تصدق علی خان کے صاحب زادے استاد ثروت علی خان سے گفتگو


22 فروری 2022 کو میں ریڈیو پاکستان لاہور گیا۔ یہاں میوزک پروڈیوسر اور شام چوراسی گھرانے کے استاد ثروت علی خان صاحب سے ان کے والد استاد تصدق علی خان سے متعلق بات چیت ہوئی۔ اس گفتگو کا دوسری نشست 19 جولائی کو ریڈیو پاکستان لاہور کے اس ہال میں ہوئی جہاں بڑی بڑی تاریخی صدا بندیاں ہوئیں۔ دیواروں پر نامور فنکاروں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ یہاں ردہمسٹ اشفاق حسین صاحب سے بھی ملاقات ہوئی یہ اب ریڈیو پاکستان لاہور کے واحد اسٹاف آرٹسٹ رہ گئے ہیں۔ میرے ساتھ قومی ڈائجسٹ کے جناب عثمان احمد صاحب بھی گئے۔ استاد ثروت علی خان سے میری پہلی ملاقات پروگرام منیجر جناب سلیم بزمی صاحب کے دفتر میں ہوئی۔

سلیم بزمی صاحب:
” ریڈیو پاکستان لاہور میں موسیقی کی افسوسناک صورت حال کی کیا وجوہات ہیں؟“ میں نے سوال کیا۔

” ایسا نہیں ہے کہ ہم میوزک نہیں کر رہے۔ در اصل ہمیں جدید مشینری اور آلات کی کمی کا سامنا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پاس بجٹ کی کمی ہے! پہلے بجٹ کے معاملات ہم خود دیکھتے تھے۔ مگر اب وہ ہیڈ کوارٹر نے اسٹیشن سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ فنکاروں کے معاہدے ہیڈ کوارٹر جاتے ہیں پھر وہاں سے فنکاروں کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے آتے ہیں۔ اس سارے طریقہ کار میں بہت وقت ضائع ہوتا ہے جس سے فنکار دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔

یہاں سب سے اہم ادارہ سینٹرل پروڈکشن یونٹ ( سی پی یو ) تھا جس کی عمارت ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان ( اے پی پی ) کو کرایہ پر دے دی گئی۔ اس عمارت کے ساتھ ہماری بہت سی روایات اور یادیں وابستہ تھیں۔ یہاں میڈم نورجہاں، مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، حامد علی خان، غلام علی خان، اسد امانت علی خان، پرویز مہدی، شاہدہ منی، شبنم مجید، سائرہ نسیم اور کئی موجود اور فوت شدہ بڑے فنکاروں نے 1965 اور 1971 کی جنگ کے ملی نغمے ریکارڈ کروائے اور ثقافتی محاذ پر ہم نے یہ جنگیں جیتیں۔

یہ سارا سہرا سینٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور کے سر ہے۔ اب شاید ریڈیو، حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ اب اس کے بجٹ کو مزید کم کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے سی پی یو کو براڈکاسٹنگ ہاؤس لاہور میں ضم کیا گیا پھر عمارت کرایہ پر دے دی گئی۔ اس سے ایک تو ریڈیو پاکستان کی روایت کا خاتمہ ہوا دوسرا میوزک پروڈکشن کا جو اہم ادارہ تھا وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم کمپیوٹر میں ایس ٹی کارڈ لگا کے تھوڑا بہت میوزک پروڈیوس کر رہے ہیں۔ جو ریڈیو پاکستان لاہور جیسے بڑے ادارے کے لئے نا کافی ہے۔ میری حکام بالا سے درخواست ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور کے شعبہ موسیقی پر توجہ دی جائے اور ہمیں اسٹیشن کا بجٹ دیا جائے“ ۔

