وزیر اعظم عمران خان سے صرف ایک سوال


اگر تو آپ سیاسی شخصیت ہیں لیکن طاقت ور قوتوں کو آپ کی شکل پسند نہیں ہے تو آپ سونے کے کیوں نہ بن جائیں، دھول مٹی ہی رہیں گے۔ آپ پر مالی کرپشن کا داغ لگ گیا، توا سے دھونے کے لیے پوری زندگی بھی ناکافی ہو گی۔ ذرائع آمدن ثابت کرنے کے لیے آپ کو عدالتوں میں بچوں سمیت ذلیل ہونا پڑے گا۔ باپ دادا کی دولت تک کا حساب مانگا جائے گا۔ وراثتی کاغذات کھنگالے جائیں گے۔ انصاف کے اداروں سے ساز باز کر کے آپ کے خلاف من پسند فیصلے بھی لیے جا سکتے ہیں۔

الیکشن لڑنے پر پابندی، بھاری جرمانہ یا آپ جیل میں بھی سڑ سکتے ہیں۔ دو چار سال یا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نا اہلی بھی آپ کا مقدر بن سکتی ہے۔ میڈیا پر دباؤ ڈال کر آپ کے خلاف کردار کشی کی مہم بھی چلائی جا سکتی ہے۔ آپ کو بدنام اور رسوا کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا جائے گا بلکہ اس پر آئین اور قانون کا غلاف بھی چڑھا دیا جائے گا۔ لیکن یہ سب کچھ ایسے خفیہ طریقے سے ہو گا کہ دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ اور قصہ پاک۔

چلیں اب ایک اور پاکستان کا رخ کرتے ہیں، یہاں کے معیار اصول اور ضابطے کچھ الگ ہیں۔ اول تو یہاں کوئی ناپسندیدہ چیز نظر ہی نہیں آتی، لیکن اگر کسی نے دیکھ لی، تو بہتر ہے فوراً اپنی نظریں دوسری طرف پھیر لے، یعنی نہ کچھ دیکھا نہ سنا، اور اگر کوئی جان کی امان پا کر سوال کربھی لے تو ضروری نہیں جواب بھی ملے۔ حالانکہ معقول سوال بذات خود ایسا سیپ ہے جس میں علم کا موتی چھپا ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ریت ہی الگ ہے۔ ہماری انا تو بس ناک پر دھری رہتی ہے۔ ہم وہی کچھ سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں پسند ہو، خاص طور پر اگر آپ کوئی طاقت ور سرکاری عہدہ رکھتے ہیں تو دوسرے لوگ آپ کو کیڑے مکوڑے ہی نظر آئیں گے، لیکن اس سب کے باجود کوئی نہ کوئی سرپھرا سوال کی چوٹ سے باز نہیں آتا۔ سوال کی یہ مشکل سوشل میڈیا نے بھی آسان کر دی ہے۔ پہلے تو ایسے جنونیوں کو تھوڑا پیار سے سمجھایا جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر کسی کے دماغ میں اظہار رائے کی آزادی کا جرثومہ زیادہ ہی کلبلا رہا ہو، تو اس کے خاتمے کا بھی ایک سے بڑھ کر ایک طریقہ یہاں رائج ہے۔ عبرت کے لیے کئی تازہ بہ تازہ مثالیں سامنے رکھ دی جائیں گی، پھر بھی وہ سبق سیکھنے پر تیار نہ ہو تو خود بھی مثال بن سکتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے انکار یا فرار ممکن ہی نہیں۔ ہم ایسے مظاہرے سال ہا سال سے دیکھتے آئے ہیں۔

آج کل سی پیک کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے امریکا میں پھلتے پھولتے کاروبار کے بڑے چرچے ہیں۔ ان پر سرکاری عہدوں کے غلط استعمال سے اربوں روپے کا مالی فائدہ حاصل کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے بیوی بچوں کے امریکا سمیت چار ملکوں میں کئی کاروبار ہیں۔ مبینہ طور پر ان الزامات کے دستاویزی ثبوت کے دعوے بھی ہو رہے ہیں مگرصحافی نما خوشامدی پتلیاں اسے عجیب و غریب رنگ دے رہی ہیں، سوالات اٹھانے کو گستاخی اور ملک دشمنی قرار دیا جا رہا ہے۔

