آصف فرخی: بس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا


یہ 1978ء کی بات ہے جب میں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں سال آخر کا طالب علم تھا اور طب کی تعلیم حاصل کرنے سے زیادہ ملک میں سوشلزم کے نفاذ میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں اور میرے جیسے بہت سے طالب علم دن میں جاگتے ہوئے اور رات میں سوتے ہوئے خواب دیکھتے تھے کہ پاکستان میں ایک انصاف پر مبنی غیر طبقاتی سماج کا ظہور ہونے والا ہے جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا، مزدور اور کسان بھوکے نہیں سوئیں گے، عورتوں کو آزادی ملے گی اور سارے بچے اسکول جائیں گے، غربت کا خاتمہ ہو گا۔

اس بات کا احساس تھا ہی نہیں کہ ملک میں ضیا الحق کی فوجی حکومت ہے جو مذہبی دیوانگی کو فروغ دے رہی ہے اور ظالمانہ طریقوں سے چوراہوں پر کوڑے لگا کر شہریوں کو دہشت زدہ کررہی ہے۔ ریاست اور اس کے حکمران بہت مضبوط ہیں۔ اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ ترقی پسند اور روشن خیال لوگوں کی بہت کمی ہے، جو ہیں وہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ان میں تعلیم و آگہی کی کمی ہے اور دیانت داری کا فقدان ہے۔ میں طلبا کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کا سرگرم کارکن تھا اور تمام وقت اس تنظیم کے تنظیمی اور پروپیگنڈا کے کاموں میں الجھا رہتا تھا، یہ سمجھے بغیر کہ اس جدوجہد کا نتیجہ کیا ہو گا۔

مجھے خبر دی گئی کہ میڈیکل کالج میں نئی آنے والی کلاس میں کراچی تعلیمی بورڈ میں سائنس کے مضمون میں اول درجہ حاصل کرنے والے طالب علم کا داخلہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہو گیا ہے۔ یہ بندہ بہت مقبول ہے، اپنا حلقہ اثر رکھتا ہے اور دوستوں کے ایک گروہ میں رہتا ہے اس لیے آئندہ کالج کے الیکشن میں اس کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اسے NSF میں گھیر کے لانا ہو گا۔

یہ طے ہوا کہ صبح کی دو کلاسوں کے بعد جب پہلے اور دوسرے سال کے طالب علم کینٹین میں چائے سموسے کے لئے آئیں گے تو اس طالب علم کو کینٹین میں کونے والی میز پر اس کے دوستوں کے ساتھ بٹھانے کا انتظام ہو جائے گا جس کے فوراً بعد میں بھی پہنچ جاؤں گا۔ میرا تعارف آخری سال کے سینئر طالب علم کی حیثیت سے کرایا جائے گا پھر میں وہاں بیٹھ جاؤں گا اور نئے آنے والے طالب علموں کے ساتھ کراچی بورڈ میں اول درجہ حاصل کرنے والے کو بھی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے پھنسالوں گا۔

اس وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کئی طلبا تنظیمیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا تحریک کے زیر نگرانی تعلیمی اداروں میں کام کرتی تھیں جن کا مقصد طلبا و طالبات میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنا ہوتا تھا۔ اس وقت بھی آج کل کی طرح سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت کا نہ ہی کوئی مناسب انتظام تھا اور نہ ہی کوئی خاص مقصد تھا۔ اس وقت بھی یہی کوشش تھی کہ پڑھائی کے نام پر ایسے ذہن پیدا کیے جائیں جوذہنی طور پر مفلوج ہوں اور تمنا کے دوسرے قدم کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔

آج بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام میں ذہن کو جلا دینے کے بجائے ذہن کو بند کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے پاکستان میں جو اسکول کالج نہیں جا سکتے، وہ ناخواندہ ہیں اور تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ مگر باضابطہ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، انجینئر، ایم بی اے، کمپیوٹر کے ماہر اور یونیورسٹی کے سندیافتہ مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر ذاکر نائیک، علامہ اختر نقوی اور اوریا مقبول جان کی باتوں پر سر دھنتے ہیں اور ان کی پیروکاری کرتے ہیں اور ان کی غیر سائنسی باتوں کو ان سے زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