سلیم بزمی صاحب نے مزید کہا: ”میں جب 2001 میں ریڈیو سے منسلک ہوا تو خاں صاحب تصدق علی خان کی کمپوزیشن کا پتا چلا۔ پھر میں نے ان کو کمپوزر کی حیثیت سے اپنی پروڈکشن میں کام دیا۔ میں نے ان کے ساتھ کئی سال کام کیا۔ میرے ایک دوست شاعر سید حسنین محسن نے مجھے اپنی غزل دی تو میں نے خاں صاحب سے کہا کہ اس کی طرز بنا دیں جو پھر اعجاز قیصر (م) کی آواز میں ریکارڈ ہوئی : ’تمہارے ہجر کے موسم میں دو ہی کام ہوئے، کہ تم کسی کے ہوئے ہم کسی کے نام ہوئے‘ ۔ شاید یہ خاں صاحب کی آخری طرز تھی جو انہوں نے ریڈیو کے لئے بنائی“ ۔

استاد ثروت علی خان:

” میں ریڈیو پاکستان لاہور میں بطور میوزک پروڈیوسر کام کرتا ہوں۔ میرا تعلق موسیقی کے شام چوراسی گھرانے سے ہے۔ اس کی ابتدا ہوشیار پور، قصبہ شام چوراسی ہندوستان میں ہوئی۔ میرے دادا جی کا نام استاد ولایت علی خان صاحب ہے۔ ان کے پانچ بیٹے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے : استاد نزاکت علی خان صاحب، استاد سلامت علی خان صاحب، استاد تصدق علی خان صاحب، استاد اختر علی خان صاحب اور استاد ذاکر علی خان صاحب۔ ان کے ساتھ میرے والد صاحب کے خالہ زاد بھائی استاد نیاز حسین شامی صاحب ہمارے گھرانے کی مشہور شخصیات ہیں“ ۔

” میرے ابو استاد تصدق علی خان کی ولادت 1939 میں ہوئی۔ اس وقت میرے دادا جی، استاد نزاکت علی خان، استاد سلامت علی خان اور استاد نیاز حسین شامی ہندوستان میں اپنے کام اور کارکردگی کی وجہ سے مشہور تھے۔ تقسیم کے وقت دادا جی کی دوران ہجرت وفات ہو گئی اور ان کی تدفین ہوشیار پور میں ہی کر دی گئی۔ 1947 میں یہ لوگ دادی اور پورے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر کے پہلے لاہور آئے پھر ملتان منتقل ہو گئے۔ اس وقت ابو کی عمر سات آٹھ سال تھی۔

بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان، استاد سلامت علی خان اور استاد نیاز حسین شامی خان گھر کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ابو کی تعلیم ملتان میں ہی ہوئی۔ 1958 میں ریڈیو پاکستان ملتان میں انہوں نے بطور گلوکار اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات انہوں نے مجھے خود بتلائی۔ پھر وہ بی اے کرنے لاہور آ گئے۔ گریجوایشن کے بعد 1964 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے۔ محمد اعظم خان صاحب اور اسلام شاہ صاحبان ان کے ہم عصر تھے۔

1965 اور 1971 کی جنگوں میں انہوں نے بہت سے ملی نغمے ریکارڈ کiے۔ والد صاحب کو طرزیں بنانے کا بھی بڑا شوق تھا۔ ابو نے سب سے پہلے جو طرزیں بنائیں ان میں ’گوریے میں جانا پردیس۔ ‘ ( 1968 ) ہے۔ اس کو پرویز مہدی اور ریشماں نے گایا۔ شاعر محمد اسماعیل قلندر صاحب تھے۔ پھر ’تانگاں والے نین کدوں سکھ نال سوون گے۔ ‘ کی طرز بنائی ’اس کے گلوکار غلام علی اور افشاں تھے جب کہ شاعر محمد اسماعیل قلندر صاحب ہی تھے 1968 / 1969 میں ثریا ملتانی کر ، ثمر اقبال، شوکت علی، حسین بخش گلو، خورشید بیگم اور منیر حسین وغیرہ سے بھی ابو نے اپنی طرزوں میں گیت ریکارڈ کروائے۔ فریدہ خانم، میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کا الگ درجہ تھا۔ شوکت علی کی آواز میں‘ کیوں دور دور رہندے ہو حضور میرے کولوں ’بھی میرے ابو کی طرز ہے“ ۔

