انڈیا: ہم جنس پرست پولیس اہلکار خواتین کی کہانی جن کے حفاظت مسلح محافظ کریں گے


دو خواتین

پائل اور کنچن کو پولیس کی ٹریننگ کے دوران ایک دوسرے سے محبت ہوئی۔ تاہم ان کے رشتے کو خاصی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انھیں دھمکیاں بھی دی گئی ہیں جس کے باعث انھیں عدالت سے اپنے ہی خاندانوں سے محفوظ رہنے کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کی التجا کرنی پڑی۔

بی بی سی گجراتی کے بھرگو پاریکھ کے مطابق جب پائل اور کنچن کی سنہ 2017 میں ملاقات ہوئی تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں ایک دوسرے سے محبت ہو جائے گی۔

سنہ 2017 میں ہی انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں ہم جنس پرست افراد کے درمیان سیکس کو جائز قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کے ذریعے ماضی میں کیے گئے ایک ایسے عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا جس کے ذریعے نوآبادیاتی دور کے ایک قانون کی توثیق کی گئی تھی۔

تاہم قدیم روایات اور قدامت پسند رویوں کے باعث انڈین معاشرے کا ہم جنس پرست رشتوں کو قبول کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

دونوں خواتین کی عمر اب 24 برس کے لگ بھگ ہے اور وہ بطور ایک پریمی جوڑا سنہ 2018 سے انڈیا کی مغربی ریاست گجرات میں ایک ساتھ رہ رہی ہیں۔ انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ جنسی بنیادوں پر امتیاز کے کیا معنی ہیں۔ ان کی محبت کی کہانی پہلی مرتبہ اس وقت منظر عام پر آئی جب انھوں نے گذشتہ ماہ عدالت سے رجوع کیا۔

پائل کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خاندان اس رشتے کے خلاف ہیں اور وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی کہ انھیں حفاظت کی غرض سے پولیس گارڈ فراہم کیے جائیں۔ اس درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ جوڑے کو مسلح گارڈز فراہم کرنے چاہییں۔

نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات انڈیا سمیت دیگر جنوبی ایشیا ممالک میں عام ہیں۔

خواتین پولیس اہلکار

غیرت کے نام پر قتل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کو اس بنا پر قتل کر دیا جائے کیونکہ وہ خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انڈیا میں ہر سال سینکڑوں افراد پیار محبت ا اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کے باعث ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔

پائل اور کنچن گجرات کے دو ایسے دور دراز گاؤں میں پلی بڑھیں جہاں قدامت پسند روایات اور پدر شاہی کا راج تھا۔ دونوں کا کہنا تھا کہ وہ ان رکاوٹوں کو توڑنا چاہتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ایسا شعبہ چنا جہاں مردوں کی اکثریت ہوتی ہے۔

اور پھر انھوں نے پولیس کے محکمہ میں بھرتی ہونے کا سوچا۔

ان کے مطابق سنہ 2017 میں جب ان کی پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت وہاں موجود دیگر افراد اُن سے بات کرنے سے اس لیے ہچکچا رہے تھے کیونکہ اُن کا تعلق ریاست کے دیہی علاقوں سے تھا جبکہ باقی افراد بڑے شہروں اور قصبوں سے آئے تھے۔

وہ بتاتی ہیں کہ شروع سے ہی انھیں وہاں موجود افراد اجنبی محسوس ہونے لگے۔

دونوں خواتین کو پولیس ٹریننگ کے دوران ایک ہی کمرہ الاٹ کیا گیا۔ ان دونوں کے معمولات زندگی آرام دہ تھے اور جب شام کو وہ ورزش سے تھک کر واپس آتیں تو ان کے پاس پورے دن سے متعلق ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کو بہت کچھ ہوتا۔

جلد ہی ان کی گفتگو کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور وہ اپنی زندگیوں اور خاندانوں سے متعلق ایک دوسرے کو بتانے لگیں اور ایسے ان کی دوستی مزید گہری ہو گئی۔

پائل کا کہنا تھا کہ ’اگر کنچن میرے کپڑے دھوتی تو میں اسے کے لیے کھانا پکاتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہونے لگی اور ہم نے ایک دوسرے کے فون نمبرز لے لیے اور ٹریننگ ختم ہونے کے بعد بھی ہم رابطے میں رہے۔‘

