سابقہ فاٹا کی موجودہ صورت حال


سابقہ فاٹا (وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات) میں نائن الیون کے بعد سے اب تک پاکستانی افواج نے دس آپریشن کیے ہیں جس نتیجے میں تقریباً بیس لاکھ لوگوں کو علاقے سے نقل مکانی کرنی پڑی کیونکہ ان گھر، کاروبار، ہاسپیٹلز اور اسکول تباہ ہو گئے۔ اگر صحت کا نظام دیکھا جائے تو وہاں پہ ہر دو ہزار پانچ سو لوگوں کے لیے ایک ہاسپیٹل بیڈ ہے پاکستان کے باقی علاقوں سے موازنہ کرتے ہوئے جہاں ہر سولہ سو لوگوں کے لیے ایک ہاسپیٹل بیڈ دستیاب ہے۔ سابقہ فاٹا میں کم و بیش پانچ ہزار کے قریب سرکاری تعلیمی ادارے فعال ہیں جن میں سے پچھتر فیصد سے زائد پرائمری اسکول ہیں۔

یہ درست ہے کہ یہ مسائل بھی توجہ کے متقاضی ہیں لیکن فوری طور پر پشتونوں کو جس عفریت کا سامنا ہے وہ نہ ختم ہونے والی دہشت گردی ہے جس نے ان کی بقا کو بھی خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ ماضی قریب میں دو آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کیے گئے ہیں جس سے علاقے کے لوگوں کو در بدر ہونا پڑا اور ایک طویل عرصے تک ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

پاکستان کی فوج نے دہشتگردوں کے خاتمے کا دعوی کیا جس کے بعد آئی ڈی پیز کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا علاقہ مکین تو اس امید کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے کہ اب ان کی زندگی سکون سے گزرے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ ایک تو علاقہ کلیئر قرار دیے جانے کے باوجود بہت سے لوگ فوج کے لگائے کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار ہیں اور ان کی بحالی کا کوئی امکان ظاہر نہیں کیا گیا۔

جو لوگ اپنے علاقے میں پلٹے ان کو اپنے گھر اور کاروبار تباہ ملے اور مقتدر حلقوں نے باوجود وعدوں کے متاثرین کو مدد فراہم نہیں کی جس پر کورونا کی وبا شروع ہونے پہلے دو ماہ سے جاری دھرنے کو پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے منتقل کیا گیا لیکن بغیر کسی نتیجہ کے ختم کر دیا گیا۔

سب سے بڑا سوال علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن قائم کرنے کا تھا۔

ریاستی اداروں کی جانب سے کیا گیا دعوی کھوکھلا ثابت ہوا اور دوبارہ سے نامعلوم افراد کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے شروع ہو گئے۔ پشتون تحفظ تحریک کے پلیٹ فارم سے جب پشتون نوجوانوں نے دہشت گردوں کی تنظیم نو اور دوسرے مسائل کی طرف مقتدر حلقوں کی توجہ دلائی تو انہیں ملک دشمن ایجنٹ قرار دے کر مین اسٹریم میڈیا سے بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔

پشتون تحفظ تحریک کے قیام اور ان مسائل کو ہائی لائٹ کرتے دو سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے اس دوران انہیں اپنے حقوق کی بات کرنے پر ریاستی جبر کا سامنے کرنا پڑا لیکن ان کی کہی ہوئی باتیں ہر گزرتے دن کے ساتھ سچ ثابت ہو رہی ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو گیا جس ناصرف سکیورٹی اہلکاروں کی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ جواب میں مقامی لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا دعوی ہے کہ دو دن قبل شمالی وزیرستان کے علاقے شکتوئی میں ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد مقامی لوگوں کو اجتماعی سزا کے طور پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دو سو لوگوں جن میں خواتین اور بچے بھی ہیں انہیں ایک اسکول کی عمارت میں قید کر دیا گیا ہے۔ میڈیا پر ایسے واقعات کو بالکل کوریج نہیں دی جاتی جس سے عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کرنے اور خود ہی عدالت بن جانے والے عناصر کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).