” اس دور میں ریڈیو کے موسیقار کالے خان صاحب تھے۔ میرے والد طرزیں بنا کر گلوکاروں، موسیقاروں اور ارینجر کو دے دیتے تھے۔ اب اگر ان لوگوں کا نام نہ آئے تو گویا ان کی بکنگ نہیں ہوتی نہ ہی پیسے ملتے تھے۔ اس وجہ سے پروڈیوسر اپنا نام نہیں دے سکتا تھا۔ ابو بھی موسیقار کا نام کالے خان لکھواتے تھے۔ اب بھی یہ ہی ہے۔ میں خود اور سلیم بزمی طرزیں بناتے ہیں لیکن ریڈیو پر اپنا نام نہیں دے سکتے۔ زیادہ تر گلوکار گانے سے پہلے بتاتے ہیں کہ اس گیت کی طرز کس نے بنائی“ ۔

ہر طرز کے پیچھے کہانی:

” ابو کی ہر ایک طرز کے ساتھ ایک کہانی جڑی ہے۔ مثلاً انہوں نے 1972 میں ایک طرز بنائی ’ساڈا دل توڑ کے توں وی پچھتاویں گا، جدوں ساڈی یاد آئی فیر کتھے جاویں گا‘ ۔ اس کے شاعر مشتاق شفائی صاحب تھے۔ یہ دو بھائیوں کی کہانی ہے۔ 1972 میں استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کی کچھ گھریلو وجوہات کی وجہ سے علیحدگی ہو گئی۔ ابو بتاتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان میں جب کلاسیکی موسیقی کی ریکارڈنگ ہوتی تو تمام آرٹسٹ جن میں استاد امانت علی خان استاد فتح علی خان، استاد نزاکت علی خان استاد سلامت علی خان اور دیگر ریڈیو آتے تھے۔

لیکن اس دن صبح نو بجے میں ریڈیو میں اپنے دفتر میں تھا تو استاد نزاکت علی خان جو استاد سلامت علی خان کے بڑے بھائی تھے، اکیلے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ ابو کہتے ہیں کہ وہ پریشان ہو گئے کہ بھائی صاحب اکیلے آ کر خاموشی سے بیٹھے ہیں۔ پوچھا طبیعت تو ٹھیک ہے؟ میرے سامنے اپنا سر نیچے کیے خاموش بیٹھے رہے۔ ایک لمحے کو ابو گھبرا گئے کہ بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ پھر پوچھا کہ آپ دونوں اکٹھے آتے ہیں آج خیریت تو ہے اکیلے صبح صبح آ گئے؟

کچھ نہیں کہا صرف اپنا چہرہ اوپر کیا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میرے ابو کو پیار سے وہ ’صدو‘ کہتے تھے۔ کہنے لگے صدو مجھے سلامت نے چھوڑ دیا ہے۔ یہ کہا اور اٹھ کر چلے گئے۔ ایک چھوٹے بھائی نے اپنے دو بڑے نامور بھائیوں کی جدائی کو کیسے محسوس کیا۔ ابو پریشان ہو گئے۔ اسٹوڈیو میں جا کر ذہنی تناؤ ختم کرنے کے لئے ہارمونیم پکڑا اور ایک گیت کا مکھڑا بن گیا : ’ساڈا دل توڑ کے توں وی پچھتاویں گا، جدوں ساڈی یاد آئی فیر کتھے جاویں گا‘ ۔