اتفاق سے دونوں کی ایک ہی شہر میں پوسٹنگ ہوئی اور دونوں نے پولیس کی جانب سے دی گئی رہائش میں ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔

کنچن نے کہا کہ ’اگر پائل کی رات کی ڈیوٹی ہوتی تو میں گھر کا سارا کام کر لیتی اور جب میں نے رات کو کام کرنا ہوتا تو پائل یہ سب سنبھال لیتی۔ ہم اپنے کام سے خوش تھے اور جیسے جیسے وقت گزرا ہماری زندگیاں ایک دوسرے کے گرد گھومنے لگیں۔‘

ان دونوں کے درمیان رشتے میں یہ وہ موقع تھا جب دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئیں۔

کنچن نے کہا کہ ’31 دسمبر 2017 کو ہم نئے سال کے آغاز سے چند لمحے قبل ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ ہم ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے ہوں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں بالکل مختلف محسوس ہوا۔‘

جلد ہی ان دونوں لڑکیوں کے خاندان والوں نے ان سے جلد شادی کرنے کی بات شروع کر دی۔

کنچن کی فیملی نے تو اُن کے لیے پہلے ہی رشتے ڈھونڈ رکھے تھے لیکن یہ دونوں اس دوران یہ دباؤ برداشت کرنے میں کامیاب رہیں۔

تاہم گذشتہ برس کے اواخر میں جب پولیس کوارٹرز میں رہنے والے ساتھیوں کو اُن کے اس رشتے کے بارے میں علم ہوا تو ان دونوں نے خود ہی اس حوالے سے اپنے اپنے گھر والوں کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

پائل نے بتایا کہ ’انھیں (گھر والوں کو) خاصا دھچکہ لگا۔‘

ممبئی

ان خواتین کے مطابق ان کے گھر والوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا شروع کر دی۔

اور پھر رواں برس کے آغاز میں صورتحال مزید سنگین ہو گئی۔

پائل کے مطابق ’ایک دن میرے گھر والوں نے ہمارا ڈیوٹی کے دوران پیچھا کیا۔ انھوں نے سڑک کے بیچ میں ہماری گاڑی روک کر ہمیں دھمکیاں دیں۔ وہ ایک مرتبہ پولیس کوارٹرز میں بھی آئے اور وہاں بھی شور شرابہ کیا، ہمیں بُرے ناموں سے پکارا اور ہمیں گالیاں بھی دیں۔‘

انھوں کہا کہ ’اس واقعے کے چند روز بعد ہی مجھے ایک نامعلوم ذریعے سے قتل کی دھمکی دی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں عدالت سے حفاظت کی غرض سے اہلکار مانگنے چاہییں۔‘

جوڑے کو خوشی ہے کہ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور ان کی حفاظت کے لیے مسلح گارڈ تعینات کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ مستقبل سے متعلق بھی سوچ سکتی ہیں۔

کنچن نے کہا کہ ’ایک مرتبہ جب کورونا وائرس کی عالمی وبا کا خاتمہ ہو جائے گا تو ہم جنوبی انڈیا کی سیر پر جائیں گے اور یہ ایک طرح سے ہمارا ہنی مون ہو گا۔‘

جوڑے کی خواہش ہے کہ مستقبل میں وہ ایک بچہ گود لیں۔

حالانکہ انڈیا میں اب ہم جنس پرستی غیر قانونی نہیں رہی لیکن اس کے باوجود انڈیا میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ہم جنس پرست افراد شادی کر سکیں یا کوئی ایسا قانون بھی نہیں ہے جو انھیں بچہ گود لینے سے متعلق قوانین یا ان کے اپنے حقوق سے متعلق قواعد وضع کرتا ہو۔

پائل کہتی ہیں ’ہم ابھی صرف 24 برس کے ہیں لیکن ابھی سے پیسے بچانا چاہتے ہیں اور ایک بچہ گود لینا چاہتے ہیں اور اسے اچھی تعلیم اور تربیت دینا چاہتے ہیں۔‘

تحریر میں گرافکس نکیتا دیش پانڈے کی جانب سے بنائی گئی ہیں۔

اس تحریر میں ان دو خواتین پولیس افسروں کے نام ان کی حفاظت کی غرض سے تبدیل کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp