قیادت و رہبری کون کر سکتا ہے؟


وطن عزیز کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ہمیشہ سیاسی ابتری کا شکار رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ صرف سیاست کا میدان ہی آفت زدہ ہے بلکہ شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس کے کارکنان روزانہ سڑکوں پر نہ ہوتے ہوں۔ کسی دن اساتذہ تو کسی دن ڈاکٹر، کبھی تاجر تو کبھی ٹرانسپورٹر، غرض یہ کہ ملک میں روزانہ کوئی نہ کوئی ہڑتال، دھرنا چل ہی رہا ہوتا ہے۔ میڈیا کو سنسنی خیز خبریں ملتی ہیں، اینکرز کو ریٹنگ بڑھانے کے لیے گرما گرم موضوع مل جاتا ہے اور سیاست دانوں کو مخالفین کو پچھاڑنے کا ایک اور بہانہ۔

رہی سہی کسر وہ میراثی پوری کر دیتے ہیں جو انتہائی سنجیدہ موضوعات کو جگت بازی کی صورت میں پیش کر کہ عوام کو محظوظ کرتے ہیں، ظاہر ہے جگت پسند قوم کو ہر جگہ جگت باز ہی ملتے ہیں اور اس جگت بازی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ٹی وی، اخبارات، سوشل میڈیا، نجی محفلیں، کہیں بھی سنجیدہ اور علمی ماحول نہیں ملتا، اور ملے بھی کیسے، جب عوام کے منتخب نمائندے ہزاروں کے مجمع میں ایک دوسرے کو جگتیں لگانا کار خیر سمجھتے ہیں تو ان کے حامی کیسے کسی میدان میں ان سے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اس ٹھٹھا، مذاق کے ماحول میں کوئی فکر مند ہی نہیں کہ ملک روز بہ روز کیوں زوال پذیر ہے؟

ہمارے جوان طبقے کو چاہیے کہ اس غیر سنجیدہ ماحول سے نکل کر اور کچھ نہیں تو دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات کا مطالعہ ہی کر لیں، ان افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں جنہوں نے اپنے ملکوں کو ذلت و پستی سے نکال کر عزت و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ تاریخ کے ان نمایاں انقلابات کو پڑھنے کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہوگا کہ ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ عوام کے اندر موجود سیاسی، فکری، اور ثقافتی شگاف کو جہت دینا ان کے بس کی بات نہیں جن کو ہم برسوں سے باری باری اپنی گردنوں پر سوار کرتے چلے آرہے ہیں۔

بلکہ یہ کام کسی بابصیرت قیادت کا ہے، جو موجودہ سیاسی، فکری، اور ثقافتی خلیج کا علمی بنیادوں پر جائزہ لے، ان حالات کے اسباب و علل دریافت کرے اور ان اسباب کی روشنی میں عوام کے لیے کوئی راستہ معین کرے۔ اس راستے کو اس طرح مدلل انداز میں ترویج کرے کہ عوام اس راستے پر ایمان لے آئیں۔ ان مراحل سے گزرے بغیر عوام کو سبز باغ دکھانے والا الیکشن کا لیڈر تو ہو سکتا ہے کسی انقلاب کا نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا، قیادت و رہبری کے اس فقدان کا فائدہ اٹھا کر جعلی اور نا اہل افراد قائد و رہبر بن کر ہر زمانے میں ملک و قوم کو لوٹتے رہے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم درست راہ پر چلنے کی بجائے متبادل راستوں کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے، تعلیمی نظام کا متبادل، معاشی نظام کا متبادل، سیاسی نظام کا متبادل، رہبری و قیادت کا متبادل۔ ہم نے رہبری و قیادت کے اصول پڑھے ہی نہیں ہیں بلکہ ہر کسی کے لیے اپنے اپنے منتخب نمایندے کا ہر قول و عمل قیادت و رہبری کا عمدہ نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم اتنے ’عظیم رہنما‘ ہونے کے باوجود بھی شرف و عزت کا دن نہیں دیکھ سکی۔ ہم نے ہر راہ جاتے کو اپنا رہبر و رہنما بنایا ہے، ہر راستے پر چل کر دیکھا ہے لیکن کسی پختہ کار کو اپنا پیشوا نہیں بنایا، کیوں؟ کیونکہ ابھی حالات خراب ہیں، ابھی وقت کا تقاضا کچھ اور ہے، ایک صدی ہونے کو آئی ہے لیکن حقیقی قیادت و رہبری کا دامن تھامنے کا وقت ابھی بھی نہیں آیا۔

عوام کے اندر عموماً موجودہ حالات کا درست تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور وہ ہر طرح کے حالات سے سمجھوتہ کر لینے کو ہی بہترین راہ حل سمجھتے ہیں۔ اگر قیادت و رہبری کی صلاحیت رکھنے والے افراد میسر نہ ہوں تو بہت سی ایسی فرصتیں ضائع ہوجاتی ہیں جن کو کسی انقلابی تحریک میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔

قیادت کا سب سے پہلا اور اہم کام آئیڈیالوجی کی روشنی میں عوام کے اندر عدم اطمینان کا احساس پیدا کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں پوری قوم ہی ”سمجھوتہ ایکسپریس“ پر سوار ہے اور اس ایکسپریس کا سفر اتنا تیز ہے کہ آج اس قوم نے سمجھوتہ کرتے کرتے ہر خرابی کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ کسی نشئی سے نشہ چھڑانا آسان ہے لیکن معاشرتی بگاڑ کے ساتھ خوگر ہو جانے والی قوم کے اندر احساس عدم اطمینان پیدا کرنا بہت دشوار ہے۔

وہ قوم جس کے اندر علم و برہان کی بجائے آبائی رسم رواج اور قبائلی بنیادوں پر فیصلے ہوتے ہوں، جس کے جوانوں کے اندر غیر سنجیدگی کی عادت راسخ ہو چکی ہو، ایسے معاشرے میں موجودہ حالات پر احساس عدم اطمینان پیدا کرلینا بہت حوصلے اور ہمت کی بات ہے اور یہ کام قیادت و رہبری کو کرنا ہوگا۔ اگر یہ پہلا اور دشوار مرحلہ طے نہ کیا جائے تو غیر آمادہ عوام کو میدان میں لانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ غیر آمادہ افراد نقصان کا باعث ہوں گے۔

با بصیرت رہبر قوم کے اندر احساس زیاں کو اس قدر قوی کر دیتا ہے کہ یہ قوم ذلت کی زندگی کو کسی صورت قبول نہیں کرتی۔ رہبر ہی ذلت آمیز قوم کو ذلت ستیز قوم بنا تا ہے۔ یہ قیادت و رہبری فرد واحد کے پاس بھی ہو سکتی ہے اور چند افراد مل کر بھی یہ فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ دنیا میں دونوں طرح کی قیادت و رہبری کے نمونے موجود ہیں۔ مثلاً 1962 میں فرانسیسی استعمار کے خلاف کامیاب ہونے والے انقلاب الجزائر کی قیادت ایک گروہ کے ہاتھ میں تھی جو اپنی اپنی پارٹی کے سربراہان تھے، البتہ گروہی قیادت کے اندر بھی ایک یا دو افراد قائدانہ صلاحیت کے لحاظ سے زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ فرد واحد کی قیادت کے لیے امام خمینی ؒ اور فیڈل کاسترو کی مثال لی جا سکتی ہے۔

علامہ اقبال نے اپنے کلام میں رہبر کی خصوصیات اس طرح پیش کی ہیں :
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).