استھائی انترے کی طرز بنائی۔ اسی وقت شاعر مشتاق شفائی صاحب کو بلوایا اور ان سے انترے لکھوائے۔ پھر اگلے دن غلام علی صاحب کو بلوا لیا۔ گانا ارینج ہو کر ریکارڈ بھی ہو گیا۔ تمام سازندوں اور غلام علی کو یہ طرز اور بول پسند آئے۔ غلام علی نے پوچھا کہ خان صاحب کس قدر درد انگیز رومینٹک گانا بنایا ہے! اس پر ابو نے کہا کہ رومینٹک نہیں بلکہ میرے بڑے دو بھائیوں کی جدائی کی کہانی ہے۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے شکوہ کر رہا ہے۔

اسی طرح ’گوریے میں جاناں پردیس۔ ‘ کی بھی کہانی ہے۔ یہ واحد گیت ہے جس میں ریشماں کا سر زیادہ تھا جب کہ پرویز مہدی صاحب نیچے گاتے تھے۔ ابو پریشان تھے کہ انترا کیسے بنائیں۔ استھائی بھی پرویز مہدی کے نیچے کے سر کے حساب سے بنائی تھی: ’گوریے میں جاناں پردیس‘ ۔ ریشماں کا سر نیچے نہیں آ تا تھا لہٰذا ابو نے استھائی میں ریشماں کا لنک اوپر کے سروں میں بنا دیا: ’میں جاناں تیرے نال‘ ۔ یہ تجربہ والد صاحب نے 1968 میں کیا۔ ایک تو مالتی راگ کا امتزاج پھر دونوں نے جو گایا ہے۔ کمال ہو گیا۔ دلیر مہدی یہ ہی گیت سن کر پرویز مہدی کا شاگرد ہوا“ ۔

استاد نزاکت علی خان اور استاد تصدق علی خان کی جوڑی:

ایک سوال کے جواب میں استاد ثروت علی خان نے کہا: ”جب 1974 میں ان کے بڑے بھائیوں میں علیحدگی ہوئی تو ابو نے استاد نزاکت علی خان کے ساتھ جوڑی کے طور کلاسیکی موسیقی گائی اور بجائی۔ ان کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی دوروں پر بھی گئے اور فن کا مظاہرہ کیا۔ جیسے : افغانستان، قطر، دوہا، شارجہ، کویت، ایران اور ہندوستان۔

ایک حیرت انگیز واقعہ:

جب 1968 میں ’تانگاں والے نین۔‘ ریکارڈ ہوا تو ریڈیو پاکستان لاہور سے روزانہ صبح نشر ہوتا تھا۔ ایک دن صبح ایک بزرگ ریڈیو اسٹیشن کے استقبالیہ میں آ کر کہتے ہیں کہ میں نے گیت ’تانگاں والے نین۔‘ اپنے گھر میں سنا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس شخص سے ملاقات ہو جس نے یہ گانا بنایا ہے۔ یعنی گیت کے موسیقار، گلوکار، شاعر۔ انہیں بتایا گیا کہ اتنی صبح میوزک والے نہیں ہوتے البتہ ایک پروڈیوسر تصدق علی خان موجود ہے۔ آپ ان سے مل لیں۔

ابو نے مجھے بتایا کہ میں اپنا کام کر رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ ایک بزرگ تھے۔ کہنے لگے کہ میں ان لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں جنہوں نے ’تانگاں والے نین۔‘ بنایا ہے۔ ابو نے پوچھا کہ بابا جی آپ کون ہیں؟ کہنے لگے کہ میں نے یہ طرز ریڈیو پر سنی اور بے ساختہ ریڈیو آ گیا۔ تو کیا اس ٹیم میں سے کوئی مل سکے گا؟ ابو نے جو اباً کہا کہ میں اس گیت کا پروڈیوسر ہوں اور یہ دھن میں نے ہی بنائی ہے۔ یہ سن کے بزرگ نے کہا کہ بیٹا کھڑا ہو جا۔

ابو کھڑے ہو گئے۔ وہ بزرگ پاس آئے اور میرا ماتھا چوما اور کہا کہ میرا دل خوش ہو گیا۔ ماشاء اللہ بیٹا اتنی اچھی طرز بنائی ہے! مجھ سے رہا نہیں گیا تھا اس لئے داد دینے خود آ گیا ہوں۔ اب میں چلتا ہوں اور اور تیرے لئے دعا کرتا ہوں۔ ابو پریشان کہ بزرگ نے اپنا تعارف نہیں کروایا۔ ابو نے پوچھا تو جواب دیا کہ میں ماسٹر عبد اللہ ہوں! ابو کہتے ہیں کہ میں تو خود ان کا پرستار تھا۔ کھڑے ہو گئے اور رونا شروع کر دیا۔ پھر اپنے شام چوراسی گھرانے اور بڑے بھائیوں، استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کے بارے میں بتایا۔ ماسٹر صاحب بہت خوش ہوئے ”۔

” جب میں باشعور ہوا تو اس وقت ابو صبح سرمنڈل پر کلاسیکی موسیقی کا ریاض کرتے تھے۔ سرمنڈل کو ٹیون بھی خود کرتے تھے ( جس کا ٹیون کرنا بڑا مشکل ہے ) ۔ ہم لوگ اکثر صبح اٹھ کر ان کا ریاض سنتے۔ بچپن سے ہمارے کانوں میں سروں کی آواز آتی رہی۔ ہم ابو سے پوچھتے بھی تھے کہ یہ کیا راگ ہے جس پر وہ ہماری سمجھ بوجھ کے حساب سے راگوں کے بنیادی سر بتاتے۔ جب میں گریجوایشن کر رہا تھا تو مجھے ہارمونیم لینے اور بجانے کا شوق ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تعلیم مکمل کر لولیکن میں نے ضد کی اور ہارمونیم لے لیا۔ اس پر ابو کی بنائی ہوئی طرز ’گوریے میں جاناں پردیس‘ سیکھ لی جس میں ابو نے میری مدد کی۔ اب میں نے اس کی طرز اور طرح سے بنا کر ابو کو سنا دی۔ کہنے لگے کہ تو تو بڑا تیز ہو گیا ہے“ ۔

” والد صاحب ہارمونیم اور سر منڈل استعمال کرتے تھے۔ استاد سلامت علی خان بھی سر منڈل ہی پر گاتے تھے۔ استاد نزاکت علی خان تان پورہ لے کر گاتے تھے۔ نیاز حسین شامی صاحب بھی ہارمونیم پر گاتے اور طرزیں بناتے تھے“ ۔

” والد صاحب نے ہم بہن بھائیوں پر پوری توجہ دی حالاں مجھے سنگر بننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ مجھے کہتے کہ پہلے پڑھ لکھ جاؤ پھر جو جی میں آئے کر لینا۔ مجھے ایم اے کی ڈگری دلائی۔ میرے بھائی اور ہمشیرہ کو گریجوایشن کروایا۔ میرا ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہونا ان ہی کی مرہون منت ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد ریڈیو میں درخواست دی۔ اللہ نے کرم کیا اور 2010 میں براڈکاسٹنگ ہاؤس لاہور میں پروڈیوسر منتخب ہوا۔ پھر 2015 میں سی پی یو میں آ گیا۔ آج میں ان کی جوتیوں کے صدقے یہاں ہوں“ ۔

” جب تایا جی استاد سلامت علی خان حیات تھے تو وہ خاندان کے بڑے تھے۔ سب لوگ اپنے معاملات کے لئے ان ہی کے پاس جاتے تھے۔ ان کے بعد میرے ابو نے خاندان کو جوڑ کر رکھا۔ ایک تو وہ تعلیم یافتہ تھے دوسرے ریڈیو پاکستان میں ملازمت تھی لہٰذا خاندان میں ایک علیحدہ عزت تھی۔ میرے ایک چچا استاد اختر علی خان بھی گریجوایٹ تھے لیکن ملازمت نہیں کی۔ ابو نے گریجوایشن کی، میوزک کمپوزیشن میں نام بھی پیدا کیا۔ اسی لئے خاندان میں ابو کی ایک الگ سے قابلیت مانی جاتی اور وہ خاندان کے فیصلے بھی کرتے“ ۔