اس دن ٹھیک پونے گیارہ بجے صبح ڈاؤ میڈیکل کالج کے مرکزی گیٹ پر واقع عمارت کی پہلی منزل پر موجود تاریخی کینٹین میں بڑی ساری کھڑکی کے ساتھ میز پر سات آٹھ نئے طالب علم این ایس ایف کے ایک جونیئر کارکن کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جہاں میں بھی پہنچ گیا تھا۔ کینٹین کے کونے والی اس میز کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میز پر بیٹھ کر نیچے جہاں یہ اسٹوڈنٹس کارنر کا ٹک شاپ تھا پہ آنے جانے والوں اور خاص طور پر طالبات پر نظر رکھی جاسکتی تھی لہٰذا عام طور پر اس میز پر بیٹھنے کے لئے پہلے ہی سے کسی کو بٹھانا پڑتا تھا۔

ہمارے جونیئر ساتھی نے میرا تعارف کرایا کہ میں سال آخر کا طالب علم ہوں اور عن قریب ڈاکٹر بننے والا ہوں اور اچھا موقع ہے کہ میں نئے آنے والوں کی کچھ رہنمائی کروں۔

میں نے اپنی سینیارٹی کا رعب جمانے کے لیے بیٹھنے کی دعوت قبول کرنے کے بعد اعلان کیا کہ چائے، پیٹیز اور سموسہ میری طرف سے ہو گا۔ اس اعلان کا خوش دلی اور مسکراہٹ کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا اور ساتھ ہی سارے نئے طالب علموں کا مجھ سے تعارف کرایا گیا، اور خاص طور پر بتایا گیا کہ یہ آصف اسلم ہیں اور کراچی کے تعلیمی بورڈ میں پورے کراچی میں درجہ اول پر آئے ہیں۔

یہ میری آصف اسلم سے پہلی ملاقات تھی۔ اس پہلی مختصر ملاقات کو میں کبھی بھی نہیں بھول پایا۔

سر پر بھرے بھرے بال، انتہائی چمکدار ذہین آنکھیں، چہرے پر شرارتی مسکراہٹ اور دھیمے انداز سے آہستہ آہستہ مکمل اعتماد سے بولنے کا طریقہ۔ کچھ خاص باتیں جو میں نے فوری طور پر محسوس کی وہ یہ تھیں کہ طلبا کے اس گروہ میں سارے ہی ذہین و فطین طلبا بیٹھے ہوئے تھے مگر صرف آصف تھے جن کی اردو میں غیر ضروری طور پر انگریزی کے الفاظ نہیں تھے۔ وہ کم گو نہیں تھے، فوری طور پر دوستانہ رویے کے ساتھ بات چیت شروع کر دی تھی۔ شرارتی انداز میں جملے کس رہے تھے، یہاں تک کہ میرے سنائے ہوئے ضیا الحق کے بارے میں ایک مضحکہ خیز لطیفے پر جملہ کس دیا تھا۔

وہ ملاقات بہت طویل تو نہیں تھی مگر مجھے مکمل طور پر اندازہ ہو گیا کہ آصف کو صرف کیمسٹری، فزکس اور بائیالوجی کے علاوہ بھی بہت کچھ آتا ہے۔ اس دن کالج، طلبا کی سیاست، طب کی تعلیم اور ضیا الحق کی فوجی حکومت کے بارے میں تھوڑی تھوڑی باتیں ہوئی تھیں اور چائے سموسے پیٹیز کے بعد ملاقات ختم ہو گئی تھی۔ میں آصف کی باتوں سے مرعوب ہو گیا تھا اور ان کے لیے ایک خاص پسندیدگی پیدا ہو گئی تھی اور اچھی بات یہ تھی کہ یہ یک طرفہ نہیں تھی۔

میں آصف کو این ایس ایف اور سوشلزم کی مکمل تحویل میں تو نہیں لے سکا مگر انہوں نے مجھے ضرور گرفتار کر لیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد جتنے دن بھی میں کالج میں رہا، گاہے بگاہے موقع بہ موقع ٹک شاپ پر، سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے یا کینٹین میں ان سے ملاقات ہوتی تو اردو افسانوں اور شاعری پر ان سے بات ہوتی تھی۔ وہ کسی کتاب کا ذکر کرتے اور میں بھی کسی کی کہانی سنا دیتا۔ اس زمانے میں میں اپنے آپ کو خاصا بڑا علامہ سمجھتا تھا کیوں کہ میں نے اپنے ہم جماعتوں کے مقابلے پر شاید ان سے چار پانچ زیادہ کتابیں پڑھ لی ہوں گی مگر آصف سے ملاقات کے بعد اندازہ ہوا کہ بارہویں جماعت تک کے پڑھے ہوئے آصف اسلم نے اردو ادب کو اچھی طریقے سے کھنگالا ہوا تھا اور ساتھ ہی انگریزی ادب میں بھی انہوں نے کافی کچھ پڑھا ہواتھا اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان کے منہ سے ان لکھاریوں اور شاعروں کا نام نکل جاتا جن سے ان کی ملاقات ہو چکی تھی اور ان کی باتیں سن کر مزہ بھی آتا تھا۔ ان کے والد صاحب کی وجہ سے ان کے گھر میں ایسے ادیبوں شاعروں کا آنا جانا تھا جو میرے لیے بہت غیر معمولی بات تھی۔

آصف اس زمانے میں بہت سی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ ریڈیو پاکستان سے بزم طلبا کی نشریات میں شامل تھے، شہر میں ادبی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور میڈیکل کالج میں طب کی تعلیم کے علاوہ ادبی محفلیں سجا کر رکھتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ وقت بہت تیزی سے نکل گیا۔

ڈاکٹر بننے کے بعد میں عن قریب ظہور ہونے والی مساوات کی خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں آ گیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے کے لئے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کیا ہی تھا کہ فوج سے بلاوا آ گیا۔ فوج سے بھاگنے کے لئے جلدی جلدی پاسپورٹ بنا کر میں کینیا چلا گیا، جہاں ایک دوست کی سفارش سے نیروبی کے آغا خان ہسپتال میں ہاؤس جاب کی نوکری مل گئی، جہاں ڈیڑھ سال کام کرنے کے بعد میں انگلستان پہنچ گیا۔

ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں طب کی تعلیم پر جتنی توجہ میں نے دی تھی اس کے نتیجے میں برطانیہ کے کسی بھی پیشہ ورانہ امتحان میں کم از کم چار دفعہ فیل ہو کر ہی پاس ہوا۔ اس گہما گہمی اور مارا ماری میں آصف کو تقریباً بھول گیا۔

اس عرصے میں آصف ڈاکٹر بنے، جس کے بعد انہوں نے آغا خان ہسپتال کراچی میں دماغی امراض کے شعبے میں اس نیت سے ملازمت شروع کی کہ وہ دماغی امراض کے ماہر بننا چاہتے تھے مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ ذہنی امراض اور اس کے علاج میں انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے آغا خان ہسپتال میں ہی عوامی صحت کے شعبے میں پروفیسر جان ہارلینڈ برائیٹ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔

انہوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ پروفیسر برائیٹ نے طبی تعلیم، بیماری اور اس کے علاج سے متعلق ان کے تصورات کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ عوامی صحت (پبلک ہیلتھ) اور صحت کے نظام میں خامیوں کے بارے میں برائیٹ کے خیالات بہت مختلف تھے۔ غریب لوگوں کی صحت، حکومتوں کا رویہ اور صحت کی منصوبہ بندی کے بارے میں انہوں نے برائیٹ سے بہت کچھ سیکھا اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر عوامی صحت کے شعبے کو ہی اپنا مستقبل بنا لیا۔

آغا خان ہسپتال سے ہی وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں عوامی صحت کے شعبے میں ماسٹرز کرنے کے لئے گئے۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ واپس آ کر آغا خان ہسپتال میں تعلیم و تدریس اور تحقیقی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ ان کی زندگی کا یہ حصہ بہت ساری کامیابیوں، شرارتوں، ہنگاموں اور صحت کے بارے میں بدلتے ہوئے خیالات سے آگہی کے حصول میں گزرا۔

میں 1990ء میں زنانہ امراض اور ان کے علاج میں تھوڑی بہت تعلیم اور تربیت حاصل کرکے پاکستان واپس پہنچا تو وہ آغا خان ہسپتال میں ہی کام کر رہے تھے مگر ہماری ملاقات نہیں ہو سکی۔

مجھے بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ڈاؤ میڈیکل کالج میں نوکری ملی جہاں کے غیر تدریسی ماحول اور کام کی شدید کمی سے اکتا کر میں نے کراچی میونسپل کارپوریشن کے کشن دیوی چینومل سوبھراج میٹرنٹی ہوم میں اپنا تبادلہ کرا لیا۔ یہ میٹرنٹی ہوم کراچی کے ایک ہندو سیٹھ نے 1925ء میں اپنی بیوی کشن دیوی کے نام پر کراچی کی غریب عورتوں کے مفت علاج کے لیے بنایا تھا جہاں سندھ و بلوچستان کے مریض کثیر تعداد میں آتے تھے۔

