرل سرفراز خان اور مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان کالاباغ کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں متحرک علیحدگی پسند قیادت کو بھی علم نہیں تھا کہ سرحد پار راولپنڈی میں کیا کچھڑی پک رہی ہے۔ ( چونتیس برس بعد کارگل میں یہی حکمتِ عملی تیسری بار استعمال ہوئی۔)

آپریشن جبرالٹر اس مفروضے پر تھا کہ چونکہ یہ کارروائی کشمیر کی سیز فائر لائن اور جموں کی ورکنگ باؤنڈری کے آرپار ہو گی لہذا بھارت باقی طے شدہ بین الاقوامی سرحد عبور کر کے خود پر جارح کا ٹھپہ لگوانے کی حماقت نہیں کرے گا۔ بھارت یہ بھی سوچے گا کہ اگر اس نے بین الاقوامی سرحد پار کی تو پاکستان پر دباؤ کم کرنے کے لئے چین لداخ میں پیش قدمی کر سکتا ہے اور ابھی تین برس پہلے ہی ( 1962 ) چین بھارت کو اچھی طرح سبق سکھا چکا ہے۔

مگر وہ جو کہتے ہیں کہ لڑائی چھیڑنا آپ کے بس میں ہوتا ہے۔ لیکن پھر لڑائی اپنا رخ خود متعین کرتی ہے۔ چنانچہ آپریشن جبرالٹر کے تحت 28 جولائی تک چار ہزار ’سویلین مجاہدین‘ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہوئے۔ ان میں سے صرف مٹھی بھر لوگ ہی کشمیری یا ڈوگری جانتے تھے۔ انہیں بھارت اور پاکستان کی کرنسی کی قدر کے فرق کے علاوہ یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہاں ناپ تول کا میٹرک سسٹم چلتا ہے۔ پاکستان کی طرح پاؤ، سیر من نہیں چلتا۔

چنانچہ عام کشمیریوں نے مقامی انتظامیہ کو ان اجنبیوں کے بارے میں اطلاعات دیں۔ ریاستی مشینری حرکت میں آئی اور سولہ اگست تک ورکنگ باؤنڈری پار کرنے والے بیشتر مجاہدین حراست میں لے لیے گئے۔

آپرشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد باقی منصوبے کو ساکت کر دینا چاہیے تھا۔ مگر پھر بھارت نے جوابی نقل و حرکت شروع کر دی اور درہ حاجی پیر کی اہم گذرگاہ پر چوبیس اگست کو قبضہ کر لیا جس کے سبب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر براہِ راست خطرے میں آ گیا۔ چنانچہ پاکستان نے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے 31 اگست کو آپریشن گرینڈ سلام شروع کر دیا۔

اس کا مقصد جموں کے علاقے میں اکھنور پر قبضہ کر کے بھارتی رسد کو کاٹنا تھا۔ مگر دو ستمبر کو اس آپریشن کی کمان میجر جنرل اختر حسین ملک سے لے کر میجر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دی گئی۔ اس دوران پاکستان کی پیش قدمی رکی تو اگلے 24 گھنٹوں میں بھارت نے اس محاذ پر اپنی فوجی حیثیت مستحکم کر کے آپریشن گرینڈ سلام کا راستہ بھی روک دیا۔

پاکستانی ہائی کمان نے فرض کر لیا کہ اب چونکہ ہماری جانب سے پیش قدمی رک گئی ہے لہذا بھارت اس معاملے کو رفع دفع تصور کرکے مزید کارروائی سے باز رہے گا۔ بقول الطاف گوہر نہ جنرل موسیٰ اور نہ ہی ایوب خان کو توقع تھی کہ بھارت بین الاقوامی سرحد پار کرے گا۔

یہ یقین اس قدر پختہ تھا کہ جب چھ ستمبر کو صبح ساڑھے پانچ بجے بھارت نے لاہور کے نزدیک بین الاقوامی سرحد پار کی تو ان کا سامنا سرحدی رینجرز نے کیا ۔کیونکہ لاہور گیریژن کو کسی ممکنہ ناگہانی سے نمٹنے کے لیے ریڈ الرٹ کا حکم ہی نہیں ملا تھا۔

لاہور سیالکوٹ سیکٹر میں بھارت کی غیر معمولی فوجی نقل و حرکت کی پہلی اطلاع پاک فضائیہ کی جانب سے جی ایچ کیو کو دی گئی۔ اور اس دوران فصائیہ نے پیش قدمی کرنے والے بھارتی دستوں کو روکنے کے لیے لگاتار حملے شروع کر دیے۔ چنانچہ اس وقفے میں باقاعدہ پاکستانی فوجی دستوں کو سنبھلنے کا موقع مل گیا اور یوں لاہور بچا لیا گیا۔