” ہم بہن بھائیوں نے ابو سے جب کوئی ضد کی یا کوئی چیز مانگی تو انہوں نے ہماری فرمائشیں پوری کیں“ ۔
” میرے والد صاحب کا ریڈیو اور فلم اسٹوڈیو کے تکنیک کاروں اور میوزیشن کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ تھا“ ۔

” وہ اپنے سارے گانے خود پینل پر بیٹھ کر ریکارڈ کرتے تھے۔ اپنی طرزوں کو ارینج بھی خود کرتے۔ ابو نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں کچھ فلمی گیتوں کی موسیقی بھی ترتیب دی، وہ فلمیں چلی نہیں یا مکمل نہ ہو سکیں۔ 1990 کی دہائی میں ایک فلم“ اللہ مالک ”کا ایک گیت ’نی ہیریے نی گوریے۔ ‘ ریڈیو پر بہت چلتا رہا ہے۔ اس کے شاعر خادم حسین بھٹی تھے۔ اس فلم میں مہناز، ناہید اختر اور سائرہ نسیم کے گیت تھے اور ابو نے خود بھی گایا۔ ابو نے بطور اداکار پنجابی فلم“ پنج دریا ”( 1968 ) میں بھی کام کیا جس کے موسیقار بخشی وزیر صاحبان تھے۔ ابو ڈرامہ آرٹسٹ بھی رہے۔ انہوں نے سلطان کھوسٹ صاحب اور عرفان کھوسٹ کے ساتھ اسٹیج ڈرامے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریڈیو میں بھی ڈرامے کیے“ ۔

نئی جہت کے ریڈیائی ڈرامے کی ایجاد:

” 1970 کی دہائی میں والد صاحب نے ریڈیو پر ایک میوزیکل ڈرامہ ’ماروا ٹھاٹھ کے تین راگ‘ ریکارڈ کیا۔ کلاسیکی موسیقی پر مبنی یہ ڈرامہ انہوں نے خود لکھا اور پروڈیوس کیا۔ ان تینوں راگوں کا ٹھاٹھ ایک، وادی، سم وادی ایک، آروہی امروہی ایک ہے۔ تینوں راگوں میں صرف چلن کا فرق ہے۔ یہ چلن ہی ان تین راگوں کو الگ الگ کرتا ہے۔ پوریا بیس میں، ماروا درمیان یا مد سے اور سوہنی پچ پر گایا جاتا ہے۔ یہ بزرگوں کے بنائے ہوئے اصول اور روایات ہیں۔

اس کے صداکار شجاعت ہاشمی، عرفان کھوسٹ اور تسکین حیدر (م) تھیں جو ہماری براڈکاسٹر رہ چکی ہیں۔ یہ نامور موسیقار ماسٹر غلام حیدر صاحب کی صاحب زادی تھیں۔ ڈرامہ تین راگوں : ماروا، پوریا اور سوہنی کے کرداروں پر مبنی تھا۔ پوریا کا کردار شجاعت ہاشمی، ماروا عرفان کھوسٹ اور سوہنی کا کردار تسکین حیدر نے ادا کیا۔ اس کی کہانی میں پوریا ولن، ماروا ہیرو اور سوہنی ہیروئن تھی۔ اس کے مکالمے عام مکالمے نہیں بلکہ موسیقی کی زبان میں تھے۔ جیسے ماروا سوہنی سے کہتا ہے : میں تمہارے اور تم میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ وہ کہتی ہے کیسے؟ وہ کہتا ہے تمہارا وادی سر میرا وادی سر ہے۔ تمہارا سم وادی سر میرا سم وادی سر ہے۔ میری آروہی تمہاری آروہی اور میری امروہی تمہاری امروہی ہے“ ۔