سوبھراج ہسپتال میں بے انتہا کام تھا۔ شہر کے غریب ترین علاقوں سے حاملہ عورتیں زچگی کے ہنگامی علاج کے لیے یہاں کا رخ کرتی تھیں۔ ہسپتال میں ہر وقت ایک ہنگامہ سا لگا رہتا تھا۔ صبح سے شام ہو جاتی مگر کام ختم نہیں ہوتا تھا۔

اس زمانے میں آصف اسلم آغا خان ہسپتال سے فارغ ہو کر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسیف کے ملازم ہو گئے تھے۔

ان سے دوبارہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں پاکستان میں لڑکیوں کی حالت زار حمل اور زچگی میں عورتوں کی خوفناک شرح اموات سے پریشان تھا۔ یونیسیف میں ڈاکٹر آصف اسلم، ڈاکٹر سریر آرا کے ساتھ انہی مسائل پر کام کر رہے تھے۔

آصف اسلم نے عورتوں کی صحت کے سلسلے میں یونیسیف کے توسط سے ہر ممکن طریقے سے میری مدد کی۔ اسی زمانے میں ہی میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا۔ میں نے آصف سے مشورہ کیا اور یونیسیف کے تعاون سے پاکستان میں ماؤں کی اموات اور فسٹیولا جیسے غیر انسانی مرض جس میں زچگی کے بعد پیشاب ہر وقت بہتا رہتا ہے، کے بارے میں آگہی پھیلانے کا کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں ہم دونوں نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ملک بھر میں پھیلی ہوئی شاخوں میں ڈاکٹروں کے لیے ورکشاپ اور عوام کی آگہی کے لیے کئی اجلاس منعقد کیے اور کئی سالوں تک یہ مہم چلاتے رہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یونیسیف اور یو این ایف پی اے کی وجہ سے ہی یہ مسائل اجاگر ہوئے اور اخباروں میں اس بارے میں خبریں آنے لگیں۔

ہم لوگ پاکستان کے دور دراز علاقے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، گوادر، تربت، پسنی، لورالائی، چترال، سوات، تھرپارکر اور چولستان جیسے علاقوں میں سفر کرتے رہے۔ پاکستان بھر میں عورتوں کی صحت اور ان کی سماجی حیثیت کا اندازہ ان کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کے بارے میں انہی دوروں کے دوران ہمیں آگہی ملی۔ پہلی دفعہ پتا چلا کہ عورتیں غربت اور زبردست ظلم و تشدد کا شکار تھیں اور اب بھی ہیں اور نہ جانے کتنے سیکڑوں سالوں تک رہیں گی۔ ان دوروں میں سفر کے دوران میں ہماری گفتگو کا محور یہی ہوتا تھا۔

سن 2000ء کے اوائل میں یونیسیف نے کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے تعاون سے دنیا کے چند پس ماندہ ممالک میں زچگی اور حمل میں عورتوں کی اموات پر قابو پانے کے لئے مہم کا آغاز کیا۔

اس پروجیکٹ کے دوران میں مجھے اور ہماری ٹیم کے بہت سے لوگوں کو آصف کے ساتھ مراکش، نیپال، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، بنکاک اور دیگر شہروں میں جانے کا موقع ملا۔

شیخ سعدی کے قول کے مطابق ان سفروں کے دوران میں ہی پتا چلا کہ آصف کس قسم کے آدمی ہیں۔ سفر اور دورانِ سفر مختلف ٹھکانوں کے مسائل کے بارے میں میں نے کبھی ان کے منہ سے شکایتیں نہیں سنیں۔ وہ ہر حال میں خوش رہنے والے انسان تھے اور ہر موقع پر دوسروں کی مدد کرنے سے چوکتے نہیں تھے۔ سفر کے دوران میں ہر روز لطیفے سناتے اور لطیفے سنتے رہتے تھے۔ مصروف ترین دن میں بھی نئے شہر میں اہم جگہوں کی فہرست ان کے پاس ہوتی تھی۔ ہم دونوں نے ساتھ ہی کھٹمنڈو میں گم شدہ مغل شہزادی کی قبر دیکھی اور بنکاک میں گوتم بدھ کا سونے کا مجسمہ دیکھا۔ روزانہ ہی پیروں کا مساج کرایا اور مراکش کے بربر چوک پر روایتی پیروں، جادوگروں اور کئی داستان گو لوگوں سے ملاقات ہوئی، ساتھ ہی ٹھیلے پر کھانا بھی کھایا۔ ان کے ساتھ ہر سفر ایک سفرنامے کا مطالبہ کرتا ہے۔