کیا یہ پاکستان کے لیے واقعی ایک غیر متوقع پیش رفت تھی؟

چار ستمبر کو دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر ارشد حسین نے ترک سفارتخانے کے توسط سے دفترِ خارجہ کو پیغام بھیجا کہ بھارت اگلے 48 گھنٹے میں سرحد پار کرنے والا ہے۔ مگر سیکرٹری خارجہ عزیز احمد اور وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس پیغام کو یہ سوچ کر دبا دیا کہ ارشد حسین ضرورت سے زیادہ پریشان ہو رہا ہے۔ کیونکہ انہیں انتہائی ذمہ دار بین لاقوامی ذرائع یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ بھارت ایسی حماقت نہیں کرے گا۔( آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ذرائع کون تھے۔)

سات ستمبر کو چینی قیادت کی جانب سے بھارت کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنی مہم جوئی فوراً روک دے۔ ساتھ ہی لداخ سے متصل چینی سرحد پر تھوڑی بہت نقل و حرکت بھی شروع ہو گئی۔ آٹھ ستمبر کو امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا بخار کم کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کو اسلحے کی رسد معطل کر رہا ہے۔ اسی دن کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ نے صدرِ مملکت کو آگاہ کیا کہ فوج کو ایمونیشن کی قلت کا سامنا ہے۔

دس ستمبر کو پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایرمارشل اصغر خان کو کچھ اضافی طیاروں اور زمینی ہتھیاروں کی ہنگامی رسد کی درخواست کے ساتھ بیجنگ بھیجا گیا اور یہ اپیل کی گئی کہ چین یہ ہتھیار انڈونیشیا کے راستے بجھوائے تاکہ پاکستان کو کھلم کھلا چینی ہتھیار ملنے پر امریکی خفگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چینیوں نے ایسا ہی کیا۔ انڈونیشیا نے بھی ہتھیاروں کی ایک کھیپ پاکستان کے لیے بجھوائی۔ اصغر خان نے ایران اور ترکی کا بھی دورہ کیا۔

جنگ کے ابتدائی دنوں میں پاکستان نے لاہور سیکٹر میں سرحد پار کھیم کرن کے چھوٹے سے قصبے پر قبضہ کر لیا۔ سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کے راستے بھارتی آرمڈ ڈویژن کا ایک بڑا حملہ روک دیا گیا۔ ان فتوحات کا میڈیا پر خاصا چرچا ہوا۔

بعد ازاں دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان کے آرمڈ ڈویژن نے کھیم کرن سے آگے پیش قدمی کی کوشش کی۔ بھارت نے اس کا زور توڑنے کے لیے مادھوپور نہر میں شگاف ڈال دیا۔ اس کے سبب میدان دلدل بن گیا اور پاکستانی آرمڈ ڈویژن کا حملہ گیارہ ستمبر کو رک گیا۔

سینیر سفارتکار سلطان محمد خان کے بقول اس حملے کے رکتے ہی مزید پاکستانی پیش قدمی کا باب بھی ختم ہو گیا۔

15 ستمبر کو صدر ایوب خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر جانسن سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں قیامِ امن کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ چنانچہ امریکہ اور سوویت یونین کی کوششوں سے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد پیش ہوئی۔پاکستانی وزیرِ خارجہ بھٹو نے اپنی تقریر میں ہزار سال تک لڑنے کا نعرہ لگایا اور پھر قرار داد قبول کر لی۔ 22 ستمبر کو محاز پر خاموشی چھا گئی۔

10 جنوری 1966 کو تاشقند میں سوویت یونین کی ثالثی میں صدر ایوب اور وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ایک امن سمجھوتے پر دستخط کیے ۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں بس یہ سطر تھی کہ فریقین نے ایک دوسرے کے موقف کو بغور سنا۔ فریقین نے اپنی اپنی فوجیں 5 اگست 1965 کی پوزیشن تک پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا۔

معاہدہ تاشقند پر دستخط کے چند گھنٹے بعد آدھی رات کو لال بہادر شاستری کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ پاکستانی وفد کے ایک اہلکار نے وزیرِ خارجہ بھٹو کو نیند سے جگا کر کہا ’باسٹرڈ مر گیا۔ بھٹو نے بے ساختہ پوچھا کون سا ؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).