حد تو یہ کہ کچھ ایسے منظور نظر بھی ہیں، جنہیں یہ سب کچھ بھارتی ایجنسیوں کی سازش لگتی ہے۔ اور تو اور ماضی میں جن لوگوں کی کبھی صحافتی کامرانیاں مشہور ہوا کرتی تھیں، انہوں نے تو درباری پن اور قصیدہ خوانی کی انتہا کردی ہے۔ قصیدہ خوانی بھی ایسی جسے سن کر ابکائیاں آتی ہیں۔ دولت بچانے کے لیے عمر بھر کی عزت کوئی سربازار کیسے نیلام کرتا ہے، یہ تو کوئی ان صاحب سے سیکھے، ایسی بناوٹی دانشوری، مداح سرائی اور نام نہاد حب الوطنی کے مظاہرے شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے کو ملتے ہوں گے۔

یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ نہیں، جج، جرنیل یا جرنلسٹ سمیت کوئی فرد یا ادارہ آئین اور قانون سے بالاتر نہیں۔ مقدس گائے کا تصور تو اب ویسے ہی دنیا میں کہیں نہیں بچا۔ جمہوری اور ترقی یافتہ معاشرے جان چکے ہیں کہ تمام افراد کو بنا تفریق قانون کے نیچے لائے بغیر ریاست آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ کچھ عرصہ پہلے ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کو ناجائز دولت جمع کرنے پر دس سال کی سزا سنائی گئی، فرانس کے سابق وزیر اعظم شیراک اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہوت المرت بھی سزا سے نہ بچ پائے۔

جعلی دانشوروں، خود ساختہ میڈیائی بقراطوں اور مشہور و معروف پالشیوں و مالشیوں کو سمجھنا چاہیے کہ عاصم سلیم باجوہ محض ریٹائرڈ جنرل نہیں۔ وہ اس وقت بھی پاک چائنہ کوریڈور جیسے بڑے اور قومی نوعیت کے منصوبے کے چیئرمین ہیں۔ یہ 62 ارب ڈالر کا پراجیکٹ ہے۔ اگر ان پر مالی بدعنوانی کے الزامات لگ رہے ہیں تو اسے محض فوج یا سی پیک کے خلاف پروپگینڈا کہہ کر مسترد نہیں جا سکتا اور نہ کرنا چاہیے۔ اگر تو ہم اس ملک کی سمت درست کرنا چاہتے ہیں، اگر ہمیں ملک کا امن امان، معاشی استحکام اور عوام کی ترقی و خوش حالی مقصود ہے تو کسی بھی جمہوری ملک کی طرح پاکستان میں بھی آئین اور قانون کے پیمانے سب کے لیے یکساں رکھنا پڑیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کہا کرتے تھے کہ جس سیاست دان کے بیوی بچے اور کاروبار باہر ہو، وہ ملک سے کیسے مخلص ہو سکتا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو یہ اصول سب کے لیے ہونا چاہیے، چلیں اگر کسی وجہ سے اب تک ایسا نہیں ہو سکا تو کہیں سے تو آغاز کرنا ہو گا۔

دنیا بھر کا قاعدہ ہے، جہاں آمدن سے زیادہ دولت کا شبہ ہو گا، ریاستی ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ اگر مشکوک دولت یا کاروبار رکھنے والی شخصیت سرکاری ملازم یا سیاسی عہدے پر فائز ہو تو یہ گرفت اور بھی سخت ہو جاتی ہے۔ عوام خون پسینے کی کمائی سے حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں، اسی پیسے سے کاروبار مملکت چلتا ہے۔ ہر شہری کو پتا ہونا چاہیے اس کا دیا ہوا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ ایماندار حکومتیں یہ بات یقینی بناتی ہیں کہ قوم کی محنت کا پیسہ قوم کی فلاح کے لیے استعمال ہو، یہ کسی کرپٹ افسر کی جیب میں نہ جائے۔

اگر کوئی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ اربوں ڈالر مالیت کا قومی منصوبہ چلانے والے شخص کا کردار ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا چاہیے تو اس میں کیا غلط ہے؟ یہ تو وہ اصول ہے جس پر عاصم باجوہ صاحب کو بھی اعتراض نہیں ہے بلکہ وہ تو خود کہہ رہے ہیں ان کے پاس الزامات کی تردید کے لیے تمام دستاویز موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر اوروں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں؟

عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دے دیا ہے، اور انہیں دینا بھی چاہیے تھا، لوگ اس سے کتنے مطمئن ہوئے ہیں یا وضاحتوں سے معاملات اور پیچیدہ اور مشکوک ہوئے ہیں یہ عوام ہی پر چھوڑ دیا جائے۔ کسی بھی ملک کے سابق جنرل اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے کے چیئرمین پر اگر الزامات لگتے تو وہ ضرور جواب دیتا، ایک ذمے دار شخص ہونے کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اس سے پہلے دنیا کے سامنے ایک نا مکمل تصویر تھی۔ ہر کوئی اس میں اپنی مرضی کا رنگ بھر رہا تھا اور اس کا زیادہ نقصان خود باجوہ صاحب اور ان کے سابق ادارے کو ہو رہا تھا۔ اچھا ہوا انہوں نے وضاحت کر دی، ایسے معاملات میں طویل خاموشی شکوک و شبہات کو کم نہیں کرتی بلکہ اور بڑھاتی ہے۔

باجوہ صاحب پر لگنے والے الزامات کی اگر عدالتی سطح پر بھی تحقیقات کرائی جاتی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں، اگر عدالت سے ایسے الزامات غلط ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ باجوہ صاحب اور ان کی فیملی کے حق میں زیادہ بہتر ہو گا۔ انہوں نے خود بھی کہا ہے کہ ان کے پاس اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے تمام دستاویزات موجود ہیں، باجوہ صاحب کے ہاتھ اگر صاف ہیں اور یقیناً صاف ہی ہوں گے تو انہیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ جتنی جلدی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔

ہر پاکستانی کو فوج کی عزت اور وقار عزیز ہے، کوئی اپنے دفاعی ادارے کو بے وقعت نہیں کرنا چاہتا، لیکن بدقسمتی سے پہلے ہی فوجی قیادت پر موجودہ کٹھ پتلی حکومت بنانے کا سنجیدہ الزام ہے، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے بھائیوں پر مالی بد عنوانی کے سنگین الزامات ہیں، کچھ لوگ کیانی صاحب کو ”جزیرے والی۔“ سرکار قرار دے رہے ہیں، ملک بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں یہ تاثر شدید تر ہے کہ موجودہ بندوبستی نظام کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے، جس سے بات کرو لوگ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ دو ہزار چودہ کے دھرنوں سے لے کر نئی حکومت کی تشکیل تک عوام عسکری ادارے کے کردار کو شاکی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ معروف مقولہ ہے ”تاثر حقیقت سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے“ اس لیے فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو ہر اس اقدام سے دور رکھے جس سے اس کی غیر جانبداری متاثر ہو۔

یاد رہنا چاہیے امتیازی رویے اور قوانین ریاست کوگھن کی طرح اندر ہی اندر کھا جاتے ہیں، صرف کمزور طبقے پر قانون کا اطلاق ریاست میں اضطراب پیدا کرتا ہے اور یہی اضطراب آگے چل کر فسادات، خانہ جنگی اور ریاستی ٹوٹ پھوٹ پر منتج ہوتا ہے۔ کم از کم بنگلہ دیش بننے کے بعد تو ہمیں یہ سبق اپنے پلے باندھ لینا چاہیے تھا۔

عدل کیا ہے اور کتنا ضروری ہے یہ اسی وقت طے ہو گیا تھا جب کہہ دیا گیا ”بنو مخذوم کی فاطمہ چوری کرے یا بنو قریش کی ایک جیسی سزا پائے گی۔“ لوگوں کو سمجھا دیا گیا، تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے برباد ہوئیں، جب ان کا کوئی بڑا جرم کرتا تو چھوڑ دیا جاتا، جب کوئی معمولی شخص جرم کرتا تو سزا پاتا۔ ایسا اس لیے کہا گیا کہ قانون کے یکساں اطلاق کے بغیر کوئی معاشرہ قائم رہ ہی نہیں سکتا۔ یہ خدا کا ضابطہ ہے اور خدا اپنے ضابطے کے خلاف نہیں جاتا۔ چلتے چلتے وزیر اعظم عمران خان سے صرف ایک سوال، دو نہیں ایک پاکستان، کا نعرہ کیا واقعی آپ ہی نے لگایا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).