ادب میں جو ان کا مقام ہے وہ اپنی جگہ پر مگر عوامی صحت کے حوالے سے ان کی تقریریں اور اجلاس میں ہونے والی ایک گفتگو اور بحثیں اپنی جگہ آب ہوتی تھیں۔ ان کا انداز ہمیشہ پیشہ ورانہ ہوتا۔ سخت ترین اختلافات کے باوجود وہ اپنی صحیح بات اس انداز سے کہتے تھے کہ عام طور پر لوگوں کو ماننا ہی پڑتا تھا۔ ماؤں کی اموات، چھوٹی بچیوں (Girls Child) پر زیادتی اور پولیو کا خاتمہ جیسے موضوعات پر وہ بے تکان اور بے خوف بولتے تھے۔ وہ اقوام متحدہ کے اداروں میں موجود نوکر شاہی سے پریشان بھی ہوتے مگر کام کے وقت کام کی بات کرتے تھے۔

پاکستان میں آنے والے خوفناک زلزلوں کے دوران میں، میں اور آصف کئی ہفتوں تک پاکستان کے شمالی علاقوں میں متاثرین کے لیے کام کرتے رہے۔ جہاں دن کو مختلف جگہوں پر وہ جا کر یونیسیف سے آنے والے امدادی سامان کی جانچ پرتال کرتے تھے، وہاں رات کو بیٹھ کر اپنا روزنامچہ بھی لکھتے رہتے تھے۔ ”دنیا زاد” کا ایک پورا شمارہ زلزلوں کی داستان پر ہی شائع کیا گیا۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں آصف، ڈاکٹر حامد منظور اور فیصل ایدھی دور دراز علاقوں میں کسی نہ کسی طرح پہنچتے، انسانی بے بسی اور بے کسی کے بارے میں ہونے والے تجربوں کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

اسی طرح سے سندھ میں آنے والے شدید سیلاب کے دوران میں، میں ان کے ساتھ سندھ کے دور دراز علاقوں میں سفر کرتا رہا۔ گرمی، پانی اورانتہائی خراب حالات میں۔ کبھی کشتی، کبھی لانچ، کبھی ہیلی کاپٹر اور کبھی گدھا گاڑی پر بھی سفر کرتے رہے اور وہ اپنی عادت کے مطابق اپنا روزنامچہ لکھتے رہے۔ یہ ایک ایسی عادت تھی جو ان کی زندگی کا حصہ تھی اور اب ان کے کاغذات میں وہ تفصیلات موجود ہیں۔

لکھنے اور پڑھنے جیسے معاملات میں وہ کبھی تھکتے نہیں تھے۔ یہی ان کی ایسی خوبی تھی جو ان کی زندگی کے آخر آخر لمحات تک ان کے ساتھ رہی۔ غزل آصف فرخی ان کی صاحب زادی بڑی لگن اورمحنت سے ان کے کاغذات پر کام کر رہی ہیں، ان کی کتابوں کو سنوار رہی ہیں اور ان کی پینٹنگز کی حفاظت کر رہی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بتایا کہ ”دنیا زاد” کے آخری شمارے پر کام ختم ہو گیا ہے اور وہ پریس میں چھپنے کے لیے جا رہا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ غزل آصف کی تمام تحریروں کو نہ صرف یہ کہ محفوظ کریں گی بلکہ ان کی اشاعت کا بند و بست بھی کریں گی۔ آصف کے چاہنے والے یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ غزل بھی یہی چاہتی ہیں۔

اسی زمانے میں ملک کے حالات کی وجہ سے پاکستان میں یونیسیف میں کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کا دل یونیسیف سے اچاٹ ہو گیا اور انہوں نے یونیسیف چھوڑ دیا۔

ان کی نئی زندگی کا آغاز کراچی میں بننے والی نئی نویلی یونیورسٹی میں نئے انداز سے ہوا۔ وہ صبح سے شام تک پڑھاتے اور پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ طلبا و طالبات سے ان کا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ کیا جمعہ کیا اتوار، انہیں جب بھی موقع ملتا اپنے طالب علموں کا مطالبہ پورا کرتے۔ نئے نئے ڈھنگ سے اپنے مضامین میں دلچسپی پیدا کرتے۔ ان کے طالب علم شہد کی مکھی کی طرح انہیں گھیرے رہتے تھے۔