” ایسا ریڈیائی ڈرامہ پوری موسیقی کی تاریخ میں ابھی تک نہیں ہے۔ یہ ہی نہیں پھر اس کے بعد ٹوڈی ٹھاٹھ کے تین راگ :

میاں کی ٹوڈی، گجری ٹوڈی اور ملتانی ٹوڈی۔ پھر بھیرویں ٹھاٹھ کے تین راگ: بھیرویں، مالکوس اور ہنڈول۔ ابو کے لکھے ہوئے یہ ڈرامے ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں۔ انشاء اللہ کوشش کر رہا ہوں کہ اسے ٹیلی وژن چینل پر دکھایا جا سکے۔ میں اسے اسٹیج پر بھی پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ موسیقی کے راگوں کو کردار بنا کر ابھی تک کسی نے بھی پیش نہیں کیا ”۔

اسی سلسلے میں استاد ثروت علی خان نے بتایا : ”ابو نے جب ریڈیائی ڈرامہ ’ماروا ٹھاٹھ کے تین راگ‘ لکھا تو نامور مصنف اے حمید صاحب کو دکھایا کہ ذرا اس کی نوک پلک سنوار دیں۔ یقین جانیں اے حمید صاحب نے جب یہ ڈرامہ پڑھا تو اسی طرح واپس کر دیا۔ کہنے لگے کہ تصدق تم نے اس میں کمال کی چیزیں لکھی ہیں۔ میری تو سوچ سے بھی اوپر لکھا ہے“ ۔

اس کے علاوہ استاد تصدق علی خان نے بطور موسیقار اور میوزک کنسلٹنٹ ڈرامے کی تاریخ میں ایک ایسے ڈرامے کا میوزک کمپوز کیا جو دنیائے موسیقی میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اس ڈرامے کی موسیقی میں 47 راگوں کا استعمال کیا گیا جو آج تک فن موسیقی کی دنیا میں نہیں ہوا۔ اس ڈرامے کا نام ”نو ٹنکی“ تھا جو پاکستان کے معروف ٹی وی چینل ATV سے نشر ہوا۔

میرے ابو اور سلیم بزمی:

” سلیم بزمی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان میں 20 سال کام کیا ہے۔ بعض پروڈیوسر ایسے ہوتے ہیں جن سے فنکار ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ ان میں میرے والد صاحب، شہوار حیدر صاحب اور سلیم بزمی صاحب سر فہرست ہیں۔ ان کے ساتھ

ہر ایک گلوکار، شاعر اور موسیقار نے پیار کیا۔ میں بہت خوش ہوں کہ سلیم بزمی کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ یہ خود بھی بہت پیارے فنکار ہیں۔ میرے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں ان کے ساتھ کام کیا۔ ابو ریٹائر ہو چکے تھے اور گھر میں اداس رہتے تھے۔ ابو نے ریڈیو میں بے حد کام کیا اب انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں تھا۔ آنسو ہمیشہ ان کی آنکھوں میں رہتے۔ بزمی صاحب وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد میرے ابو کو ریکارڈنگ کے لئے بلایا کہ آپ یہاں طرزیں بنائیں۔ ابو کو بہت خوشی ہوئی کہ ان کو اہمیت ملی اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نے بلایا۔ جب ان کو ریڈیو سے چیک ملتے تو خوش ہوتے۔ میں سلیم بزمی صاحب کا مقروض ہوں کہ انہوں نے میرے ابو کے آخری زمانے میں ان کو خوشیاں واپس لوٹائیں ”۔