میں نے دیکھا کہ وہ اپنے طالب علموں کے ساتھ پرانے کراچی میں گھوم رہے ہیں، کچی آبادیوں میں کلاسیں لے رہے ہیں، ہمارے ہسپتال میں ان کے ساتھ موجود ہیں، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے آفس میں ڈاکٹروں کے ساتھ ان کا مکالمہ کرا رہے ہیں، آرٹس کونسل میں کسی مذاکرے میں سب کو لے کر آ گئے ہیں۔ ماؤں کی اموات پر شیما کرمانی کا بنایا ہوا کھیل سب کو دکھا رہے ہیں اور اس پر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ان تمام کاموں میں انہیں مزہ آتا تھا۔ وہ یہ کام فرض سمجھ کر نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لیے یہ نشے کی حیثیت رکھتا تھا۔

انہیں جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا وہ وہاں تو ہوتے ہی تھے لیکن بعض ایسی جگہوں پر بھی مل جاتے تھے جہاں عام طور پر پڑھنے لکھنے اور پڑھانے والے لوگ نہیں جاتے۔

آصف زبردست حس مزاح رکھتے تھے، لطیفے گھڑتے تھے، سناتے تھے، سنتے تھے اور دل کھول کر ہنستے تھے۔ ان کی لائبریری میں بعض لطیفوں کی عجیب و غریب کتابیں تھیں۔ کبھی کبھی اتوار کے دن جب عرفان خان، طارق فضلی، امر محبوب ٹیپو اور میں ان کے گھر پر جمع ہوتے تو کھانے کے بعد بیٹھ کر خوب باتیں ہوتی تھیں تو ان کتابوں کا لطف دو بالا ہو جاتا تھا۔

ان کی لوگوں سے بندھے رہنے کی خوبی ایسی تھی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انہیں دنیا بھر میں ہونے والی ادبی تحریکوں کا پتا ہوتا تھا اور ساتھ ساتھ ادبی محاذ پر ہونے والے بحث مباحثہ سے بھی آگاہ رہتے تھے، ان کی وجہ سے مجھے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کو آگہی مل جاتی تھی۔ ان کے توسط سے ہی میں بھارت میں بہت سے اردو اور ہندی لکھنے والوں سے آگاہ ہوا اور انہوں نے ہی مجھے لندن، پیرس، برلن میں میں برپا ہونے والی ادبی تحریکوں سے آگاہ کیا۔

ان کی ایک عادت جس کی مثال ملنا مشکل ہے کہ وہ ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ کئی لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس قابل نہیں ہے کہ کہیں پڑھا جائے یا شائع کیا جائے لیکن آصف نہ صرف یہ کہ حوصلہ افزائی کرتے بلکہ جہاں تصحیح کی ضرورت ہوتی وہاں تصحیح کرکے مناسب جگہوں پر ان کی اشاعت کا اہتمام بھی کرتے تھے۔

بھارت میں ان کی یاد میں ہونے والے زوم اجلاس میں محترم شمس الرحمان فاروقی صاحب نے کہا:
”آصف فرخی کو یہی خراج عقیدت ہے کہ زندگی کا بڑا حصہ انہوں نے انتہائی مصروفیت کا گزارا اور ایسی مصروفیت کا گزارا جو کہ کار آمد مصروفیت تھی۔ یہ نہ صرف آصف کے لئے کارآمد تھی بلکہ ادبی قوم کے لیے کارآمد تھی۔“

یہ بات بالکل درست ہے۔ انتہائی اداسی اور تنہائی کے خوفناک لمحوں میں بھی وہ بغیر رکے کام کرتے رہے۔ جب بیمار پڑے اور ڈاکٹروں کے پاس بھی آتے جاتے رہے تو بھی کاغذ کے پلندے اور مضامین اور کہانیوں کے لفافے ان کے ساتھ رہے، ان کا سوچتے رہنے والا ذہن مسلسل کام کرتا رہا۔ ان کی انگلیاں الفاظ بکھیرتی رہیں۔ ان کی آنکھیں دیکھتی رہیں اور کان سنتے رہے۔ بس ایک دن ایک دم دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔

ایسی لگن، ایسی جتن والے آدمی اور بھی ہوتے ہوں گے لیکن میرے رابطے میں تو یہی ایک شخص تھا۔ آصف اسلم فرخی جس کی یاد میں اس اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے۔

(6 ستمبر 2020ء بروز اتوار، واشنگٹن امریکا میں ”آصف اسلم فرخی کی یاد میں“ منعقدہ اجلاس میں اظہار خیال)

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).