” ابو جب ریڈیو پاکستان اسکردو میں کنٹرولر کی حیثیت سے تھے تو وہاں ان کو 1998 میں فالج کا حملہ ہوا اور وہ لاہور آ گئے۔ ان کا دائیں حصہ متاثر ہوا اور زبان بھی ہلکی سی بند ہونے لگی۔ پھر 1999 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ جب کوئی فنکار بزرگ ہو جائے تو لوگ جلد اسے بھول جاتے ہیں۔ والد صاحب نے اتنا کام کیا، لوگوں کے ہجوم میں رہے۔ اب تنہائی انہیں بہت ستا نے لگی۔ میں کہتا ہوں کہ عوام کو زندہ بزرگ فنکاروں کی قدر کرنا چاہیے جیسے بزمی صاحب نے میرے ابو کی قدر کی۔

لیکن پھر ابو زیادہ گھر پر ہی رہے اور ان کی طبیعت بتدریج خرابی کی جانب جانے لگی۔ 23 دسمبر 2013 کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے ”۔

” بہت سے لوگ ابو سے سیکھنے آتے تھے جیسے گلوکار جواد احمد“ ۔

” خاندان کے حوالے سے ہمارا سلسلہ مغل شہنشاہ اکبر کے دربار سے وابستہ میاں چاند خان سورج خان صاحبان سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے بڑے بزرگ میاں کریم بخش خاں صاحب تھے۔ پھر ان کی اولاد استاد ولایت علی خاں صاحب پھر استاد نزاکت علی خان، استاد سلامت علی خان، استاد تصدق علی خان، استاد اختر علی خان، استاد ذاکر علی خان پھر آگے ان کی اولادیں۔ “ ۔

استاد تصدق علی خان کو ملنے والے ایوارڈ:
1۔ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن ایوارڈ 1977۔
2۔ گریجوایٹ ایوارڈ 1985۔
3۔ آل پاکستان میوزک کانفرنس ایوارڈ 1994، 1995، 1996، 1997۔
4۔ آفتاب موسیقی ایوارڈ 2000۔
5۔ استاد سلامت علی خان نزاکت علی خان ایوارڈ 2003۔
6۔ ورلڈ پرفارمنگ آرٹس ایوارڈ 2007۔ 2008۔
استاد تصدق علی خان کے ترتیب دیے ہوئے مشہور گیت:
نمبر شمار
گیت کے بول
گلو کار
شاعر
1
۔ گوریے میں جاناں پردیس
/پرویز مہدی اور ریشماں
#ایم اسماعیل قلندر
2
#تانگاں والے نین۔
7غلام علی اور افشاں بیگم
%ایم اسماعیل قلندر
3
Eساڈا دل توڑ کے توں ویں پچھتائیں گا
5غلام علی اور افشاں بیگم
مشتاق شفائی
4
Aروگ ڈھاڈے لا گیا پیار چن ماہی دا
1حسین بخش گلو اور افشاں
نا معلوم
5
9خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
مادام نورجہاں
%مولانا حسرت موہانی
6
) چن کولوں سوہنا ماہی۔
Cاستاد ذاکر علی خان اور ثمر اقبال
نامعلوم
7
]نیں گورئیے نیں ہیرئیے۔ فلم ”اللہ مالک“ ۔
=استاد تصدق علی خان اور مہناز
ایم خادم حسین
8
mمیریاں گلاں یاد کریں گی فیر میں تینوں یاد آواں گا۔
پرویز مہدی
! ایم اکبر لاہوری
9
Mکیوں دور دور ریندے او حضور میرے کولوں۔
شوکت علی
طالب چشتی
10
/جوگی اتر پہاڑوں آیا۔
حسین بخش گلو
نامعلوم

شام چوراسی گھرانے کے استاد تصدق علی خان صاحب کے بارے میں ابھی بہت کچھ لکھنا تھا لیکن جگہ کی کمی کے باعث ممکن نہیں۔ انہوں نے اپنی ایک زندگی میں وہ وہ کام کر دکھائے جو بظاہر ناممکن تھے۔ اب ان کے فرزند استاد ثروت علی خان سے امید ہے کہ وہ شام چوراسی گھرانے کی روایات کو زندہ رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).